پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت
ہے ،گزشتہ پانچ سال بھی ’’ن‘‘ ہی برسر اقتدار رہی جبکہ اسے قبل مسلم لیگ(ق)
کے چوہدری پرویز الہی بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔مسلم لیگ(ق) کے
دور حکومت میں بھی پنجاب میں ترقیاتی کام ہوئے لیکن مسلم لیگ(ن) کی حکومت
بھی ترقیاتی کاموں سے پیچھے نہیں رہی،دوسری طرف پنجاب حکومت نے عوامی و
فلاحی پروجیکٹس ہر بھی کام کیا۔طلباء وطالبات کو میرٹ پر لیپ ٹاپ ڈیئے
گئے،سولر انرجی تقسیم کی گئیں،ذہین و پوزیشن ہولڈر طلباء و طالبات کو بیرون
ممالک بھیجا گیا،میٹرو بس سروس شہباز شریف حکومت کا بہت بڑا منصوبہ ہے جس
سے لاہور کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں،اسی حکومت نے یوتھ فیسیٹیول بھی کروا ئے
اور متعدد عالمی ریکارڈ بنائے ،پیلی ٹیکسی سکیم،سستی روٹی بھی غریب عوام کے
لئے منصوبے قابل تعریف تھے۔پنجاب میں ڈینگی آیا تو چھوٹے میاں صاجب نے
پنجاب کی ساری انتظامیہ کو ڈینگی مارنے پر لگا دیا ،اور ڈینگی کے خاتمے کے
لئے جس طرح مہم چلائی گئی،لوگوں میں شعور بیدار کیا قابل تحسین تھا۔مسلم
لیگ(ن) کی حکومت پنجاب میں عوام کو ریلیف تو دے رہی ہے،اس میں کوئی شک نہیں
لیکن پنجاب کے تمام اضلاع میں ریلیف نہیں مل رہا،اراکین اسمبلی کے چہیتے
حکومتی سکیموں سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں جبکہ غریب صرف دیکھتا ہی رہتا
ہے۔گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ(ق) پنجاب نے ایک تحقیقاتی پیپر جاری کیا ہے
جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب سے کچھ سوال بھی کئے گئے ہیں اور انکے منصوبوں پر
بھی رپورٹ دی گئی ہے۔ تحقیقاتی پیپر میں کہاگیا ہے کہ نندی پور پاور
پراجیکٹ بروقت مکمل نہ ہونے پر خزانے کو27ارب روپے پہنچنے والے نقصان پر
میاں شہباز شریف کا دکھ بجا لیکن ان کے اپنے ہاتھوں نامکمل منصوبوں کے باعث
پنجاب کے خزانے کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصان کا وہ کس کو ذمہ دا
رٹھہرائیں گے؟ چوہدری پرویز الہٰی کے دور حکومت کے آخری سال (2007)مفاد
عامہ کے درجنوں منصوبہ جات جن کی تعمیر 90فیصد سے زائد مکمل ہوچکی تھی اور
وہ تمام منصوبہ جات مسلسل چھ سال سے ٹھپ ہیں اس سے ناصرف صوبہ کے کروڑوں
عوام ثمرات سے محروم چلے آرہے ہیں بلکہ تعمیراتی لاگت میں بھی 100فیصد سے
زائد کا اضافہ ہوچکا ہے اور خزانے پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑ چکا ہے ۔
منصوبہ جات کی تکمیل میں تاخیر کے باعث اب تک پنجاب کے خزانے پر30ارب روپے
سے زائد کا بوجھ پڑ چکا ہے ۔چودھری پرویز الہٰی کے وزیرآباد کارڈیالوجی
ہسپتال کے منصوبہ نے2008میں فنکشنل ہونا تھا مگر بقیہ 10فیصد کام 6سال بعد
بھی نامکمل ہے ۔حکومت کی لاپروائی کے باعث قیمتی مشینری چوری ہوچکی ہے اور
تخمینہ لاگت میں ایک ارب اضافہ ہوچکا ہے اس نقصان کا ذمہ دار کون ؟چودھری
پرویز الہٰی نے مری بلک واٹر سپلائی کا منصوبہ شروع کروایا جس پر ڈیڑھ ارب
خرچ ہوئے ، منصوبہ کی مجموعی لاگت ساڑھے تین ار ب تھی یہ منصوبہ چھ سال سے
بند ہے اب اس کا تخمینہ لاگت بڑھ کر 7 ارب ہوچکا ہے نقصان کا ذمہ دار کون ؟
