اورنگزیب بادشاہ تھا یا ولی

ابوالمظفرمحی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر مغلیہ خاندان کا چھٹا بادشاہ تھا۔3نومبر 1618 عیسوی کو مالوہ کی سرحد پر پیدا ہوا ۔ عالم گیر کا خطاب والد شاہجان نے دیا ۔اورنگزیب کی والدہ ارجمند بانو تھیں جو ممتازمحل کے نام سے مشہور تھیں۔اورنگزیب کو سیدمحمد،میر ہاشم اور ملا صالح جیسے علام کی شاگردی کا موقعہ ملا ۔مغل بادشاہوں میں اورنگزیب پہلا بادشاہ تھا جس نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسی مضمون نویسی میں نام پیدا کیا۔اس کے علاوہ گھڑ سواری تیر اندازی اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا ۔سترہ برس کی عمر میں 1636 کو دکن کا صوبیدار مقرر ہوا ۔ اس دوران اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا اور چند نئے علاقے فتح کیے،بلغ کے ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس کی مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی۔

اورنگزیب نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ مادہ پرستی کا عظیم دور تھا ، اس کا باپ شاہجان عشاق کی دنیا کا عظیم تر انسان تھا جس کی عاشقی کا منہ بولتا ثبوت آج بھی تاج محل کی صورت میں ماجود ہے۔ یوں ہی نورالدین جہانگیر اور جلال الدین اکبر بھی کسی سے کم نہ تھے،لیکن اورنگزیب ایک الگ فطرت لے کر پیدا ہوا۔اس نے تخت نشین ہوتے ہی ہندؤوں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا ،نشاط و سرور کی محفلیں ناپسند کیں، خوبصورت مقبروں کی تعمیر و نمائش ممنوع قرار دی۔ قوال، نجومی اور شاعر موقوف کر دیئے۔شراب افیون اور بھنگ بند کردی۔درشن جھروکا کی رسم ختم کی۔ بادشاہوں کو سلام کرنے کا سلامی طریقہ رائج کیا ،سجدہ کرنا ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکیھنے کا دستور ختم کیا ،کھانے کی جنسوں پر سے ہر قسم کے محصول بھی ہٹا دیئے۔

اورنگزیب کی یہ ابتدائی تبدیلیاں تھیں جو اسے دوسروں سے نمایاں کر رہی تھیں،عدل وانصاف اسے وارثت میں ملے ہوئے تھے جس کی ایک مثال اس کے دادا جہانگیر کی زنجیرعدل ہے۔تاریخ سے یہ بھی شواہد ملتے ہیں کہ اس کے اباء کی دعائیں بروقت قبول ہوتی تھیں جیسا کہ ظہیرالدین بابر کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے اپنے بیٹے ہمایوں کو قریب المرگ دیکھ کر چارپائی کے پاس چکر لگاتے ہوئے دعا کی ً اے میرے پروردگار اگر میری عمر میرے بیٹے کی عمر سے زیادہ ہے تو میری عمر میرے بیٹے کو بخش دے اور اس کی جگہ موت مجھے دے دے ،،تاریخ گواہ ہے کے یہ دعا بروقت قبول ہوئی،ہمایوں ٹیھک ہو گیا اور بابر راہی عدم ہو گیا ۔یوں بھی متفقہ فیصلہ ہے کہ ایک عادل حکمران کی دعا چالیس اؤلیا اللہ کی دعاؤں سا اثر رکھتی ہے۔

اورنگزیب کو جہاں مغلیہ شہنشاہ کی حثیت سے جانتی ہے وہی علماء کی ایک جماعت اسے مجذوب اور ولی کی حثیت سے پہچانتی اور یاد کرتی ہے۔اسی مجذوب کی مجذوبیت کے پیش نظر ایک واقعہ پیش کیا جارہا ہے جو اورنگزیب کی مجذوبی اور عدل و انصاف کو ظاہر کرتا ہے۔

