عمران خان کے بارے میں عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ وہ
طالبان کا جاسوس ہے، اسکے جواب میں شیریں مزاری کہتی ہیں کہ عاصمہ جہانگیر
امریکہ یورپ کی مخبر ہیں، مگر اس نے عمران کے حوالے سے طالبان کے جاسوس
ہونے کا کوئی جواب نہیں دیا، شیری مزاری نے جب تحریک انصاف چھوڑی تھی اور
انہوں نے عمران کے بارے میں جو باتیں بولی تھی اسکا جواب کون دے گا، کہتے
ہیں کہ وہ آدمی قابل اعتبار نہیں ہوتا جسکو اسکے ساتھی چھوڑ کر چلے جاتے
ہیں-
اسکا مطلب ہے کہ ہمارے سیاستدانوں میں کوئی بھی قابل اعتبار نہیں ہے، ہر
پارٹی کو چھوڑ کر جانے والے بے شمار ہیں، وہ جسکے پاس جاتے ہیں، ایسے بھی
چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، ثابت ہوا کہ پارٹی لیڈر سیاستدان ہوتے ہیں لیڈر نہیں
ہوتے، ہمیں اس وقت لیڈر کی ضرورت ہے سیاستدان کی نہیں، لیڈر اور حکمران میں
فرق ہے، ہر سیاستدان کی منزل حکمران بننا ہوتا ہے، نواز شریف تیسری بار
حکمران بن کر بھی لیڈر نہیں بن سکے-
عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ مسئلہ حل کروانا ہے تو مجھے وزیراعظم بنائو،
میں وزیراعظم ہوتا تو ڈرون گرانے کا حکم دیتا، خدا کی قسم عمران خان اگر
وزیراعظم ہوتے تو کبھی ڈرون گرانے کا حکم نہیں دیتے، ہمارے ہاں اپوزیشن میں
جو بات کی جاتی ہے، حکمران بننے کے بعد اسکے برعکس بات کی جاتی ہے،اپوزیشن
میں عمران خان اور نواز شریف ایک دوسرے کے بدترین مخالف ہیں، مگر ایک دوسرے
کی حمایت بھی کرتے ہیں،چودھری نثار کے پہلے کے بیانات سب نے پڑھے ہوگے، اور
عمران خان کی طرف سے چودھری نثار کے لیے کئی سخت باتیں بھی لوگوں کو یاد
ہوگی مگر آپ سب نے دیکھا کہ اسمبلی میں دونوں نے جچھی ڈالی طویل غیر حاضری
کے بعد نواز شریف جب اسمبلی میں آئے تو اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ملنے کے
بجائے عمران خان سے ملے اور کہا کہ میرے لیے کھانے کی دعوت کرو، دعوت اور
عداوت ساتھ ساتھ چلتی ہے-
اب کابینہ میں نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹارگڈڈ آپریشن اور مزاکرات
ساتھ ساتھ چلیں گے، طالبان بھی مزاکرات کے دوران دہشت گردی جاری رکھے ہوئے
تھے-
الطاف حسین نے یکجہتی ریلی نکالی، ہم اس اقدام کے لیے الطاف بھائی کو سلیوٹ
پیش کرتے ہیں، حیرت ہے اس دن پی ٹی آئی نے بھی ریلی نکالی اور پاک فوج کی
جمایت کی، الطاف حسین تو بہت پہلے سے طالبان کے مخالف ہیں، مگر عمران خان
تو طالبان کا منور حسن سے بھی بڑا حامی ہے، اسے فرط عقیدت سے اسکے مداح
طالبان خان کہتے ہیں-
کابینہ میں شمولیت کے فائدے اٹھانے کے باوجود مولانا نے کابینہ کی مٹینگ
میں شرکت نہیں کی ، طالبان سے مزاکرات یا آپریشن کا فیصلہ جو کرنا تھا، اب
مولانا جی نے شرکت کس ڈر کی وجہ سے نہیں کی، جرات مندانہ فیصلے کرنے کا
حوصلہ مولانا صاحب میں نہیں ہے، مزاکرات کا حامی ہوکر کابینہ میں جائو اور
بات کرو یہ سیاست اصل میں منافقت ہے، ہماری سیاست ذاتی مفاد اور عناد کی
بنیاد پر چل رہی ہے، یہ فیصلہ اگر مولانا صاحب کو پہلے سے بتادیا جاتا تو
وہ کابینہ کے اجلاس میں شرکت کرلیتے، مزاکرات بھی اور آپریشن بھی ساتھ ساتھ،
طالبان کی حمایت بھی سیاست ہے اور مخالفت بھی سیاست ہے، اب طالبان بھی
سیاسی ہوگئے ہیں، ٹار گڈڈ فوجی آپریشن کے بعد طالبان اب مزاکرات کے لیے
اپیلیں کر رہے ہیں -
سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان اب طالبان کے خلاف آپریشن کے حق میں کیوں
ہوگئے ہیں، یہ کیا راز ہے اور کیسا اشارہ ہے، عمران بھی اب روایتی سیاستدان
ہے، حکمران روایتی سیاستدان بننتا ہے جس سے ڈیل کرنا آسان ہو۔ ڈیل تو ہوچکی
ہے مگر اختلاف ڈیلنگ کے طریق کار پر ہے، |