نئی قیادت کی ضرورت

کسی بھی قوم کو ترقی اور خوشحالی کی منزل تک لے جانے میں اس قوم کی قیادت کا اہم کردار ہوتا ہے۔اگر رہبر مخلص ،دیانتدار،ذہین،دوراندیش،بہادر اور وفادار ہو گا تووہ قوم کوتمام تر مشکلات کو عبور کر اکے اپنی منزل تک لے جائے گا قوم کے اندر پائی جانے والی کچھ کمزوریوں کو رہبر اپنی صلاحیتوں سے پورا کرتے ہیں ۔کسی بھی قوم کے رہنماء کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی قوم کے مفادات کے لیے اپنی ذاتی پسند و ناپسند اور مفادات کو بالائے طاق میں رکھتے ہوئے فیصلے کرے بصورت دیگر وہ قوم راہوں میں ہی بھٹکتی رہے گی بدقسمتی سے پاکستانی قوم کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے جو ابھی تک اپنی منزل سے کوسوں دور ہے اس قوم کی صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں اس کے افراد باصلاحیت،ذہین،دیانتدار،بہادر اور وفادار ہیں ان کی قابلیت اور صلاحیت کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جا تا ہے یہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی مثال آپ ہیں اگر انہیں مواقع میسر ہوں تو یہ ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اگر قیام پاکستان سے لیکر اب تک اس قوم کو مناسب ماحول اور اچھے مواقع فراہم کیے جاتے تو بلا شبہ یہ قوم آج باقی اقوام کے لیے باعث تقلید ہوتی اور اس کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج دنیا بھر میں پاکستانیوں کی جو رسوائی ہے وہ انتہائی قابل رحم ہے کچھ غیروں کی سازش اور کچھ اپنوں کی غداری نے اس قوم کو منتشر کر کے رکھ دیا ہے قیام پاکستان سے لے کر آج تک نہ تو یہاں کسی بھی نظام حکوت کا تسلسل رہا اور نہ ہی کوئی اچھی قیادت پنپ سکی اگر کوئی مخلص لیڈر میسر آیا اور قوم نے اس پر اعتماد بھی کیا تو اسے منظر سے ہٹا دیا گیایہ پاکستانیوں کی بدقسمتی رہی ہے کہ وہ اچھی قیادت سے محروم رہی ہے یہاں پائی جانے والی قیادت کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ بیرونی طاقتوں کے زیر اثر رہی ہے انہوں نے اکثر مواقع پر ملکی اور قومی مفادات کی بجائے غیر ملکی قوتوں کے مفادات کا خیال رکھاپاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے روس کو نظر انداز کرکے اپنے پہلے دورہ امریکہ سے لے کر آج پاکستان میں موجوددہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے کے فیصلوں تک تمام امور میں غیر ملکی ہدایات کا عمل دخل رہا ہے اب یہاں تما م چھوٹے بڑے فیصلے غیر ملکی قوتوں کی مرضی اور منشا کو مد نظر رکھ کر کیے جانے لگے ہیں گزشتہ صدی کے وسط میں نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد ایک نئی طرز کے نظام حکمرانی نے جنم لیا اور تیسری دنیا کے ملکوں کو بھی اسی نئے نظام کے تحت نام نہاد آزادیا ں دی گئی تاہم بنیادی طور پر طرز حکومت وہی رہااور فیصلہ سازی کی قوت عالمی طاقتوں نے اپنے پاس ہی رکھی اور ان آزاد کردہ ملکوں اور قوموں کی دل لگی کے لیے کچھ اختیارات ان کو بھی تفویض کیے گئے پاکستان بھی نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہا ہے اور آج یہ بھی نئے عالمی نظام حکمرانی کے تحت عالمی قوتوں کے زیر اثر ہے بدقسمتی سے پاکستانیوں کو قائداعظم کے بعد کوئی ایسا رہنما ء میسر نہیں آیا جو وسیع النظر ہو اور جس کی عالمی نظام اور حالات پر گہری نظر ہو اور جو پاکستانیوں کو اس جدید نظام حکمرانی سے ایک بار پھر آزادی دلا سکے یورپ اور امریکہ دنیا بھر کے وسائل سمیٹنا چاہتے ہیں اور وہ اب تک اپنے ان عزائم میں کامیاب بھی ہیں امریکہ تنہا