واقعہ اس طرح کا ہے کہ ایک بار دہلی میں قتل کی ایک واردات ہوئی ،عدالت نے اس قاتل کو سزاے موت سنا دی ،جب رحم کی درخواست بادشاہ کے پاس پونہچی تو بادشاہ نے وہ درخواست بھی مسترد کردی۔

پھانسی سے ایک روز پہلے کی بات ہے کہ قاتل کا غمزدہ بھائی پریشانی کے عالم میں بازار میں گھوم رہا تھا کہ ایک نامعلوم شخص نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔اس نے دیکھا کے اس کے سامنے ایک غلیظ لباس والا بوڑھا شخص کھڑا تھا جس کا سر اور پورا جسم گرد آلودہ تھا۔اس کے چہرے سے فاقہ زدگی ٹپک رہی تھی ، اس شخص نے صرف دو لفظ کہے بھوک،روٹی ۔اسے بوڑھے کی حالت پر ترس آگیا اور اس نے قریبی دکان سے اسے کھانا کھلایا ،اس نے دیکھا کہ وہ شخص وحشیوں کی طرح کھانا کھا رہا ہے ۔کھانے سے فارغ ہو کر بوڑھے شخص نے اس سے مخاطب ہو کر کہا '' مانگ کیا مانگتا ہے " غمزادہ شخص مسکرایا کہ جسے کھانے کو نہ جانے کب سے کچھ نہ ملا وہ مجھے کیا دے گا ، بوڑھے نے دوبارہ تحکم آمیز انداز میں کہا "مانگ کیا مانگتا ہے"اس پر وہ شخص بولا کل صبح میرے بھائی کو پھانسی دی جا رہی ہے اسے رکوا سکتے ہو۔ ہو سن کر بوڑھے مجذوب کی کیفیت ہی بدل گئی،خوف اس کہ چہرے سے ٹپکنے لگا اور وہ موت موت دیر ہو گئ کےعجیب و غریب الفاظ کہتے ہوئے ایک طرف کو بھاگ نکلا۔

اگلے دن وہ آدمی آخری ملاقات کے لئے اٹھ بجے قید خانے کے باہر پہنچ گیا۔اچانک اس نے دیکھا بادشاہ اورنگزیب گھوڑے پر سوار قید خانے کی طرف آ رہا ہے ،قید خانے کے عملے میں بادشاہ کی اس غیر متوقع آمد پر کھلبلی مچ گئ ۔بادشاہ سیدھا اندر چلا گیا اور قید خانے کے داروغہ سے پھانسی پانے والے آدمی کے کاغذات طلب کیے اور پر حکم لیکھا "قاتل کو فوراً رہا کیا جائے " قید خانے کا داروغہ اس حکم نامے پر ششدر تھا ، بادشاہ نے پہلی بار اپنا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ کیا تھا ۔ بہرحال بادشاہ کے حکم کے تحت قاتل کو رہا کر دیا گیا ۔ قاتل ہنسی خوشی اپنے بھائی کے ساتھ گھر چلا گیا اور بادشاہ بھی واپس چلا گیا ۔

