یاد رفتگان
جن کی 23 ویں برسی 22فروری2014ء ہفتہ کو منائی جائے گی
پاکستان میں صحافت کے شعبے میں بے شمارافراد نے گرانقدر خدمات سرانجام دیں
،مولانا ظفر علی خانؒ ،حمید نظامیؒ ، عنایت اﷲ،نسیم حجازی ؒ و دیگر بہت سے
عظیم صحافی آج بھی اپنی خدمات کی بدولت عوام کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں
اور انہیں آج بھی ان کی اصول پسندی اور سچائی کی بدولت اچھے نام سے یاد کیا
جاتا ہے ۔ دنیا کی زندگی عارضی ہے ،اصل زندگی تو مرنے کے بعد ہے جہاں انسان
کو موت نہیں آئے گی ،یہ دنیاوی زندگی ہر انسان کے لئے کسی آزمائش سے کم
نہیں، اﷲ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں دوسرے انسانوں کی خدمت اوراُس کے دکھ
درد بانٹنے کے لئے بھیجا ہے۔ بقول شاعر
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
سچ تو یہ ہے کہ انسان دنیا میں آتا ہے اور وقت مقررہ پر اس دنیا سے عالم
جاودانی کوکوچ کر جاتا ہے ،دنیاسے وہ صرف اپنے اعمال ساتھ لے کر جاتا ہے
جبکہ لوگوں کے لئے صرف یادیں چھوڑ جاتا ہے ،کسی سے نیکی کی ہو تو اُسے
انسان کبھی نہیں بھولتا ،عظیم ہے وہ ذات جس نے انسان کو اتنے بڑے امتحان
میں ڈالا ،نفسا نفسی کے اس دور میں جہاں انسان مادہ پرستی کی دوڑ میں سر پٹ
دوڑا چلا جا رہا ہے ،کسی کو ہوش نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کاغم بانٹ سکے
،عظیم ہے وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی میں دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم
رکھا اور پریشان حال لوگوں کی دامے ،درمے ،سخنے مدد کو اپنا شعار بنائے
رکھا ،ایسی ہی ہستیوں میں ایک نام’ناصر بخاریؒ ‘‘کا تھا ،وہ ایک ایسے انسان
تھے کہ جنہوں نے اپنی تمام زندگی طمع اور لالچ کے بغیر خدمت انسانیہ میں
گذار دی ،آپ کے پاس آنے والا غریب ہو یا امیر ،کبھی مایوس نہیں لوٹا ،غریب
اور بے سہارا لوگوں کی مدد اُن کی روح میں رچی بسی تھی ،آپ کاحق گو ،بااصول
اور بیباک صحافی کی حیثیت سے شعبہ صحافت میں اپناایک مقام ہیں ،آپ کو ہم سے
جدا ہوئے 23برس بیت گئے مگر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کل ہی کی بات ہے ،ا س
حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ دنیا فانی ہے اور یہاں سے جانے
والے کبھی بھی لوٹ کرنہیں آتے ، البتہ ان کی خوشگوار یادیں ،اصول اور
نظریات فراموش نہیں کئے جاسکتے ۔کسی انسان کی خداداد صفات ہی اس کے تشخص کی
مظہر ہوتی ہیں اور اپنی انہی صفات کی بدولت وہ زندگی میں اور بعد میں بھی
پہچانا جاتا ہے ،مرحوم ناصر بُخاری نے اپنی تمام زندگی حقوق اﷲ کے ساتھ
ساتھ حقوق العباد کے لئے وقف رکھی ،غریب پروری، ہمدردی، غمگساری، ملنساری،
اور انکساری انہی کی ذات کا خاصا تھی ۔آپ کا تعلق ضلع اٹک(کیمبل پور) سے