اراکین صوبائی اسمبلی ،پارلیمانی سیکرٹریوں او ر محکمانہ سیکرٹریوں کو عوام
کی سہولت اور سرخ فیتہ کلچر کی حوصلہ شکنی کیلئے ایک ہی چھت کے نیچے بٹھانے
کیلئے چودھری پرویز الہٰی نے پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ کی تعمیر شروع
کروائی جس کا 80فیصد کام 2007تک مکمل ہوچکا تھا ۔ضروری مشینری بھی منگوالی
گئی تھی مگر یہ منصوبہ بھی 6سال سے جوں کا توں ٹھپ پڑا ہے ۔تاخیر کے باعث
تخمینہ لاگت میں 3ارب اضافہ ہوچکا ہے۔ اس نقصان کا ذمہ دار کون؟ چودھری
پرویز الہٰی کے دور کے آخری سال2007تک صوبہ بھر میں 42کالج تعمیر کیے گئے
جنہں6سال بعد بھی سٹاف اور فرنیچر فراہم نہیں کیا گیا ان 42 کالجز کو
فنکشنل کرنے کیلئے مزید 3ارب کے فنڈز درکار ہیں اس نقصانکا ذمہ دار
کون؟ڈیرہ غازی خان میڈیکل کالج نے 2ارب روپے کی لاگت سے2009میں مکمل ہونا
تھا جو تاحال نامکمل ہے تاخیر کے باعث تخمینہ لاگت میں 2 ارب کا اضافہ
ہوگیا اس نقصان کا ذمہ دار کون؟ منسٹر بلاک بھی عوام کی سہولت اور سرکاری
امور کی برق رفتار انجام دہی کیلئے جدید سہولتوں کے ساتھ تعمیر کروایا گیا
جس کا محض 10فیصد کام باقی تھا تاخیر کے باعث مزید اڑھائی ارب درکار ہیں
۔اس نقصان کا ذمہ دار کون؟۔آئی ٹی ٹاور کا 95فیصد تعمیراتی کام2007میں مکمل
ہوگیا تھا جسے شہباز حکومت نے 2008میں برسراقتدار آتے ہی بند کردیا بعد
ازاں اسی چینی کمپنی کو 35کروڑ روپے جرمانہ ادا کرکے کام دوبارہ شروع
کروایا گیا اور تاخیر کے باعث 50کروڑ اضافی خرچ ہوئے اس 90کروڑ روپے کے
اضافی نقصان کا ذمہ دار کون ؟میو ہسپتال سرجیکل ٹاور کا 50فیصد کام چودھری
پرویز الہٰی کے دور حکومت میں مکمل ہوگیا تھا منصوبہ ختم کرنے کے باعث
کروڑوں روپیہ ضائع ہوگیااس نقصان کا ذمہ دار کون ؟۔فیصل آباد کے برن یونٹ،
بہاولپور کارڈیالوجی سینٹر، اور کڈنی سینٹر کے منصوبے 2009میں مکمل ہونے
تھے 6سال سے منصوبے بند ہونے سے ان کی تعمیراتی لاگت میں2ارب کا اضافہ
ہوچکا ہے ۔اس نقصان کا ذمہ دار کون؟چودھری پرویز الہٰی کے لینڈ ریکارڈ
کمپیوٹرائزیشن منصوبہ نے 31مارچ 2012 میں مکمل ہونا تھا 6سال کی تاخیر کے
باعث اس کے تخمینہ لاگت میں6ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے اس نقصان کا ذمہ
دار کون؟ تحقیقاتی پیپر میں مزید بتایا گیا ہے کہ چودھری پرویز الہٰی دور
کے بین الاضلاعی سڑکوں کے منصوبے ،سکولوں ،کالجوں ، ہسپتالوں ، سیرت
اکیڈمی، انڈسٹریل اسٹیٹ کے منصوبے نامکمل چھوڑ دیئے جانے کے باعث خزانے کو
اربوں روپے کے پہنچنے والے نقصان کی تفصیل علاوہ ہے۔مسلم لیگ(ق) کا دعویٰ
ہے کہ مسلسل 6 سال سے پنجاب پر برسراقتدار جماعت کے عرصہ اقتدار میں
مہنگائی،بے روزگاری، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ، لاقانونیت، ناکام منصوبے
دینے، کھوکھلے ’’ایم او یوز‘‘ سائن کرنے اور جھوٹے وعدے کرنے کے حوالے سے
اگلے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹے، باالخصوص اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 100
سے 150 فیصد تک اضافہ ہوا، بجلی، گیس کی فراہمی کے حوالے سے پنجاب کے عوام
اور صنعتی شعبہ کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا ماضی میں احتجاجی مظاہروں کی