پھانسی کا وقت دس بجے مقرر کیا گیا تھا ،متعلقہ آفسیر قاتل کو پھانسی لگانے قید خانے پہنچا تو قید خانے کے داروغہ نے اسے قاتل کی رہائی کے متعلق سب کچھ سن بتا دیا ۔حاکم نے داروغہ کی بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا اور سیدھا محل جا پہنچا ۔وہاں جا کر اسے پتہ چلا کہ شہنشاہ باہر جانے کے لیے کہیں نکلے ہی نہیں۔یہ سن کر اس کے ہوش اُڑ گئے۔اس نے فوراً بادشاہ کو ملاقات کا عریضہ بھیجا،بادشاہ نے اسے اندر بلا لیا اور تفصیل سنتے ہی سخت مشتعل ہو گیا اور افسیر کو لے کر سیدھا قید خانے پہنچا۔قید خانے کا داروغہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا اور کانپتے کانپتے بادشاہ کو وہ سب کچھ بتایا"آپ اتنی دیر پہلے تشریف لائے تھے اور قاتل کی رہائی کا یہ تحریری حکم دیا تھا " بادشاہ نے حکمنامہ دیکھا جس پر مہر اور دستخط بھی اصلی تھے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد گویا بادشاہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا ،اس نے داروغہ سے پوچھا "ہم قاتل کو آزاد کرنے کے بعد کس طرف گئے تھے"داروغہ نے اس طرف اشارہ کیا کے آپ ادھر گئے تھے۔بادشاہ بڑی تیزی سے اسی طرف روانہ ہو گیا اور جلد ہی ایک ویرانے میں داخل ہو چکا تھا اس نے کچھ دیر اور چلنے کے بعد دیکھا ایک مجذوب دوڑتا ہوا جا رہا ہے وہ خوف زدہ ہے اور بار بار مڑکر پیچھے دیکھ رہا ہے۔ بادشاہ کے گھوڑے نے اسے جلد ہی جا لیا ۔وہ سر جکائے خاموش کھڑا ہو گیا ۔ بادشاہ نے مجذوب سے پوچھا نظام میں خلل ڈالنے کی سزا معلوم ہے ؟ مجذوب نے جواب میں ایک لفظ کہا "موت" پھر ایسا کیوں کیا ؟ بادشاہ نے پوچھا، "وعدہ کر چکا تھا "مجذوب نے مختصر جواب دیا ۔اب اپنی گردن پیش کرو،بادشاہ نے حکم دیا۔ مجذوب نے گردن بڑھا دی بادشاہ کی تلوار لہرائی اور مجذوب کا سر دور جا گرا۔

مغل بادشاہ عالمگیر کا یہ واقعہ بادشاہ اور مجذوب کے درمیان کشمکش کی انوکھی داستان ہے جس میں بادشاہ اور مجذوب دونوں ہی جیت گئے ۔اس طرح کے مجذوب نے اپنا مقصد حاصل کر لیا اور اورنگزیب عالمگیر نے مجرم کو نہیں تو اس کے وکیل اور نجات دہندہ کو سزا دے کرعدل و انصاف کی مثال قائم کر دی۔اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اورنگزیب خود بھی اس نظام میں کسی عہدے پر فائز تھا جس نظام کا یہ پُراسرار مجذوب حصہ تھا۔دیکھا جائے تو اورنگزیب ہر گز اس تک نہ پہنچ پاتا اگر وہ اس پائے کا شخص نہ ہوتا۔

یہ سلطنت مغلیہ کی کہکشاں کا چھٹا ستارہ احمد نگر میں بیمار ہوا اور تین مارچ سترہ سو آٹھ کو نوے برس کی عمر میں فوت ہوا وصعیت کے مطابق اسے خلد آباد میں دفن کیا گیا ۔ خلد آباد کے قریب ایک مقام اورنگ آباد ہے جس میں اورنگزیب کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ شہنشاہ بڑا پرہیزگار،مدبر اور اعلٰی درجے کا منتظم تھا۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لیکھ کر اور ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتا تھا ۔

وہ سلجھا ہوا ادیب تھا، اس کے خطوط رقعات عالم گیر کے نام سے مرتب ہوئے ۔ نظام حکومت چلانے کے لیے اس کے حکم پر ایک فتاویٰ تصنیف کی گئ جسے تاریخ میں فتاویٰ عالمگیری کہا جاتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے نہ وہ سرف تلوار کا دھنی تھا بلکہ قلم کا بھی بادشاہ تھا ۔فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز حثیت رکھتی ہے ،اس لیے بعض علماء دین سلطان کو اپنے دور کا مجدد بھی قرار دیا ہے۔
سلطان نے لواحقین میں پانچ بیٹے اور پانچ ہی بیٹیاں چھوڑی۔ مشہور شاعرہ زیب انساء مخفی ان ہی کی دختر تھیں۔ بیٹا محمد معظم باپ کی سلطنت کا وارث ہوا۔
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 62263 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.