تھا ،آپ کے والد بزرگوار سیّد امام شاہ بُخاری علاقے کی ممتاز روحانی شخصیت
کی حیثیت سے اپنا ایک مقام رکھتے تھے ،پیری مریدی کے علاوہ طب و حکمت کا
بھی وسیع سلسلہ تھا ۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اور گریجویشن اٹک(کیمبل پور)
سے ہی مکمل کی،آپ نے منشی فاضل کا امتحان بھی امتیازی پوزیشن میں پاس کیا
،فارسی اور انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا ،تعلیمی میدان میں ہمیشہ
اعلیٰ نمبروں سے کامیابیاں حاصل کیں ،ہر امتحان میں ’’سکالرشپ‘‘ لیتے ،اس
وقت کے ہندو استاد بھی آپ کی ذہانت ،قابلیت اور صلاحیتوں کے معترف تھے ،ایک
مرتبہ ایک ہندو استاد نے کہا کہ میں تمہیں امتحان میں کامیاب نہیں ہونے دوں
گا ،جبکہ آپ کہتے کہ میں ہمیشہ کی طرح ’’اوّل‘‘ پوزیشن میں کامیاب ہو کر
دکھاؤں گا ،آخر جب آپ ’’فرسٹ ‘‘پوزیشن میں کامیاب ہوئے تو وہ ہندواستاد بھی
آپ کی ذہانت اور تعلیمی لگاؤ سے بے حد متاثر ہوا ۔آپ کوکالج کے زمانے میں
شاعری سے بھی شغف رہا،مزاحیہ اور حزنیہ نظمیں کہا کرتے تھے ،آپ ناصرؔ تخلص
کرتے تھے اور اپنا شعری مجموعہ بھی تیار کر رکھا تھا ،لیکن اپنے والد
بزرگوار کی وفات کے بعد شاعری کو خیرباد کہہ دیا ۔
مرحوم کی صحافتی زندگی آل راؤنڈر صحافی کی حیثیت سے حقائق نگاری اور اصولوں
سے عبارت تھی ،آپ ’’خبر‘‘کے حوالے سے اور عملی زندگی میں ’’سچ‘‘ کی تلاش
میں سرگرداں رہے ،کبھی سُنی سنائی بات یا ’’ایف آئی آر ‘‘ کی بنیاد پر کوئی
خبر نہ دی ،یہی وجہ ہے کہ جرائم کے حوالے سے آپ کی رپورٹنگ ایک مثال کی
حیثیت رکھتی تھی ،یہ وہ دور تھا کہ جس میں ٹیلی فون اور ٹرانسپورٹ کی
سہولیات کا فقدان تھا ،اس کے باوجود مرحوم ایک ایک خبر اور واقعہ کے حقائق
جانے کیلئے کئی کئی میل کی پیدل مسافت طے کرتے ۔اور روزانہ کوئی نہ کوئی
’’ایکسکلیسو‘‘(Exclucive)خبر روزنامہ ’’کوہستان‘‘میں ضرور دیتے جس سے دوسرے
اخبارات محروم رہتے ۔مرحوم ناصر بُخاری خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت
اﷲ خان المشر قی ؒکے دست راست تھے ،خاکسار تحریک سے بھی وابستہ رہے
،خاکساری اور عاجزی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی ،بنیادی طور پر مسلم لیگی
اور مسلم کانفرنسی نظریات کے حامی تھے ،ہمیشہ نظریہ ء پاکستان کے
تحفظ،اسلامی شرعی نظام کے نفاذ اور اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے داعی رہے
۔علامہ مشرقی ؒ آپ پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ اپنی
تقریروں کا مسوّدہ اپنے خطاب سے قبل ہی آپ کے حوالے کر دیتے ۔آپ مُسلم
کانفرنس کے قائد چوہدری غلام عباسؒ کے بھی خاص دوستوں میں شامل تھے ،آپ کو
مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے اہم اور خفیہ اجلاسوں میں بطور خاص مدعو کیا
