22فروری 2014کو افغان طالبان نے صوبہ کنڑ میں امریکی کٹھ پتلی حکومت کی
افغان ہومیو پیتھک افواج پر ایک زبر دست حملہ کر کے درجنوں فوجی ہلاک،
متعدد گرفتار کر لئے۔واقعہ کے بعد حسب روایت حامد کرزئی نے پاکستان سے
احتجاج کیا کہ اس حملے میں ان کی سرزمین استعمال ہوئی ہے۔دلیل یہ ہے کہ
صوبہ کنڑ پاکستانی سرحدکے قریب ہے۔اس کارروائی نے امریکہ اور اس کے
اتحادیوں نے بھی مذمت کی ۔ظاہر ہے وہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔انہوں نے
افغان طالبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے جو ممکن تھا کر کے دیکھ لیا
لیکن وہ آج تک ملا محمد عمر مجاہد کی دھول کو صرف چاٹ ہی سکے ہیں۔ماہ فروری
میں امریکی اور اتحادی افواج پر کابل سمیت کئی انتہائی سخت سکیورٹی رکھنے
والے علاقوں بھی بڑے بڑے حملے ہوئے۔شاہ ولی کوٹ میں ایک ہیلی کاپٹر مار
گریا گیا جسے امریکہ نے حسب روایت ’’ایمرجنسی کریش لینڈنگ ‘‘ قرار دیا
۔امریکہ کہتا ہے کہ افغانستا ن میں 25فروری 2014تک اس کے مارے جانے والے
فوجیوں کی تعداد 2229جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 20904ہے لیکن کیا یہ سچ
ہے؟یہ امریکی ومغربی ذرائع ابلاغ سے ہی معلوم کرتے ہیں۔20فروری 2014کو
عالمی شہرت یافتہ امریکی ادارے فوکس نیوز نے خبر دی کہ افغانستان اور عراق
کی جنگوں نے امریکہ میں دماغی مریض فوجیوں کی پوری ایک نسل چھوڑ دی ہے اور
امریکی فوج کے طبی ادارے نے بتایا ہے کہ اب تک ان جنگوں سے واپس آنے والے
فوجیوں میں سے 2لاکھ65ہزار پاگل یا دماغی مریض رجسٹر ہو چکے ہیں جن میں
سے26ہزار 2سو25کی حالت انتہائی خراب ہے۔آپ عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں
ذرا سے غور و تحقیق سے پڑھیں گے تو امریکی اور اسے اتحادی ممالک کی افواج و
معیشت کی حالت کافی حد تک سمجھ آ جائے گی جس کے بارے میں ہمارے ہاں کے نام
نہاد دانشور آج بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
22نومبر 2013 کو افغان طالبان نے صوبہ زابل کے دارالحکومت قلات میں پیش آئے
ایک واقعہ کی روداد بیان کی اور بتایا کہ آج سے چند ہی روز پہلے امارت
اسلامیہ افغانستا ن کے مجاہدین نے یہاں انگور کے ایک باغ میں چھپ کر گھات
لگاتے ہوئے امریکی فوج کے ایک پیدل قافلے پر حملہ کیا۔ حملے میں کئی فوجی
زخمی ہو گئے تو حملہ آور مجاہدین بحفاظت نکل جانے میں کامیاب ہو ئے۔ تھوڑی
ہی دیر بعد ان فوجیوں کے لئے مزید کمک بھی آ گئی جس کے ہمراہ یہ فوجی اپنی
قلعہ نما فولادی گاڑیوں میں سوار ہو کر اپنے قریبی مرکز آ گئے۔ یہاں سے اب
ان فوجیوں کو بڑے مرکز منتقل کرنے کا پروگرام بنا اور پھر ایک بڑے فوجی
قافلے کی شکل میں ان کی روانگی شروع ہوئی۔ اس قافلے کی حفاظت کیلئے جہاں سب
سے آگے دھماکہ خیز مواد پکڑنے والی انتہائی جدید و حساس آلات سے آراستہ و
مضبوط گاڑیاں چل رہی تھیں تو ساتھ ہی ساتھ آسمان میں جنگی ہیلی کاپٹر، ڈرون
