لانگ مارچ اور میڈیا

ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے اور لانگ مارچ کے اہداف و مقاصد اور ملکی سیاست پر اس کے اثرات تا حال تجزیوں اور تبصروں کا موضوع ہے۔ اس معاملے میں شامل تمام کرداروں کو زیرِ بحث لایا گیا مگر اس حوالے سے میڈیا کا کیا کردار رہا، اس پہلو پر توجہ نہ ہونے کے برابر رہی۔ میڈیاکی اہمیت اپنی جگہ مسلم اور عوام کو معلومات کی فراہمی کے حوالے سے اس کا کردار بھی بجا۔ ڈاکٹر طاہر القادری ہوں یا کوئی بھی دوسرا کردار اسکی بلا امتیاز کوریج میڈیا کا فرض ہے۔ مگر اس سب میں اعتدال اور توازن کی غرض سے ذمہ داری اور اہمیت کا تعین بھی میڈیا کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔میڈیا میں پالیسی سازی اور ادارتی جانچ پڑتال کی ضرورت ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔موجودہ صورتحال یہ رہی کہ میڈیا غیر جانبدار اور غیر متعصب ہونے کی کوشش میں معقولیت اور استدلال کا دامن چھوڑ بیٹھا۔سوال یہ ہے کہ کیا ڈاکٹر طاہر القادری کا جمہوریت مخالف لانگ مارچ ، عدلیہ بحالی تحریک جتنی اہمیت اور کوریج کا حقدار تھا؟

لانگ مارچ کے آغاز اور دھرنے کے اختتام تک جس طرح لمحہ بہ لمحہ کوریج فراہم کی گئی ، وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے اغراض و مقاصد کو تقویت فراہم کرنے کا ذریعہ بنی۔چند ہفتے قبل ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد اور جلسے کے ذریعے سنسنی خیزی پیدا کرنے کی جو کوشش ادارہ منہاج القرآن نے کروڑوں روپے کے اشتہارات اور دیگر معاملات پر سرمایہ خرچ کرنے کے عوض کی ۔ ہمار ے نوبلوغ میڈیا نے شعوری یا لا شعوری طورپر یہ کام بغیرکسی معاوضے کے خوب کر دکھایا۔ اس دوران گویا میڈیا کے پاس کو ئی دوسرا موضوع ہی نہ تھا۔ اخبارات کے تقریباً تمام صفحات اور ٹی وی چینلز کا تمام وقت ڈاکٹر صاحب کی نذر رہا ۔غیر ذمہ داری اور عدم تواز ن کی انتہا دیکھیے کہ ایک جانب اینکرز اور صحافی طاہر القادری اور ان کے لانگ مارچ کو پہلے روز سے تنقید کا نشانہ بنا تے رہے مگر ان تین چار روز میں اپنی تمام توجہ اور وقت ڈاکٹر قادری کے لیے مخصوص بھی رکھا۔ گو چند ایک کے سوا تمام تجزیوں، تبصروں، جائزوں اور خبروں میں طاہر القادری اور انکے لانگ مارچ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیامگر اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب کے لیے یہ سب بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ،کے مصداق فائدہ مند ہی ثابت ہوا۔

میڈیا کی یک نگاہی ملاحظہ ہو کہ دھرنے میں شریک چالیس پچاس ہزار افراد کی مشکلات اور پریشانیوں کا ذکر تو کیا گیا مگر اپنے گھروں میں محصور ہو جانے والے اسلام آباد کے لاکھوں شہریوں کا ذکر نہ ہونے کے برابر رہا۔ گو برفاف موسم کے باوجود دھرنے میں شریک ہزاروں افراد کی مشکلات کی کوریج ضروری تھی۔ مگران سینکڑوں افراد کا ذکر بھی کیا جانا چاہیے تھا جن کاکاروبارِ حیات اس دھرنے کی وجہ سے مفلوج ہو کر رہ گیا۔مسلسل تین تین چار چار گھنٹے ڈاکٹر طاہر القادری کی تقریر یں نشر کرنے والاالیکٹرانک میڈیا ان افراد کی جانب توجہ مبذول نہ کر سکا جن کی تعلیمی سر گرمیاں معطل رہیں یا جنہیں آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہی حال پرنٹ میڈیا کا بھی رہا۔ طاہر القادری کا مائیک بند ہو گیا یا ساؤنڈ سسٹم خراب ہونے سے متعلق خبریں با قاعدہ چھاپی گئیں مگر علاج کی سہولت سے محرو م مریض یا دھرنے کی وجہ سے فاقوں پر مجبور دیہاڑی دار مزدور کا ذکر تک نہ کیا گیا۔

