شہید فلسطین
یہ اس تاریک اور ظلمت آمیز شب کا واقعہ ہے، جب امریکہ عراق پر جبرواستبداد
اور وحشت و بربریت کی داستانیں رقم کرنے پر اپنی شیطانی خوشی کی پہلی برسی
منا رہا تھا، کہ عالم اسلام پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ اُمت مسلمہ کے
عظیم سپوت، عرب دنیا کے نامور مجاہد، تحریک آزادیٔ فلسطین کے علمبردار اور
حماس کے سربراہ شیخ احمدیاسین شہید کردئیے گئے…… اناﷲ واناالیہ راجعون۔
وھیل چیئرکے بغیر یہ عدیم الحرکۃ عظیم مجاہد کمانڈر اور باطل کے خلاف شمشیر
بّراں ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ء کوساری رات مسجد میں عبادت اور اﷲ رب العزت سے راز
ونیاز میں مشغول رہنے کے بعد نمازِ فجرکی ادائیگی کے بعد اپنے جانثاروں کے
ساتھ باہر نکلے اور صیہونی دہشت گردوں نے انتہائی بزدلانہ میزائیل حملہ
کرکے حددرجہ سفاکانہ طریقے سے اُنہیں شہید کردیا۔ اُدھر اسرائیلی ترجمان نے
اس بات کی تصدیق کی کہ ’’اسرائیلی فضائیہ نے یہ بدنما کارنامہ بدنام زمانہ
اسرائیلی وزیراعظیم ایریل شیرون کے خصوصی حکم پر سرانجام دیا ‘‘اور یہ بات
بھی سامنے آئی کہ حملے کی پلاننگ انسانیت دشمن اسرائیلی وزیراعظم نے خود ہی
کی تھی۔
۱۹۳۸ء کے اوائل میں فلسطین کے (جورہ) نامی قصبہ کے ایک متمول گھرانے میں
پیدا ہونے والا یہ عظیم بچہ جب پردۂ عالم پر نمودار ہوا تو کسے معلوم تھا
کہ آج کا یہ بچہ کل کا بے باک رہنما ثابت ہوگا۔ ابھی آنکھ کھولی ہی تھی کہ
بچپن ہی میں اسرائیلی درندوں نے شیخ کے گھر کو مسمار کردیا، یہ ۱۹۴۸ء کی
بات ہے جب اسرائیلی فوج نے جورہ پر بحروبر اور فضا سے بمباری اور میزائل
باری کی تھی۔(جورہ حافظ ابن حجررحمہ اﷲ کے شہر عسقلان کے مضافات میں واقع
ہے، جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام والی وادی نمل (چیونٹیوں کی وادی) بھی ہے،
جس کا ذکر قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے حوالے سے سورۂ نمل میں
کیا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے بھی اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ جورہ میں ایک
مشہور و معروف’’ شہداء قبرستان‘‘ بھی ہے جس کے متعلق عجیب وغریب کہانیاں
یہاں کے لوگوں میں مشہور ہیں)۔ بہرحال پھرشیخ کا خاندان غزہ محلہ (رمال)
میں منتقل ہوگیا۔ ابھی نوعمری ہی کے ایام تھے کہ ایک ٹریننگ کے دوران حادثہ
میں شیخ کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید نقصان پہنچااور وہ اپنے قدموں پر صحیح طرح
چلنے کے قابل نہ رہے، پیروں کی انگلیوں پر چلنے کی کوشش کرتے تھے ، ان کے
بچپن کے دوست اور آج کے فلسطین کے عظیم عربی شاعر ’’محمد ابودیہ‘‘ کے بیان
کے مطابق ’’وکأني أنظرإلیہ في تلک الأیام، وھو یسیرخطوات، ثم یقع علی الأرض،
ثم یلملم کتبہ وینھض، ویکمل المسیرۃ بعزیمۃ یعجزعنہا أولو القوۃ‘‘ اُن دنوں
کا وہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جب وہ چند قدم چلتے، پھر زمین
پر گرپڑتے، پھر سے اپنی کتابیں سمیٹتے ، اور کھڑے ہوکر اپنی باقی ماندہ راہ