سرکاری سرپرستی کرنے والی پنجاب حکومت آج خاموش تماشائی ہے، تاریخ میں پہلی
بار سرکاری ہسپتالوں میں جعلی ادویات استعمال کروائی گئیں اور 150 سے زائد
مریض جاں بحق ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بننے والے عناصر کو سزائیں
دلوائی جاسکیں اور نہ ہی معاوضہ، حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ اور لاء
اینڈ آرڈر میں بہتری لانے میں بری طرح ناکام رہی، صوبہ میں صرف 6ماہ میں
ساڑھے تین لاکھ سنگین جرائم ہوئے 5 ہزار قتل، 12 ہزار 8 سو 62 اغواء اور
اغواء برائے تاوان کی وارداتیں ہوئیں حکومت کی نااہلی کے باعث اغواء برائے
تاوان اور بھتہ خوری کا جرم عام ہوا، 31 ہزار ڈکیتیاں 220 شہری خونی
ڈکیتیوں کے دوران جاں بحق ہوئے، خواتین سے زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے 25
سو واقعات کے ساتھ پنجاب خواتین کے خلاف جرائم میں چھٹے سال بھی نمبر ون
صوبہ رہا، کمسن بچی سنبل کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے ملزم کو وزیراعظم
اور وزیراعلیٰ بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود لواحقین کو انصاف نہ دلوا
سکے، 31 ہزار ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں اصل وارداتیں ان اعدادوشمار سے 2 گنا
زیادہ ہیں کیونکہ جرائم کو کنٹرول کرنے کیلئے FIR کا اندراج نہ کرنے کی
پالیسی اختیار کی گئی ہے، 13 مئی 2013 ء کے بعد عوامی شکایات اور انارکی
میں ریکارڈ اضافہ ہوا پنجاب میں سرکاری محکموں کی زیادتیوں کا شکار افراد
نے صوبہ کے مختلف مقامات پر 13 ہزار 6 سو احتجاجی مظاہرے کیے صوبائی محتسب
کو 20 ہزار شکایات موصول ہوئیں جو گزشتہ سال کی نسبت 7 ہزار زائد ہیں،نواز
لیگ نے انتخابی مہم کے دوران عوام سے جتنے بھی وعدے کیے تھے ان میں سے کسی
ایک کا پور ا ہونا درکنار عمل کے حوالے سے پیش رفت تک نہ کرسکی بالخصوص
بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ میں کمی لانے کی بجائے اس کی پالیسیاں اضافہ کا سبب
بنیں، تاریخ میں پہلی بار پنجاب میں CNG سٹیشنز طویل ترین دورانیہ کیلئے
100 فیصد بند کیے گئے، پنجاب میں خسرہ سے 6 سو بچے جاں بحق اور ڈینگی سے 55
ہزار زائد متاثر ہوئے، 40 فیصد سے زائد سرکاری سکول اساتذہ اور بنیادی
سہولتوں سے محروم رہے پنجاب حکومت مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کیلئے
قانون سازی میں ناکام رہی، بلٹ پروف گاڑیاں بیچنے کے اعلانات کرنے والوں نے
انہیں آج بھی زیر استعمال رکھا ہوا ہے، 8 کلب کو آئی ٹی یونیورسٹی میں
تبدیل کرنے کا وعدہ چھٹے سال بعد بھی پورا نہ ہوسکا، پنجاب حکومت کی بجلی
چوری کے خلاف مہم بھی بااثر حکومتی افراد کے ملوث پائے جانے کے بعد روک دی
گئی، انتخابات سے پہلے قوم کو اس تاثر کے ساتھ گمراہ کیا گیا کہ ن لیگ کی
قیادت تجربہ کار اور حالات سے سبق سیکھ چکی ہے مگر ابتدائی 6 ماہ میں ہی
ماضی کی ناکام گورننس کو دہرا کر ملک کو پھر 90 کی دہائی میں دھکیل دیا گیا
اور ملک کو ایشیاء کا اقتصادی ٹائیگر بنانے کے دعویداروں نے اسے ایشیاء کا
مقروض ترین ملک بنا دیا۔اس حقائق نامہ میں کتنی حقیقت ہے اس کا فیصلہ عوام
خود کریں،حکومت نے تو اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔ |