کشمیریوں کے سینے پر سانحہ پتھری بل کا بھاری پتھر

مقبوضہ کشمیرمیں گزشتہ کئی ہفتوں سے سانحہ پتھری بل کی زبردست گونج ہے ۔ 28فروری کو حریت تنظیموں نے سرینگر کے لال چو ک میں بڑی احتجاجی ریلی کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ کشمیری قوم اس واقعہ کے خلاف بھارتی فیصلے پر کسی صورت خاموش نہیں بیٹھے گی ۔ساری حریت جماعتیں اس سانحے کے حوالے سے بھارتی فوج کی جانب سے مقدمہ بند کر کے فوج کو بے گناہ قرار دینے کے خلاف زبردست احتجاج کر رہی ہیں۔ وادی بھر میں زبردست ہڑتال بھی ہو چکی ہے۔ اس ہڑتال کے دوران نماز جمعہ کے بعدسری نگرکے علاوہ بانڈی پورہ سو پور، پلہالہن اور پٹن میں پولیس اور کشمیری مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں کئی کشمیری خون میں نہا گئے، جبکہ سانحہ کے مقام پتھری بل سمیت متعدد مقامات پر پرامن احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ اس دوران وادی بھر کے وکلاء نے بھی احتجاج کے طور پر عدالتوں کا بائیکاٹ کیااورمذمتی قراردادیں پاس کیں ۔دوسری طرف بھارتی فورسز کی طرف سے متعدد حریت رہنما گرفتاریا نظر بند کر کے مظاہروں میں شامل ہونے سے روکے گئے ۔

سانحہ پتھری بل کی کہانی 20 مارچ 2000ء سے شروع ہوتی ہے جب مقبوضہ کشمیر کے ضلع اسلام آباد (اننت ناگ) کے علاقہ چھٹی سنگھ پورہ میں بھارتی فوج نے رات کے اندھیرے میں حملہ کر کے 36 سکھوں کو قتل کر دیا تھا اور اس کا الزام لشکر طیبہ پر عائد کر دیا تھا۔ اس کا ایک مقصد تو سکھوں اور مسلمانوں کو باہم لڑانا تھا تو دوسری طرف مجاہدین خصوصاً لشکر طیبہ کے خلاف نفرت پیدا کرنا تھا کیونکہ ان دنوں معرکہ کارگل کے بعد لشکر طیبہ نے فدائی حملوں کے ذریعے بھارتی فوج اور حکومت کو بری طرح زچ کر کے رکھ دیا تھا اور کشمیری عوام میں لشکر طیبہ مقبولیت ہر روز دوچند ہو رہی تھی۔ اس اندوہناک واقعے کی مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں سب لوگوں نے مذمت کی ۔ان دنوں امریکی صد ر بل کلنٹن کی بھارت آمد پر اس کے خون آشام واردات کامقصد واضح تھاکہ ایسا کر نے والے خفیہ لیکن بھارتی ہاتھ چاہتے تھے کہ مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں جاری جدوجہد برائے حق خود ارادیت کو دہشت گردی کے طور پر امریکی صدر سمیت ساری دنیا کے سامنے کر پیش کیا جائے۔قتل عام کے بعد جس طرح پروپیگنڈا کیا گیا،اس سے بھی یہی ثابت ہو ا کہ انہی مذ موم مقاصد کے لئے چھٹی سنگھ پورہ میں انسانیت کا قتل عام کا المناک ڈرامہ رچایا گیا۔ لیکن یہ شر انگیز سازش انجام دینے والے اپنے منصوبوں میں بالکل ہی ناکام ہوگئے، کیونکہ نہ تو سکھ برادری عدم تحفظ کی شکار ہوئی اور نہ ہی امریکی صدر بل کلنٹن نے سکھوں کی ہلاکت پر کشمیریوں کو جدوجہد کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ ا بلکہ کلنٹن نے بعدازاں ایک موقع پراس بات کا برملا اظہار اپنی کتاب میں کیا کہ چھٹی سنگھ پورہ کا واقعہ بھارتی سرکاری ایجنسیوں کی کارستانی تھی۔ اس واقعہ کے بعد حیران کن طور پر مقبوضہ کشمیر کے سکھوں او رمسلمانوں کے باہمی تعلقات میں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوطی آگئی ۔اسی وجہ سے چھٹی سنگھ پورہ سمیت مقبوضہ وادی کے کسی علاقے سے کوئی سکھ اپناگھر چھوڑ کر نہ گیا جس طرح ہندو پنڈتوں نے سرینگر میں کیا تھا۔ سانحہ کے حوالے سے یہ بات باعث اطمینان رہی کہ کہ اول روز سے ہی چھٹی سنگھ پورہ کے مقتولین کے لواحقین اور سکھ تنظیموں سمیت سبھی نے اِسے بھارتی ایجنسیوں کی دہشت گردی ہی قرار تھا۔ اس قتل عام کے خلاف زبردست عوامی احتجاج اور ہر روز بڑھتے عوامی ردعمل اور غصے کو دیکھ کرواقعہ کے ٹھیک پانچ دن بعد یعنی 25 مارچ 2000ء کو اسی ضلع میں بھارتی فوج نے 5 نوجوانوں کو شہید کیا اور ساتھ ہی ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ سکھوں کو قتل کرنے والے پانچوں غیرملکی مجاہدین قتل کر دیئے گئے ہیں۔پھر پانچوں لاشیں لوگوں کو دکھائے اور پوسٹ مارٹم کے بغیر فوج کی جانب سے خود ہی دفنا دی گئیں۔ بھارتی فوج نے اس کے حوالے سے کہا کہ ’’مجاہدین‘‘ کو ایک مکان میں بارود سے اڑا کر نشانہ بنایا گیا جس کے باعث ان سب کی لاشیں مکمل طو رپر ناقابل شناخت ہوئی گئی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی مقامی لوگوں نے بتایا کہ قتل کئے جانے والے افراد مقامی نوجوان تھے جنہیں 21 سے 24 مارچ کے درمیان 17 افراد کے ساتھ گرفتار کر کے لاپتہ قرار دیا گیا تھا۔ ان شہادتوں کیخلاف الگ سے جب زبردست مظاہرے شروع ہوئے تو مقامی انتظامیہ نے 30 مارچ کو قبریں کھولنے اور نئے سرے سے تحقیقات کا اعلان کیا۔ اس دوران یہ ثابت بھی ہو گیا کہ قتل ہونے والے سبھی نوجوان مقامی مزدور تھے۔ اس کی تصدیق ہیومن رائٹس واچ نے بھی کی۔ قبروں سے نکالی لاشوں کے ڈی این اے سے بھی ثابت ہوا کہ شہدا مقامی بے گناہ نوجوان تھے۔ پھر معاملہ آگے پڑھا تو مزید ثابت ہوا کہ بھارتی فوج کی 7 راشٹریہ رائفلز کے بریگیڈیئر اجے سکسینہ، لیفٹیننٹ کرنل براہیندرا، کرنل پرتاپ سنگھ، میجر سوبھر شرما، میجر امیت سکسینہ و دیگر قتل عام میں شامل تھے۔ اس پر فوج کے خلاف مقدمہ شروع ہوا۔ تحقیقات ہوتی رہیں لیکن کسی کو سزا نہ ملی۔ 3 اپریل 2000ء کو سانحہ پر احتجاج کرنے والے لوگوں پر کھلے عام گولیاں برسائی گئیں جس کے نتیجے میں مزید 7 کشمیری شہید ہوئے لیکن پہلے 5کشمیری بے گناہوں کے قاتلوں کی طرح ان شہداء کے قاتلوں کے خلاف بھی کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ وقت گزرتا گیا اور پھر بارہ سال بعد 19 مارچ 2012ء کو بھارت کے ’’مایہ ناز ‘‘ادارے سی بی آئی نے بھی ایک بار پھر سپریم کورٹ میں تسلیم کیا کہ یہاں فوج کی جانب سے ہی بے گناہ اور مقامی لوگوں کو مارا گیا تھا۔ اس کے بعد جون 2012ء میں بھارتی فوج نے مقدمے میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے سرینگر ہائیکورٹ میں پیش ہونے کا اعلان کیا لیکن 23 جنوری 2013ء کو بھارتی فوج نے یہ کہہ کر یک طرفہ طور پر مقدمہ ہی سرے سے ختم کر دیا کہ جو الزامات فوج پر لگے ہیں وہ سب غلط تھے۔ اس واقعہ پرساری مقبوضہ وادی میں جب سخت ردعمل ہوا توجموں کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبد اﷲ نے 2فروری کو سرمائی دارالحکومت جموں میں دورے پر آنے والے بھارتی وزیر اعظم سے اس مسئلے پر بات کی تو من موہن سنگھ سے دوبارہ تحقیقات کا وعدہ کیا لیکن اس کے چند ہی روز بعد بھارتی وزیر دفاع اے کے انٹونی کا صاف ردعمل سامنے آیا کہ وزارت دفاع فوج کے خلاف اب مزید کوئی مقدمہ نہیں کھولے گی ۔گویا یہ بھارت سرکار کا کشمیریوں کو صاف جواب تھا کہ ان کے حوالے سے بھارت کسی قسم کی کبھی کئی رو رعایت رکھ ہی نہیں سکتا۔یہاں اس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ چھٹی سنگھ پور قتل عام کے بعد بھارتی فوج نے یہ بھی کہا تھا کہ سکھوں کو قتل کرنے والے لشکر طیبہ کے مجاہد کا نام سہیل ملک تھا جو جماعۃ الدعۃ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید کا سگا بھتیجا تھا۔ اس کی تصدیق عالمی ذرائع ابلاغ حتیٰ کہ ڈینئل پرل اور ڈیوڈہیڈلے کے بیان سے بھی کرائی گئی، لیکن یہ حیران کن بات آج تک کسی نے کبھی نہیں کہی کہ پروفیسر حافظ محمد سعید کے کسی بھتیجے کا نام سہیل نہیں ہے اور نہ ہی یہ سوال کبھی حافظ محمد سعید کے سامنے کسی صحافی نے کیا ہے کیونکہ اس سے بھارت کے جھوٹوں کا بھانڈا مزید پھوٹنے کا تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا کہ کشمیر ی قوم اور پاکستان کے خلاف جبکہ بھارت کے حق میں ساری دنیا یکسوہے اور صرف اسی بات کو اچھالا جاتا ہے جس کا انہیں ہی فائد ہو ۔بھارت کے اس کھلے ظالمانہ سلوک پر سرینگر کے ایک کلیدی اخبار نے لکھا کہ پتھری بل واقعے میں ملوث فوجی افسران کو سزا سنائے جانیکے بجائے ان کو بری کرنے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل ، انسانی حقوق کے نام پر قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں اور خود بھارت کے انصاف پسند ایسے دانشوروں کیے لئے طمانچہ ہے جوکشمیریوں کے ہمدرد ہونے کے دعوے دار ہیں ہیں اوران پرڈھائے جانے والے مظالم ومصائب پر بھی بعض اوقا ت صد ابلندکرتے ہیں۔ پتھری بل کے صاف ثابت شدہ مجرموں کو کلین چٹ دینا کشمیر میں قتل عام کو جائز قرار دینے کے مترادف عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں اصل حکمرانی فوج اور فورسزکے ہی ہاتھوں میں ہے۔ جو کچھ آج پتھری بل قتل عام کے سلسلے میں کیا گیا یہی کچھ کنن پوشہ پورہ، مڑھل،گاؤکدل ، بجبہاڑہ ،ہندوارہ، زکورہ، بٹہ مالو ،سوپور،بانڈی پورہ اور ایسے ہی دوسرے کئی قتل عام کے خوفناک واقعات میں کیا گیا۔ بھارتی فوج کو جب تک کالے قوانین( جوان کے نقطہ ء نگاہ سے آسمانی صحیفہ ہے ) کا حفاظتی حصار حاصل ہے ، وہ کشمیری قوم کو ہر وقت جوتوں تلے روندھنے میں آزاد ہیں۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 122863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.