جاتا تھا ،آپ نے ان اجلاسوں کی رازداری کو ہمیشہ برقرار رکھا اور کبھی ا س
حوالے سے کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا ،آپ کو اپنی اسی اصول پسندی کے
باعث زندگی میں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا رہا ،لیکن آپ کے پایہ ء استقلال
میں لغرش نہیں آئی ۔مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ مجاہد اوّل سردار محمد
عبدالقیوم خان نے بارہا اس بات کا اعتراف کیاکہ ناصر بُخاری تو ہماری
اندھیری راتوں (زوال )کے ساتھی رہے کیونکہ مرحوم نے مسلم کانفرنس کے عروج و
زوال میں بغیر کی طمع یا لالچ کے جماعت کا ہمیشہ بھرپور ساتھ دیا ۔
آپ نے شعبہ ء صحافت میں آنے سے پہلے محکمہ امداد باہمی میں بھی ملازمت
اختیار کی ، یہ ادارہ کسانوں کو زرعی قرضوں کی سہولت فراہم کرتا تھا لیکن
مذکورہ ادارے میں ’’رشوت‘‘اور ’’سفارش ‘‘کے ماحول سے دلبرداشتہ ہوکر اس سے
الگ ہوگئے ، بعد ازاں صحافت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔آپ نے اپنی
صحافتی زندگی کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ سے کیا ،بعد
میں روزنامہ ’’تعمیر‘‘سے منسلک ہو گئے ،’’تعمیر‘‘ کے ایڈیٹر صفدر ہمایوں
ایک مرتبہ اخبار کی اشاعت معطل ہونے کے باوجود آپ کی فرض شناسی ،محنت اور
لگن کو دیکھتے ہوئے آپ کو تنخواہ دیتے رہے ۔’’تعمیر ‘‘کے بعد جب
روزنامہ’’کوہستان‘‘ کا اجرا ء ہوا تو آپ اس کے ساتھ منسلک ہو گئے ، ممتاز
ادیب اور ناول نگار نسیم حجازیؒ’ؔ’کوہستان‘‘ اخبار کے مدیر و مالک تھے
،جبکہ عنایت اﷲ ؒ،حافظ مظہر الدین ؒ،جمیل الدین عالی، حافظ مظہر الدین ؒ،
آغارفیق جاوید ؒ و دیگر بھی اس کاررواں میں شامل تھے ۔مرحوم عنایت اﷲ نے
جب’’کوہستان‘‘سے علیحد گی کے بعد روزنامہ ’’مشرق ‘‘کی لاہور سے ابتداء کی
تو انہوں نے آپ کو بھی اپنے اخبار میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ،مگر
آپ نے یہ کہہ کو انکار کر دیا کہ مجھے روز روز نئے اخبارات تبدیل کرنے کی
عادت نہیں ۔آپ نے روزنامہ ’’کوہستان‘‘ میں چیف رپورٹر کے علاوہ بھی کئی اہم
عہدوں پر کام کیا اوراس اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی رہے ،،تاہم سازشی ٹولے
نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر ’’کوہستان‘‘ کو اپنے انجام تک پہنچانے میں
کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی آپ نے ’’کوہستان‘‘ کے زوال تک اپنے خون جگر سے اس
کی آبیاری کی ،اس کے بعد 1971ء میں آپ نے راولپنڈی سے ہفت روزہ ’’الاخبار‘‘
کا اجراء کیا۔اور جس طرح ایجنسیوں اور بڑے اخباری گروپ کے پرورد عناصرنے
’’کوہستان ‘‘کو تباہ کیا ایسے ہی عناصر نے شعبہ صحافت کی ساکھ کو اپنی
سازشوں سے داغدار کیا اوراپنے ہی مفاد کے لئے اپنی ہی صحافتی برادری کا