پر ایسے عزم کے ساتھ اُسی گرنے اُٹھنے کے انداز میں رواں دواں ہوجاتے کہ
بڑے بڑے توانا بھی اُس سے ناتواں نظر آتے ہیں‘‘۔ ابودیہ کہتے ہیں کہ شیخ
میرے دوست ، میرے عزیز اور میرے ہمسایہ تھے، اُن کے والد اسماعیل یاسین بڑے
ٹھاٹ باٹ سے زندگی گذارتے تھے، مگر شیخ کی نوعمری میں ہی اُن کا انتقال
ہوگیا تھا، ان کے کُل دس بچے تھے، اُن میں احمد ، شحدۃ، حسن، بدر، آمنہ
اورفہیمہ کے ساتھ ہماری طفولیت کھیل کود میں گذری۔ احمد سب سے چھوٹا تھا،
اپنی ذہانت اور بے انتہا صلاحیتوں کی وجہ سے والدین کو بہت ہی لاڈلا تھا۔
ابودیہ مزید کہتے ہیں کہ شیخ کے پیروں کی طرح اُن کے ہاتھ بھی شل ہوگئے تھے،
مگر پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارے، بڑی مشکل سے قلم پکڑ کر لکھا کرتے تھے، وہ
کہتے ہیں کہ شیخ جب زخمی ہوئے تھے، تو میں نے ہی دیگر دوستوں کے ساتھ
اُنھیں ہسپتال پہنچایا تھا، جہاں ہمارا خیال تھا کہ کچھ دنوں بعد آپ پوری
طرح شفایاب ہوجائیں گے ، لیکن وہ چوٹ ایسی تھی کہ آپ جسمانی طور پر شروع
میں کم اور آخرِ عمر میں بالکل معذور ہوگئے تھے، یہ حادثہ سترہ اٹھارہ سال
کی عمر میں شیخ کو پیش آیا تھا۔ جب آپ انٹر کے طالب علم تھے، اس قدر مشقت
اور معذوری کے با وجود دین کی والہانہ محبت اور خاندانی دین داری کی وجہ سے
اُس وقت اور آج کی عالمِ اسلام کی عظیم درس گاہ جامعۃ الازھر تشریف لے گئے
اور حصول علم میں منہمک رہے۔
وطن سے دوری، اہل وعیال کی یادآوری اور جسم کی معذوری جیسے مجاہدات اور
ریاضات کو برداشت کرنے والے یہ مجاہد مصر کے اسلام مخالف اور مغرب نواز
پالیسیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ اُنہیں یہ معلوم تھا کہ ساری عمر مصر
میں نہیں گذارنی، دینی غیرت وحمیت اُنہیں حالات حاضرہ میں دلچسپی لینے پر
مجبور کررہی تھی، ان دنوں اخوان المسلمین نامی تنظیم اور اس کے سربراہ سید
قطب نوجوان نسل کی اُمیدوں کا مرکز بن چکے تھے۔پھر ریاست اسرائیل کے قیام
پر شیخ دل ہی دل میں جل کر راکھ ہوگئے تھے۔ شیخ یاسین نے بھی ان سے متاثر
ہوکر اسی تنظیم میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے واپس فلسطین آکر تنظیمی مقاصد
کو آگے بڑھانے کا بیڑہ اٹھایا۔ لیکن یہاں آکر ۱۹۶۷ء میں آپ ایک اور سانحے
کا شکار ہوگئے، وہ اس طرح کہ چند نوجوانوں کے ساتھ اسرائیل کے خلاف ایک
مظاہرے میں آپ گرفتار ہوئے، آپ کی والدہ (سعدۃ الھبیل)کو اپنے معذور اور
ناتواں بیٹے کی گرفتاری اور انہیں مارپیٹ اور ان پر تشدد کا جب علم ہوا تو
وہ اس صدمے کو نہ سہہ سکی اور اﷲکو پیاری ہوگئی (اناﷲ وانا الیہ راجعون)
مگر آپ کے قدم ڈگمگائے نہیں، فلسطین کے حالات مصر سے مختلف ہونے کی وجہ سے
آپ نے ستّر کی دہائی میں علاحدہ تنظیم المجمع الاسلامی کی بنیاد رکھی۔ ابھی
چند سال ہی گذرے تھے کہ اس تنظیم کے مقاصدمیں وسعت پیدا کرتے ہوئے اس کا
نام مجمع المجاہدین سے بدل ڈالا اور آہستہ آہستہ اپنے ہدف کی طرف بڑھتے چلے
گئے۔ ابھی کام جاری تھا کہ تنظیمی مقاصد کو مزید وسیع کرنے کی غرض سے اور
سیاسی پیچیدگیوں کے باعث شیخ اور اُن کے رفقاء کار غوروخوض کرنے لگے، کچھ