اور سیٹلائٹ بھی نگرانی پر مامور تھے۔ یہ قافلہ جب چلتے چلتے اسی انگور کے
باغ کے پاس پہنچا کہ جہاں ان پر حملہ ہوا تو قافلے میں شامل فوجیوں کو
انتقام کی سوجھی۔ سو انہوں نے اتر کر یہاں کے لوگوں سے پوچھا کہ تھوڑی دیر
پہلے ان پر حملہ کرنے والے مجاہدین یہاں موجود ہیں یا چلے گئے ہیں؟ اس پر
لوگوں نے جواب دیا کہ وہ تو یہاں سے جا چکے ہیں۔ فوجیوں کو تسلی نہ ہوئی تو
وہ اسی انگور کے باغ کی طرف چل پڑے کہ جہاں سے ان پر حملہ ہوا تھا۔ ایک
امریکی اہلکار زیادہ تیزی سے چلتے چلتے باقی فوجیوں سے آگے نکل گیا۔ اچانک
سامنے سے اسے کچھ حرکت و آواز محسوس ہوئی جس سے وہ اس قدر خوفزدہ ہوا کہ اس
کے منہ سے زوردار چیخ نکلی اور وہ منہ کے بل گر گیا۔ اس کا گمان تھا کہ
طالبان شاید اسی باغ میں چھپے ہوئے ہیں جو اس پر حملہ کرنے کے لئے حرکت میں
آئے ہیں۔ دوسری طرف اس کی چیخ سن کر باغ سے ایک گیدڑ نکل کر بھاگا تو باقی
فوجیوں کو حوصلہ ہوا اور وہ اپنے ساتھی کی جانب آگے بڑھے کہ اس کا احوال
جان سکیں۔ جب وہ اپنے ساتھی کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ اوندھے
منہ پڑا تھا اور اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔
یہ واقعہ جب افغان مجاہدین نے دنیا بھر کو سنایا تو لوگوں کو اس پر کچھ
زیادہ حیرت نہ ہوئی کیونکہ اس وقت امریکہ میں اس کے اپنے ذرائع ابلاغ کی بے
شمار رپورٹوں کے مطابق ان کے ہاں افغانستان اور عراق کی جنگوں سے واپس آنے
والے فوجیوں میں سے لاکھوں اس جنگ سے متاثر ہیں۔ 11نومبر2013 کو امریکہ میں
جنگوں سے واپس آنے والے فوجیوں کا دن منایا گیا۔ اس روز امریکی ذرائع ابلاغ
کی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں سے واپس آنے والے
فوجیوں کی بہت بڑی تعداد وہ ہے کہ جو پاگل ہونے کے باعث فوج سے بھی فارغ ہو
چکی ہے تو ساتھ ہی اب بے روزگار ہے۔ یہ تعداد ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار
ہے، تو ساتھ ہی ساتھ وہ بے گھر بھی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
افغانستان میں جنگ کے آغاز کے بعد واپس آنے والے ہزاروں فوجیوں کے اعضاء
کاٹے گئے ہیں۔
اس سے چند روز پہلے امریکہ کے سابق فوجیوں کے حوالے سے قائم ادارے نے خبر
دی تھی جسے امریکہ سب سے بڑی نشریاتی اور سی این این نے بھی نشر کیا تھا کہ
امریکی فوج میں روزانہ اوسطاً 22فوجی خودکشیوں کے ذریعے اپنی جان لے رہے
ہیں اور پہلی بار خودکشیوں کے ذریعے مرنے والے فوجیوں کی تعداد سے جنگ کے
زخموں سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ (یہ رپورٹ آج بھی انٹر
نیٹ پر موجود ہے او ر دیکھی جا سکتی ہے)
امریکہ نے افغانستان اور عراق کی جنگوں میں تباہ و برباد ہونے والی اپنی
فوج کی صورتحال اپنی قوم اور ساری دنیا سے چھپانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا۔
