میں جب بھی حسن نثار کو ٹی وی
ٹاک شوز میں دیکھتا ہوں تو وہ کسی ملاّ سے الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ بجا طور
پر فرماتےہیں کہ دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والے مسلمان آج تک ماچس کی
ایک تیلی تک نا بنا سکے اور نہ ہی ایک عدد سوئی۔ مسلمانوں کی کسمپرسی کی
وجہ وہ یہ بتا تے ہیں کہ عالم اسلام میں تحقیق کے شعبے میں کام نہیں ہوتا ۔
بقولِ ان کے دنیا کی پانچ سو بہترین جامعات میں ایک جامعہ بھی کسی مسلم ملک
میں واقع نہیں ہے۔ ان کی باتیں سن کر یوں لگتا تھا کہ موصوف نے خود اپنی
تمام زندگی ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں تحقیق کرتے ہوئےگزاری ہے۔
لیکن بلوچستان سے متعلق ان کی ایک حالیہ تحریر نے نہ صرف ان کی تحقیق کی
ناقص نوعیت عوام الناس کے سامنے عیاں کی بلکہ ہم پہ یہ افسوس ناک بات بھی
منکشف ہوئی کہ امت مسلمہ نا صرف سوئی اور تیلی نہیں بناسکتی بلکہ اس کے
دانشور آج کے اکیسویں صدی میں بھی گوگل اور ویکی پیڈیا کے دور میں بھی
تحقیق سے نا واقف ہیں۔وہ اپنی تحریر لکھنے سے پہلے چند ’’کللک‘‘ بھی نہیں
کرسکتے ۔
ایک زمانہ تھا کہ لوگ تحقیق کے لئے لائبریریوں کا رخ کرتے تھے۔ پھر
کمپیوٹرز آگئے ۔ اس کے بعد انٹرنیٹ۔ یوں دنیا کی اہم ترین کتابیں،
ڈکشنریاں، انسائکلوپیڈیا اور ریفرنس بکس کمپیوٹر اور انٹر نیٹ پر منتقل اور
دستیاب ہونے لگیں۔ چند سال گزرنے کے بعد وہی کتابیں اور تاریخی دستاویزات
موبائیل فونز، آئی پیڈ اور کنڈل پر بھی مفت میں دستیاب ہوگئیں۔ لیکن سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ علم و تحقیق کے شعبے میں اتنی ترقی ہونے کے باجود پنجاب
کا ایک دانشور اپنے ہی ملک کی تاریخ سے اتنا لاعلم کیوں ہے؟ اتنی بے حسی
اور لاعلمی محض علم و دانش کی موت نہیں بلکہ خود پاکستان کے انحطاط پزیر
ہونے کا ٹھوس جواز ہے۔(بائی دا وے، انحطاط تو عروج کے بعد آتاہے۔ پاکستان
نے عروج کے کون سے دن دیکھے ہیں؟)۔
اس تحریر میں بلوچستان سے متعلق ان کی تحقیق کی روشنی میں پانچ سوالات پیش
خدمت ہیں۔
اول، ان کی تحریر پڑھ کر مجھے چھ لوگوں ( حیر بیار مری، اللہ نذر، براہمدغ
بگٹی، جاوید مینگل ، زمران مری اور بشیر زیب ) اور چھ تنظیموں (بلوچ لبریشن
آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ ری پبلکن آرمی ، لشکرِ بلوچستان ، بلوچ
یونائیٹڈ آرمی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد) کے بارے میں آگاہی ہوئی
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انیس سو اڑتالیس میں جس دن بلوچستان اورپاکستان کے
تنازعے کا آغاز ہوا، اس وقت تک ان چھ رہنماوں میں سے ایک بھی پیدا نہیں ہوا
تھا اور نہ ہی ان چھ تنظیموں کا کوئی وجود تھا۔ جنرل ایوب خان کے دورِ
حکومت میں جب بلوچ قوم پرست رہنما نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں نے
پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے تب بھی ان میں سے کوئی ایک شخص بھی پیدا
نہیں ہوا تھا۔ حتیٰ کہ انیس سو تہتر میں جب ذولفقار علی بھٹو نے نیشنل
عوامی پارٹی ( نیپ) کی جمہوری حکومت برطرف کرکے بلوچستان میں مارشل لا نافذ
کیا اس وقت بھی براہمداغ بگٹی اور بشیر زیب پیدا نہیں ہوئے تھے۔
چنانچہ،بلوچستان کا مسئلہ آج کا نہیں ہے جسے چند افراد یا تنظیموں سے منسوب
کیا جائے۔ حسن نثار جیسے دانشوروں کو بلوچستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی
ضرورت ہے تاکہ انھیں بلوچستان کے تنازعہ کی بنیاد کا پتہ چل جائے۔ سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ جب ان چھ افراد اور تنظیموں کا وجود ہی نہیں تھا تو اس وقت
پاکستان اور بلوچستان کے تعلقات کیوں کشیدہ تھے اور اس وقت بھی بلوچوں پر
کیوں فوج کشی کی گئی؟
دوم، مطالعہ کو لے کر ہم دوسرے سوال پر آجاتے ہیں۔ حسن نثار مغربی نظام
تعلیم کی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے لیکن خود مغربی محققیں کے نقش و قدم
پر عمل نہیں کرتے۔ آج بھی بلوچ قوم پرست تحریک اور بلوچستان کی تاریخ پر سب
سے مستند ترین کتابیں امریکی اور یورپی صحافیوں اور دانشوروں ہی نے لکھی
ہیں نا کہ پاکستانیوں نے۔ امریکی صحافی سلیگ ہیرسن کی کتاب ’’ ان
افغانستانز شیڈو‘‘ کو جدید بلو چ قوم پرستی کا بائیبل کہا جائے تو غلط نہیں
ہوگا۔ بلوچستان پر ایک اور عمدہ کتاب’’بیک ٹو فیوچر‘‘جرمن ماہرِ سیاسیات
مارٹن ایکسمن نے لکھی ہے جو کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی کراچی نے شائع کی ہے۔
حال ہی میں امریکی صحافی وائلم مارکس نے بلوچستان پر اپنی کتاب شائع کی ہے
جب کہ صوبے پر فرانسیسی دانشور فیڈریک گریر کو بلوچستان پر مستند اتھارٹی
مانا جاتا ہے۔ آخرپاکستانی دانشور کیونکر بلوچستان پر تحقیق نہیں کرسکے ؟
کیو ں پاکستانی دانشوروں نے حکومتی پروپگینڈے کو سچ سمجھ کر اپنی تحریروں
میں حقیقت کی صورت میں پیش کیا؟ کیا انھیں پتہ تھا کہ ان کی تحاریر میں
جومعلومات حقیقت پر مبنی نہیں ہوگی وہ آج کے دور میں چند منٹوں ہی میں غلط
ثابت ہوجائے گی؟ اب تو کئی سال ہوگئے ہیں کہ اسلام آباد نے بلوچستان پر
تحقیق کرنے والے صحافیوں اور دانشوروں کے لئے صوبے کے تمام دروازے بند
کردئیے ہیں۔ آج سے چند سال قبل جب نیویارک ٹائمز کی صحافی کارلوٹا گال کے
کمرے میں خفیہ اداروں کے چند افراد نے سرینا ہوٹل کوئٹہ میں گھس کو انھیں
مارا پیٹا تو انھیں براہمداغ بگٹی یا جاوید مینگل نے نہیں بھیجا تھا۔ ایسا
کیوں ہے کہ جب سوئی ڈاکٹر شازیہ خالد کی بیڈروم میں کوئی بندہ ( کپٹن حماد
)گھس جاتا ہے تو اس کا تعلق پنجاب سے ہوتا ہے اور جب گارلوٹا گھر کی بیڈروم
میں لوگ گھستے ہیں تب بھی ان کا تعلق فوج اور پنجاب سے ہوتا ہے؟ حسن نثار
صاحب، آپ ہی بتائیں یہ کیا عادتیں اور حصلتیں ہیں جو پنجاب میں سیکھائی