ان تین چار روز میں ہمارے میڈیا نے کسی اور معاملے کو اہمیت نہ دی اورخبر کی سنسنی خیزی حالات کی سنگینی پر غالب رہی۔ کم از کم بلوچستان جیسے اہم صوبے کے معاملات اور 86لاشوں کے ہمراہ احتجاج کرنے والے ہزارہ کمیونٹی کے پاکستانی ، کینیڈاا پلٹ طاہر القادری سے کہیں زیادہ اہم اور کوریج کے حقدار تھے۔ مگر دھرنے اتنے اہم معاملے کو بھی گہنائے رکھا۔

ڈاکٹر طاہر القادری ، ان کا دھرنا، لانگ مارچ اور بار بار دی جانے والی ڈیڈ لائین اتنی اہم اور سنسنی خیز نہ تھیں جتنا میڈیا پر اسکی تواتر سے تشہیر اور اینکرز کے معنٰی خیز لب و لہجے اور دانستہ منتخب الفاظ نے اس میں سنسنی خیزی پیدا کی۔ سچ تو یہ ہے کہ میڈیا نے اس معاملے کو گلی محلے، گھروں، دفاتر، بازاروں اور ایوانوں میں ـــ’’ عشقِ ممنوعــ‘‘ بنائے رکھا۔

یوں تو ڈاکٹر طاہر القادری کی وزیر اعظم کی گرفتاری کی خبر پر ’’مبارک ہو، مبارک ہو‘‘ کی پر جوش پکار کو خوب مذاق کا نشانہ بنایا گیا مگر اس حوالے سے خود الیکٹرانک میڈیا کا کردار قابل مذمت رہا۔ ایک پہلے سے جاری کیس کی طے شدہ سماعت کے دوران ایک درجن سے زائدافراد کی تحقیقات کے بعد گرفتاری کی خبر کو دانستہ فقط وزیراعظم راجہ پر ویز اشرف کی گرفتاری کا عدالتی حکم بنا کر سنسنی خیز اور معنٰی خیز انداز سے پیش کیا گیا۔ طاہر القادری کا اس گرفتاری پر پر جوش ردعمل خود میڈیا کی خبر کا ہی مرہونِ منت تھا۔ غیر ذمہ داری اور ابتری ملاحظہ ہو کہ فوری ردعمل پر، سینئر اینکرز، تجزیہ کار اور صحافیوں نے چیف جسٹس کے اس فیصلے کو حکومت کے خلاف عدلیہ اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مابین "مک مکا "پر مخمول کیا۔طاہر القادری کی طرف سے یہ کہنا کہ آدھا کام آج ہو گیا ہے، سے اس تاثر کو اتنی تقویت نہیں ملی جتنی الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز اور صحافیوں نے اس فیصلے کی اتفاقیہ ٹائمنگ کو طے شدہ اور ارادی ٹائمنگ کا تاثر دے کر فراہم کی۔ چند ماہ قبل چیف جسٹس اور آرمی چیف کے ملکی سلامتی اور جمہوریت سے متعلق بیانات کی اتفاقیہ ٹائمنگ کو بھی ہمارے میڈیا نے معنیٰ خیز بنا کر پیش کیا اور اعلیٰ عدلیہ اور افواجِ پاکستان کے سربراہان کے مابین تصادم اور محاذ آرائی کا تاثر دیا تھا۔کیا میڈیا کواپنا محاسبہ کرنیکی ضرورت نہیں ؟
آزادی اظہار کی اہمیت بجا۔ مگر آزادی اظہار کے نام پر سنسنی خیزی اور لمحہ بہ لمحہ معلومات کی ترسیل کے نام پر غلط توضیع و تشریح قطعاً درست نہیں۔ ازحد ضروری ہے کہ میڈیا اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کو اعتدال اور توازن کا پابند بنانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جانے جائیں۔ وزارت اطلاعات، پیمراا اور دیگرحکومتی ادارے یہ کام نہیں کر سکتے ، خود میڈیا کوکوئی داخلی نظام وضع کرنا ہوگا۔ اگر پیمرا کی پابندیوں اور حکومتی دباؤ پر کیبل آپریٹر سے چینلز بند کروانے کے خلاف چینلز کے مالکان اور کرتا دھرتا اکٹھے ہو سکتے ہیں تو کسی بھی معاملے کی کوریج کومعقولیت، اعتدال اوراستدلال کے دائرہ کارمیں لانے اور ذمہ دارانہ معلومات کی فراہمی کے حوالے سے کیوں نہیں؟۔ دیگر تمام شعبوں کا تنقیدی جائزہ لینے والے میڈیا کو خود اپنے کر دار کا تنقیدی جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر میڈیا اپنی اہمیت اور وقار کھوتا چلا جائے گا۔
Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 28515 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.