افغانستان کے بعد جب اس نے عراق پر حملہ کیا تو وہاں بڑے پیمانے پر اس کے
خلاف جہادی تحریک اور حملے شروع ہوئے۔ عراق میں مجاہدین نے بڑے بڑے امریکی
فوجی قافلے تباہ کئے، ٹینکوں کو خاکستر کیا، جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو
گرایا تو امریکہ نے اسی زمانے سے اس سب تباہی کی میڈیا میں کوریج پر سختی
سے پابندی عائد کر دی اور پھر امریکی ذلت و رسوائی کے جگہ جگہ پچھلے ان
واقعات میں سے بہت کم اور شاذوناذر ہی ایسے منظر دنیا کو دیکھنے کو ملتے
اور یہ بھی وہی ہوتے تھے کہ جنہیں کوئی نہ کوئی صحافی یا عام آدمی چوری
چھپے اپنے کیمرے میں اتار لیتا اور نشر کر دیتا اور آج بھی کبھی کبھار ایسا
ہو ہی جاتا ہے۔ اس کے بعد جب بڑے پیمانے پر فوجیوں کے تابوتوں اور تابوتوں
سے بھرے جہازوں کی ملک میں واپسی شروع ہوئی تو چارو نا چار اس کی کوریج پر
بھی پابندی عائد کر دی گئی کہ امریکہ اپنی فوج کے اس قدر تابوت اور لاشیں
میڈیا نہیں دکھا سکتا۔ پھر کبھی کبھار ایک یا دو تابوت دکھا کر ہی ثابت
کرنے کی کوشش کی جاتی کہ مرنے والے محض اتنے ہی ہیں، اس سے زیادہ نہیں لیکن
سچ نے تو سامنے آنا ہی تھا اور اب سچ ابل ابل کر باہر آ ہی رہا ہے اور
امریکہ کیلئے اس کو بند کرنے کا ہر حربہ ناکام ہو رہا ہے۔
11نومبر2013 کو ہی عالمی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز نے امریکہ کے ایک بڑے
اتحادی آسٹریلیا اور اس کی فوج کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا
گیا ہے کہ افغانستان میں آسٹریلیا نے اپنی تاریخ کی لمبی ترین جنگ لڑی اور
اب واپسی اختیار کی ہے۔ اس جنگ میں جہاں اس کے سینکڑوں فوجی ہلاک و زخمی
ہوئے، وہیں اسے مفت میں ساڑھے 7 ارب کی پھکی کھانا پڑی۔ گزشتہ ماہ یعنی
اکتوبر میں آسٹریلین وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے افغان صوبہ ارزگان میں اپنے
فوجیوں سے ملاقات کیلئے اچانک اور خفیہ دورہ کیا تھا۔ یہاں اس نے اپنی اور
اپنی فوج کی آمد اور جنگ کو Bitter sweet یعنی ’’کڑوی گولی‘‘ سے تعبیر کیا۔
اسی کڑوی گولی کو نگلنا بھی ناممکن ہے تو تھوکنا بھی۔ آسٹریلیا کے اصل آقا
امریکہ کا جو حشر ہے وہ بھی اس کے ہاں ایک خوفناک داستان بن چکا ہے کہ جن
کے ہاں مکمل دیوالیہ ہونے کا ذکر باربار ہو رہا ہے اور یہی سب سے بڑا خطرہ
بن چکا ہے۔
امریکہ بھاگتے ہوئے پاکستان پر ڈرون حملوں کا دباؤ بڑھا کر نکلنا چاہتا ہے
کہ اس کی لنگوٹی تو بچ جائے لیکن وہ کہاں بچنے والی ہے کہ امریکہ کا اپنا
میڈیا، فوجی ماہرین و تجزیہ کار اسے جو مستقبل کا نقشہ دکھا رہے ہیں وہ
انتہائی خوفناک و خطرناک ہے اور ہاں اے امت مسلمہ!
’’اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں‘‘ ہمارا یہی پیغام میڈیا کے ذریعے قوم
کی گردنوں پر سوار ان ’’دانشوروں ‘‘ کے لئے بھی ہے جو آج بھی امریکہ کو خدا
سمجھ کر اس کی ہر بات کو آسمانی صحیفہ سمجھے بیٹھے ہیں۔‘‘ |