عرصے بعد ۱۵ دسمبر ۱۹۸۷ء کو فلسطین کی عظیم جہادی اسلامی سیاسی تنظیم حماس
کی بنیاد رکھی۔ حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ) سے مخفف ہے۔ جس کے مقاصد
میں فلسطین کی آزادی، فلسطینی مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا، غاصب
اسرائیلی حکومت کا خاتمہ کرنا اور فلسطین میں اسلامی مملکت کا قیام شامل
تھا۔ اب کی بار شیخ نے یہ فیصلہ کردیا کہ ہدف کے حصول کے لیے سیاسی وعسکری
سطح پر نوجوانانِ فلسطین کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تو دریغ
نہیں کریں گے۔ انھوں نے اپنی معذوری کی پروا نہ کرتے ہوئے باطل کی آنکھوں
میں جب آنکھیں ڈالیں تو صیہونی اور ریاستی دہشت گرد امت مسلمہ کے اس عظیم
سپوت کا نام سن کر بوکھلا گئے۔ حماس کی آئے روز بڑھتی ہوئی کارروائیاں باطل
کی رعونت کو خاک میں ملانے کے لیے کافی تھیں۔مئی ۱۹۸۹ء میں اسرائیلی حکومت
نے شیخ کو گرفتار کرکے عمر قید کی سزا سنادی۔ شیخ کے جذبہ جہاد اور جدوجہد
میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور تحریک حماس شب و روز آگے مسلسل بڑھتی چلی گئی۔
مجبوراً شیخ کو رہا کر پڑا اوریوں ۱۹۹۷ء میں شیخ آٹھ سال کی طویل قید
بامشقت کے بعد رہا کردئیے گئے۔ شیخ نے اپنی پیرانہ سالی، آخرعمر میں بینائی
سے محرومی اور کثرتِ امراض کے ہوتے ہوئے بھی جہادی کام جاری رکھا اور
تنظیمی کمان سنبھالے ہوئے دن رات اپنے دماغ کو صیہونی دہشت گردوں سے انتقام
اور چھٹکارا حاصل کرنے میں سرگرم و مصروف رکھا، بالآخر ۲۲ مارچ کی شب کو
بعداز فجر سفاک اور درندہ صفت بزدل دشمن نے جو شیخ کے جذبہ جہاد سے بوکھلا
چکا تھا، نظریہ کی اس جنگ میں اپنی شکست کو تسلیم کرتا ہوا، فضائی طیاروں
سے شیخ پر میزائل داغے۔ جس کی وجہ سے ان کا جسم تین حصوں میں اور سر دو
اجزا میں تقسیم ہوگیا۔ شیخ کی وھیل چیئر کے پرخچے اڑ گئے۔ سڑک شہید کے خون
سے رنگی گئی اور تکبر و غرور سے بھرپور ظالم نے بصد سرور و فخر دنیا کو یہ
خبردی کہ میں نے ہی شیخ کو ختم کرنے کا فرمان جاری کیا تھا اور اب
یاسرعرفات کو بھی شیخ یاسین کی طرح نشانہ بنادیا جائے گا۔ حماس کی طرف سے
پورے فلسطین میں اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا گیا اور لاکھوں
فلسطینی عوام نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر شہید اور اپنے محبوب قائد کو اُٹھا
کر اس دارِ فانی سے اشکبار آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا۔ اس دن غزہ شہر میں
ہرطرف ’’الجہاد الجہاد‘‘ کے فلک شگاف نعرے بلند تھے، امریکہ جس نے سلامتی
کونسل میں ۶۹ دفعہ ویٹو کا حق استعمال کیا ہے، ان میں ۳۹ مرتبہ وہ صرف اور
صرف اسرائیل کے لیے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ حق استعمال کرچکا ہے، آج جب پوری
مہذب دنیا کے دباؤ پر سلامتی کونسل نے اسرائیل کے خلاف قرار دادِ مذمت تیار
کی ، انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار امریکہ نے اسے نہ صرف ویٹو کیا بلکہ
یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔مسلمانوں اور بالخصوص