معاشی قتل کیا، شعبہ صحافت میں رچی بسی کرپشن نے ہفت روزہ ’’الاخبار ‘‘ کے
اجراء کے بعد آپ کو سخت مایوس کیا ۔تاہم آپ نے مشکلات کے باوجود اپنا سفر
جاری رکھا ، 1986ء میں آپ نے ہفت روزہ ’’الاخبار‘‘کو روزنامہ میں تبدیل
کرنے کیلئے اپنی درخواست محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب کو ارسال کی جیسے
1988ء میں منظور کر لیا گیا لیکن بعد ازاں اس سے متعلق تیار کی گئی فائل
پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھجوا دی گئی جہاں سے اُس وقت کے آفیسر انچارچ
نے انہیں تعریفی خط لکھا کہ ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ آپ اپنے اخبار کو
روزنامہ بنانے کے خواہاں ہیں لیکن بوجہ یہ فائل دبا لی گئی ۔اور مزید
کارروائی کو روک دیا گیا ۔ 1994ء میں زاہد ملک نامی شخص نے روزنامہ
’’الاخبار‘‘ کا اسلام آباد سے مقامی انتظامیہ، بیوروکریسی اور محکمہ
اطلاعات کی ملی بھگت سے اجراء کیا ۔ اس ظلم اور ناانصافی پر صدائے احتجاج
بلند کیا گیا ، ہر پلیٹ فارم پر اپنے حق کیلئے جدوجہد کی گئی مگر حق و
انصاف کے نام نہاد ٹھیکیدار صحافتی اٹھائی گیروں نے اس معاملے میں مرحوم کے
لگائے ہوئے پودے ہفت روزہ ’’الاخبار‘‘ کا تحفظ کرنے کی بجائے زاہد ملک کا
ساتھ دیا یوں صحافتی دنیا کی طرف سے مرحوم صحافی کے خاندان کا معاشی قتل
کرنے والوں کا احتساب کرنے کی زحمت کسی نے گوارا نہ کی۔جو صحافتی دنیا کا
ایک المیہ ہے ، آپ نے اسی دوران راولپنڈی سے نکلنے والے ہفت روزہ’’دیہات
‘‘میں بھی بحیثیت مدیر خدمات سرانجام دیں تاہم بعد ازاں روزنامہ ’’نوائے
وقت‘‘ سے وابستہ ہو گئے یوں اپنی وفات تک 18سال اسی ادارے میں فرائض
سرانجام دیتے رہے ،آپ کی صحافتی زندگی تقریباً 45سالوں پر محیط ہے ۔
مرحوم ناصر بُخاری نے کبھی قلم کی حُرمت کو داغدار نہیں ہونے دیا ،صحافتی
شعبے میں آپ کی رائے ایک’’ سند ‘‘کا درجہ رکھتی تھی ،آپ اس شعبے میں آنے
والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں
ہمیشہ مددگا ر ثابت ہوتے،یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ
ہے جو اس وقت اندرون و بیرون ملک اہم عہدوں پر فائز ہو کر ملک اور قوم کی
خدمت کر رہے ہیں ،انہیں ظاہری نمود و نمائش کی خواہش نہ تھی ،کوئی دنیاوی
آرزو نہ رکھتے تھے ۔انہوں نے صحافتی شعبے میں جو کارہائے نمایاں سرانجام
دیئے اور جو راہیں آنے والی نسلوں کے لئے متعین کیں ،وہ ہم سب کے لئے راہ
ہدایت اور روشنی کا مینار ہیں ،حق اور سچ کی آواز کو پھیلانے میں قدم قدم
پر رکاوٹیں اور مشکلات ہیں لیکن ہمیں حوصلہ مندی کے ساتھ اپنے مشن کو آگے
بڑھانا ہے ۔آپ پاکستان کی سیاست کی چلتی پھرتی تصویر تھے ،پاکستان کی سیاست
میں رونما ء ہونے والے ہر واقعہ کے آپ چشم دید گواہ تھے ،کسی بھی حوالے
کیلئے ضرورت پڑنے پرصحافی برادری اور دیگر حلقے آپ سے رجوع کرتے ،پاکستانی
