پیارے قائد! ہم آپ سے شرمندہ ہیں
۔آپ کتنے عظیم تھے ، تاریخ بتاتی ہے کہ آپ نے اپنا تن من دھن ، سب کچھ
ہمارے لیے لوٹا دیا تھا ۔یہ آپ ہی کی محنت ِ شاقہ کا نتیجہ ہے آج ہم ایک
آزاد مملکت میں آزادی سے رہ رہے ہیں ۔آپ نے بر ِ صغیر کے مسلمانوں کی اس
وقت رہنمائی کی ، جب وہ غلامی کی چکی میں پس رہے تھے ۔ہمیں تاریخ کی کتابیں
بتاتی ہیں کہ آپ 1930 ء میں برطانیہ چلے گئے تھے ، مگر محض پانچ سال بعد
دوبارہ برصغیر آگئے کہ دیار ِغیر میں بھی آپ ہر دم اپنی قوم کے لیے مطرےب
رہتے تھے ، کیوں کہ آپ بر ِ صغیر کے مسلمانوں کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے ۔آپ
چاہتے تھے کہ آپ کی قوم کا فرد فرد آزاد فضاؤں میں سانس لے ۔ ان پر کسی غیر
قوم کا تسلط نہ رہے ۔ یوں آپ نے صرف ہمارے لیے برطانیہ کی پر سکون زندگی کو
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا ۔پھر آپ میدان ِ عمل میں اس آن، بان ،
شان ، خلوص، عزم اور استقلال سے اترے کہ بالآخر ہمار لیے ایک آزاد مملکت
حاصل کر کے ہی سکھ کا سانس لیا ۔زمانے کی کوئی طاقت نہ آپ کو جھکا سکی ، نہ
دبا سکی ۔ آپ ثابت قدم رہے ۔ اپنوں کے تیر سہے ، غیر وں کی صعوبتیں جھیلیں
، مگر مجال ہے ، آپ کی پائے ثبات میں ذرا سی بھی لغزش و جنبش آئی ہو ! آپ
نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کی ، بالآخر رب تعالیٰ نے بھی آپ
کو سر خرو کیا کہ آپ پر خلوص تھے اور اپنی قوم کے سچے ہم درد ۔
پیارے قائد ! آپ کی اس لا زوال او ربے مثال قربانی کا مگر ہم نے آ پ کو کیا
صلہ دیا ! ہم نےتو آپ کی تمام تعلیمات کوہی یکسر فراموش کردیا ۔ آپ نے طلبہ
و طالبات کو سیاست اور سیاسی پارٹیوں سے احتراز برتنے کی نصیحت کی تھی ،آپ
نے اسلامی تاریخ کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے وطن ِ عزیزکے سیاست دانوں کو عوام
کا خادم کہا تھا ، آپ نے کرپشن کو لعنت گردانا تھا ، آپ نے اسلامی تعلیمات
کی روشنی میں صوبائیت اور فرقہ واریت کی نفی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم
مسلمان ہیں اور اسلام ہمیں یہ ہی سکھاتا ہے، آپ نے غریبوں کی دیکھ بھال
اورا ن کی مدد کرنے کی نصیحت کی تھی ، آپ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
خواتین کا رتبہ بڑھانے کی تلقین کی تھی ، آپ نے مسلمان ملکوں سے دوستانہ
مراسم بڑھانے پر زور دیا تھا ۔اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ
مسلم اتحاد کے داعی تھے ۔۔۔۔ پیارے قائد!آپ کے خطبات ، نصیحتوں اور اقوال
سے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔۔۔ مگر ہم نے آپ کی تعلیمات کو انفرادی اور
اجتماعی ہر دو سطحوں پر بھلادیا ۔۔ افسو س ، خجالت اور شرمندگی سے ہم یہ
اعتراف ِجرم کرتے ہیں کہ ہم آپ کی تعلیمات کا بھرم نہ رکھ سکے ، شاید یہی
وجہ ہے کہ آج ہم آزاد ہو کر بھی ، آزاد نہیں ہیں ۔
پیارے قائد ، ہم نے آپ کی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے پر ہی اکتفا نہ کیا ، ہم
توآپ کی اس رہائش گاہ کو بھی نہ سنبھال سکے ، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے
آخری "علیل ایام " کاٹے تھے ۔ آپ کی اس یاد گار پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا
، اورآپ کی اس نشانی کو ہم سے چھیننے کی زبردست کوشش کی گئی ۔ بھلا اس
رہائش گاہ کا کیا قصور تھا ! اس حملے کو ایک سال ہونے کو ہے ، مگر ابھی تک
یہ احساس دامن گیر ہے کہ آپ ہم سے کتنے ناراض ہو ں گے !
اور پھر یہ بات ۔۔ جو میں لرزتی قلم اور دھڑکتے دل کے ساتھ لکھنے کی جسارت
کر رہاہوں کہ آج مجھے آپ کے سامنے اعتراف ِ جرم کرنا ہے ۔۔۔۔ کہ آپ کی آزاد
کردہ مملکت کے کچھ باسیوں نے سفاکیت کی تاریخ رقم کرتے ہوئے آپ کی قبر کی
ہی بیچ ڈالا ۔ آپ کی قبر کے اصل کمرے کو قحبہ خانہ بنا دیا گیا ۔
پیارے قائد !! ہم بھی کیا قوم ہیں !۔۔۔ ہم نے آپ کے احسانا ت کا بدلہ کتنے
"احسن " طریقے سے چکایا کہ آپ کی قبر کو ہی بیچ دیا ۔۔۔ پیارے قائد ، ہم
اتنے شرمند ہ ہیں کہ اب تو تخیل میں آپ کی آنکھیں سے آنکھیں ملانے کی ہمت
بھی جواب دے گئی ہے ، کیوں کہ ہم آپ کی قبر کے تقدس کا تحفظ نہ کر سکے ۔۔۔
پیارے قائد!!!ہمارے دلوں میں راج کرتی ادسیاں اور ہماری نظروں کی وحشتیں
بتا رہی ہیں کہ آپ ہم سے بہت ناراض ہیں ۔۔۔ بہت ہی زیادہ ناراض ۔۔ اتنے
ناراض ۔۔ کہ شاید آپ ہمیں کبھی معاف ہی نہ کریں !!!
(نوٹ: میرا فیس بک رابطے کا ایڈریس یہ ہے :
https://www.facebook.com/naeemurrehmaan.shaaiq)
|