فلسطینیوں کے زخموں کی اس نمک پاشی کے موقع پر غالب کا یہ شعر بے ساختہ یاد
آرہا ہے:
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
فراست وبصیرت کا یہ پیکر، جہدوجہاد کا علمبردار، عزم و ہمت اور استقامت کا
جبل عظیم خود تو چل بسا مگر اس کی شہادت بھی اس کی زندگی کی طرح قابلِ
تقلید نمونہ ہے۔ اس کی وھیل چیئر جوکفر کے ایوانوں میں زلزلہ برپاکرنے کے
لیے کافی تھی ایسے ہی اس کی شہادت کا ہر قطرہ ٔخون فلسطینی جذبہ جہاد میں
نئی روح پھونکنے کے برابر ہے۔ وہ اپنے نحیف اور کمزور جسمانی وجود کے ساتھ
بھی فلسطینیوں کے لیے ہمالیہ سے بلند عزائم کی حیثیت رکھتے تھے۔ جس شانِ
امتیازی کے ساتھ اُنھوں نے اپنے بیمار و معذور جسم کے ٹکڑے اسلام کی
سربلندی اور رضائے خداوندی کے لیے بکھیرے ہیں اس سے انھوں نے فلسطینیوں کو
عزم و عمل کا ایک نیا حوصلہ اور شان ولولہ عطا کیا ہے۔ شیخ کی شہادت سے
تحریک فلسطین کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط ہوئی ہے۔ شیخ یاسین کل بھی زندہ
تھے اور آج بھی زندہ ہیں اور ایسے لوگ سدا زندہ رہتے ہیں۔
شیخ احمد یٰسین شہید نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں فلسطین کی قوم کو
مخاطب کرکے جو ولولہ انگیز تقریریں کی ہیں، ان تقریروں کے دو مختصر اقتباس
پیش خدمت ہیں:
’’حان الوقت یا أبنائي ویاأحفادي، لتر جعوا إلی اﷲ تعالی، وتتوبوا إلیہ،
حان الوقت لتدعوا التفاھات من حیاتکم وتنحوّھا جانباً، حان الوقت لتوقظوا
أنفسکم، وتصلّوا الفجر في جماعۃ، حان الوقت لتتعلموا وتتثقفوا وتخترعوا
وتکو نوا سبّاقین علی الغیر، حان الوقت لتتحلّوا بالأخلاق، وتنفذوا مافي
القرآن، وتقتدوا بالنبي صلی اﷲ علیہ وسلم ، وتتقربوا من ذلک النبي
الأعظم……‘‘
’’میرے بچو اور پوتو! اب وقت آگیا ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو، اور
اچھی طرح توبہ کرو، اب وقت آگیا ہے کہ تم فالتو چیزوں کو اپنی زندگی سے پرے
ہٹاؤ، اور انہیں ایک طرف رکھ دو، اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے آپ جاگو اور
فجر کی نماز باجماعت ادا کرو، اب وقت آگیا ہے کہ تم خوب تعلیم حاصل کرو اور
تعلیم یافتہ اور موجد بنو اور اغیار سے آگے بڑھو، اب وقت آگیا ہے کہ تم
اچھے اخلاق سے مزین ہو اور قرآنی احکام کی تنفیذ کی کوشش کرو، اور جناب
سرورکائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنا آئیڈیل بناؤ اور اس عظیم الشان
پیغمبرؐ کا قرب حاصل کرو……‘‘
’’أما أنتنّ یافتیات الأمۃ وحفیداتی، استحلفکن باﷲ أن تتمسکن بالحجاب الحق
الذي یستر العورات، وأستحلفکن باﷲ أن تحتمین بدینکن وبالرسول الکریم صلی اﷲ
علیہ وسلم واقتدین بأمکنّ خدیجۃؓ وأمکن عائشۃؓ، اجعلنہما نبراس حیاتکن،
وأطلب منکن أن تستعدن لماھوآت……‘‘
اے امت مسلمہ کی نوجوان بچیو اور میری پوتیو! میں تمہیں اﷲ کی قسم دلاتا
ہوں کہ تم اس برحق حجاب کو تھامے رکھو جو شرم گاہوں کو صحیح معنوں میں
مستور رکھتا ہے، اور تمہیں اﷲ کی قسم دلاتا ہو ں کہ تم اپنے دین اور نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو مدنظر رکھ کر تقوی اختیار کرو اور