سیاست کے بارے میں آپ کے پاس مکمل ریکارڈ تھا ،شاہد ہی کسی صحافی کے پاس
معلومات کا اتنا ذخیرہ ہو جتنا آپ کے پاس موجود تھا ،بلکہ اہم واقعات کی
تاریخیں بھی آپ کو ازبر تھیں ،ہر پریس ر یلیزاور خبر کو دوبارہ اپنے انداز
میں بنانا آپ ہی کا خاصہ تھا۔ آپ نے زندگی میں2مرتبہ حج کی سعادت حاصل کی
،دوسری مرتبہ حج کے بعد آپ کی شخصیت میں بڑی تبدیلی آئی ،دنیاوی آسائشات سے
ایک عجیب سی بے اعتنائی اور بے نیازی چھا گئی ،کوئی طمع نہ لالچ ،کچھ پانے
کی ہوس اور نہ کچھ کھونے کا غم ۔روزانہ میلوں پیدل چلنا ان کا معمول رہا
،دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر کیلئے بھی کسی سواری کی ضرورت محسوس نہیں
کرتے تھے ۔
مرحوم حمید نظامیؒ اور مرحوم ہدایت اختر اخبارات میں خواتین کی تصاویر کی
اشاعت کے خلاف تھے ۔اسی طرح آپ بھی عمر بھر اسی نظریئے اور مشن کے قائل رہے
کہ عورتوں کی تصاویر کی اشاعت اور فحش نگاری سے گریز کیا جائے ،آپ اکثر اس
بات پر دکھ کا اظہار کیا کرتے تھے کہ اخبارات کی سرکولیشن بڑھانے کے لئے
انہیں ’’شوپیس‘‘بنا کر رکھ دیا گیا ہے ،جبکہ حقیقی قاری کو ان خرافات سے
کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، آپ کا خیال تھا کہ اخبارات کو عوام کا ’’گائیڈ
‘‘اور’’ رہنما ء‘‘ ہونا چایئیے ،ہمیں عوام کو سیدھا راستہ دکھانا چایئیے نہ
کہ ہم لوگ عوامی خوہشات کے پیچھے چلنے لگیں۔
رپورٹنگ کے حوالے سے بھی آپ کی کارکردگی نمایاں رہی ،ایک مرتبہ جماعت
اسلامی کے امیر مولانا ابو اعلیٰ مودودی مرحوم نے ایک جلسے سے خطاب کیا تو
اس کی تفصیلی رپورٹ آپ نے ’’کوہستان‘‘ میں شائع کی مولاناموصوف نے آپ کو
بلا کر استفسار کیا کہ ’’بُخاری صاحب !کیا ؔآپ کے پاس ٹیپ ریکارڈر ہے کہ آپ
نے میری تقریر لفظ بہ لفظ شائع کی ہے ،یہ اﷲ تعالی ٰ کا خاص کرم اور عنایت
تھی کہ آپ جو کچھ سنتے تھے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتے تھے ۔
آج آپ کی وفات کو 23برس بیت گئے ہیں ،وقت تیزی سے گذر رہا ہے ،حق،سچ اور
اصولوں کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ،شرافت ہمیشہ زندہ رہتی ہے
،تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجودہم اپنے والدبزرگوارکے وضع کردہ
اصولوں کے مطابق قوم کی تربیت اور رہنمائی کا مشن زندہ و تابندہ رکھے ہوئے
ہیں ،عارضی مشکلات ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں ۔ 22 فروری 2014ء
کومرحوم کی 23ویں برسی مکان نمبر D-320،سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں منائی
جائے گی ،اس موقع پر مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لئے قران خوانی ہو گی
،آخر میں مرحوم کی مغفرت اور ملک کی سلامتی و استحکام کے لئے اجتماعی دُعا
کی جائے گی ۔ |