دنیا کا طاقت ور حکمران بن کر سامنے آیا ہے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ایشیا کے وسائل کو یورپ اور امریکہ نے خوب لوٹا ہے اس نے یہاں اس خطے کے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر روس کو تباہ کیا اور پھر تن تنہا وسائل کو اپنی طرف منتقل کیا آج روس ایک بار پھر اپنی طاقت کو جمع کر کے یورپ اور امریکہ کی اس یلغار کے سامنے بند باندھنے کے لیے تیار ہو رہا ہے اور وہ امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہے خطے کے تیزی سے بدلتے حالات تیسری عالمی جنگ کا اشارہ دے رہے ہیں اس جنگ کا میدان ملک ِشام میں سجنے جا رہا ہے ایران،سعودی عرب،لبنان ،تیونس ،مصر،کویت،یمن اور بحرین تک کا علاقہ اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے اور پاکستان بھی اس کی حرارت سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے کیونکہ پاکستانیوں میں پائی جانے والی صلاحتیں اپنی مثال آپ ہیں ان کی بہادری اور دلیری تاریخی طور پر تسلیم شدہ ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی ملک اپنے لیے یہاں کی فوج مانگ رہا ہے اور کوئی یہاں کی افرادی قوت کو اپنے ہاں پولیس فورس میں بھرتی کرنا چاہتا ہے یہاں پائے جانے والے جنگجو گروپوں کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے ان کو بھی شام ،یمن اور بحرین وغیرہ میں بلایا جا رہا ہے آگ اور خون کے اس نئے کھیل میں پاکستان کا کردار افغان جنگ کی طرح بڑا بنیادی نوعیت کا ہو گا ۔آج پاکستانیوں کو سوچنا ہو گا کہ انہیں آگ کا ایندھن بننا ہے یا اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے بدقسمتی سے آج یہاں کوئی ایسا رہبر نہیں جو اس قوم کو امن اور خوشحالی کی منزل کی طرف لے کر جائے انتخابات کے نتیجے میں بھی سرمایہ دار طبقہ ہی ان پر مسلط کیا گیا جن کا مقصد اپنے سرمائے میں اضافے کے سوا اور کچھ نہیں ہے لوگوں کی نظر ایک بار پھر کسی رہبر کی بجائے کسی ادارے کی طرف مرکوز ہوتی نظر آ رہی ہے یہ ایک فریب نگاہ ہے پاکستانی قوم سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان شٹل کاک بن کر رہ گئی ہے انہیں اپنے لیے از سر نو سوچنا ہو گا اپنے لیے منزل اور راستے کا تعین پھر سے کرنا ہو گا غلامی کے چنگل سے نکلنے کے لیے پھر سے کوشش کرنا ہو گی یہاں کے شاعروں،ادیبوں،تجزیہ نگاروں ،کالم نویسوں ،دانشوروں،اساتذہ اور مخلص سیاستدانوں سمیت ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کی یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کی رہنمائی کریں اور نئے شروع ہونے والے آگ و خون کے کھیل سے اس قوم کو بچانے کی تدبیر کریں یہ پاکستانی قوم کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو باخبر رکھیں اور کسی بھی رہبر کی آواز پر بغیر سوچے سمجھے لبیک نہ کہیں اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یا کسی کی بھی حمایت یا مخالفت میں نکلنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کر لیں اب کی بار جذباتی فیصلے ان کے لیے اور ان کی نسلوں کے لیے ہمیشہ کے لیے تباہی کا سبب بن سکتے ہیں اگر قوم اپنا طرز عمل اور سوچ بدلے گی اور سرمایہ دار،جنونی،جذباتی اور غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے کام کرنے والے رہبروں پر عدام اعتماد کرے گی تواسے وفادار،بہادر اور مخلص قیادت ضرور دستیاب ہو گی ۔
 
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 56022 views i am columnist and write on national and international issues... View More