اپنی ماؤں حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ کی پیروی کرو اور ان کی زندگی کو
مشعلِ راہ بناؤ اور میں یہ بھی آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ کل (بروز قیامت، یا
فلسطینی حالات کے مطابق مستقل قریب میں) جو کچھ ہونے والا ہے اس کے لیے
پوری تیاری کرو……‘‘ نیزوفات سے ایک دو روز قبل مراکش میں ۲۹۔ ۳۰ مارچ کو
ہونے والے عرب سربراہ کانفرنس (جو شومیٔ قسمت سے التوا کا شکار ہوگئی ہے)
کے نام اپنے آخری پیغام میں فرماتے ہیں:
’’……بلاشبہ اﷲ تعالیٰ ہر چرواہے (حکمراں) سے اس کی ریوڑھ (رعیت و عوام) کے
متعلق عنقریب پوچھ گچھ کرنے والے ہیں، کہ آیا اس نے حفاظت کا حق ادا کیا،
یا اپنی رعایا کو تباہ وبرباد کیا، پس امت مسلمہ کے حوالے سے اﷲ تعالیٰ سے
خوب ڈرو، دراں حالیکہ اسے اﷲ تعالیٰ کے دشمنوں اور امہ کے دشمنوں نے مل کر
ایک ہی کمان سے نشانہ بنایا ہے…… بے شک آج آپ کے سامنے بہت بڑے خطرناک
چیلنجز ہیں اور تمہاری اقوام بے قراری سے اس عرب سربراہ کانفرنس کے نتائج
پر نظریں مرکوز کی ہوئی ہیں، میں آپ تمام قائدین کو اﷲ تعالیٰ بزرگ و برتر
کا واسطہ دیتا ہوں کہ مندرجہ ذیل نکات پر سنجیدگی سے مناقشہ فرما کر منظور
فرمائیں۔
۱- فلسطین کی سرزمین مسلم عربوں کی ملکیت ہے اور بحیثیت مجموعی یہ اسلامی
(وقف) کے حکم میں ہے، اس سے دست برداری یا اس کے حق میں کوئی کوتاہی شریعت
کے روح سے جائز نہیں ہے اور یہ اسلحہ ہی کے زور پر امت کو واپس ملے گی۔
۲-فلسطین میں جہاد برحق اور مبنی برشریعت ہے اور یہ ،مسلمان پر فرض ہوچکا
ہے۔ ۳-فلسطینی قوم جو بڑی بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ اس معرکے میں
برسرپیکار ہیں، وہ ہر طرح کے تعاون کی مستحق ہیں، بالخصوص اخلاقی، اقتصادی
اور عسکری سطحوں پر۔ ۴۔ ہم تمہیں اﷲ بزرگ و برتر کا واسطہ دیتے ہیں کہ دشمن
(یہود) کے ساتھ ہر طرح کے روابط یکسر ختم کردو اور ان سے کلی بائیکاٹ کرو۔
صرف میں ہی نہیں مسجد اقصیٰ بزبان حال آپ تمام قائدین کو اس بارے میں اﷲ
بزرگ و برتر کا واسطہ دے رہی ہے، جس کے انہدام کے لیے دشمن نے پوری تیاری
کرلی ہے۔ ۵۔ میں تمہیں اﷲ بزرگ و برتر کا واسطہ دیتا ہوں ، کہ تم عراق و
افغانستان کے لیے تن من دھن کے پیش کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرو، تاکہ وہ لوگ
بھی امریکی قبضے سے آزادی حاصل کرسکیں…… یہ خیرخواہی کی کچھ باتیں تھیں جو
میں نے عرض کردیں، جناب سرورکائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں خیرخواہی ہی
کا حکم دیا ہے۔ میری دعا ہے کہ آپ کی شیرازہ بندی قائم رہے ، اﷲ تعالیٰ کے
دین کی نصرت کے لیے اور آپ کی صفیں اﷲ کرے کہ متحد ہوں بھلائی کے لیے ۔
آمین……أخوکم أحمدیاسین‘‘
جگر مراد آبادی نے کیا ہی خوب کہا ہے!
جو حق کی خاطر جیتے ہیں،مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر؟
جب وقتِ شہادت آتا ہے،دل سینوں میں رقصاں ہوتا ہے
(ماہنامہ الفاروق کراچی، ربیع الاول ۱۴۲۵ھ) |