جاتی ہیں؟ ۔ جب ’’نیویارکر‘‘ میگزین سے منسلک صحافی نیکولس شمائیڈل کو
بلوچستان سے رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں پاکستان سے ڈی پورٹ کیا گیا تو اس
کے احکامات ڈاکٹر اللہ نذر یا بشیر زیب نےتو نہیں دئیے تھے۔ کیا صحافی
ڈیکلن والش کو برطانوی اخبار’’گارڈین ‘‘ میں بلوچستان پر لکھے گئے مضمون
لکھنے کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر چلے جانے کا حکم حیر بیارمری نے دیا تھا ؟
خود بلوچ تو کبھی صحافی، محقق اور دانشور سے خوفزدہ نہیں ہوتے تو پھر حسن
نثار صاحب جس چیز ( یعنی تحقیق) کے اتنے بڑے مداح ہیں اس کے دروازے پاکستان
نے بلوچستان کے لئے کیوں بند کئے ہوئے ہیں؟ لاہور میں تو علم و حکمت کو
کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ لاہور میں بڑے اہتمام کے ساتھ کتابوں کا میلہ لگتا ہے
اور ’’دشمن ملک‘‘ [بھارت] سے وکرم سیٹھ تشریف لاکر ’’کی نوٹ تقریر ‘‘بھی
کرتے ہیں اور بلوچستان میں تو طلبہ کے ہاسٹل کے کمروں پر چھاپے پڑتے ہیں
کیونکہ بلوچ طالبہ بقول ِ ایف سی ، اسی دشمن ملک کے رہنما گاندھی اور نہرو
کی سوانح عمری پڑھ ہوتے ہیں۔مذکورہ بالاتمام چھ بلوچ رہنماتو مسلسل کہتے
ہیں کہ بین الاقوامی صحافی ، ڈکومنٹری فلم میکرز بڑے شوق سے بلوچستان تشریف
لے آئیں تو پھر اسلام آباد کو ڈر کس چیز کا ہے ؟
سوم، حسن نثار ملاوں پر برستے ہیں کہ وہ مغرب اور مغربی اداروں کے خلاف ہیں
جب کہ علم و حکمت کے مراکز مغرب ہی میں واقع ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ کیا حسن نثار صاحب ایمنسٹی انٹرنیشنل کو تسلیم کرتے ہیں؟ کیا وہ ہیومن
رائٹس واچ کو مانتے ہیں؟ کیا ان کے نزدیک کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی کوئی
اہمیت ہے؟ کیا وہ انٹرنیشنل کرائسس گروپ، نیو یارٹائمز، گارڈین، دی
اکانومسٹ، بی بی سی، سی این این کی رپورٹنگ کو مستند تسلیم کرتے ہیں؟اگرہاں
تو ان تمام اداروں کی رپورٹس کے مطابق بلوچوں کی نسل کشی کا ذمہ دار
پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے ہیں توپھر وہ کیوں اپنی تحاریر میں
پاکستان کی آئین سے متصادم ہونے والے فوجیوں کو انصاف کے کہٹرے میں لانے کی
سفارش نہیں کرتے؟ جب آپ بین الاقوامی اداروں کی تحقیق سے منکر ہوتے ہیں تو
پھر آپ میں اور طالبان میں کیا فرق رہ جاتا ہے ؟مجھے یا د پڑتا ہے کہ ایک
انٹرویو کے دوران بزرگ بلوچ رہنما نواب خیر بخش مری نے مجھے پاکستانی
حکمرانوں کے بارے میں بتایا کہ وہ تاریخ کو مانتے ہیں، نا منطق کو ۔ آپ
دنیا بھر کے شواہد ان کے سامنے اکھٹے کریں تب بھی وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں
کریں گے۔ نواب مری نے پوچھا ’’ تو پھر آپ ایک ایسے ملک کے ساتھ بیٹھ کر کیا
بحث کریں گے جو تاریخ کو مانے نا دلیل سے قائل ہو؟‘‘۔ جس دنیا میں ہم رہ
رہے ہیں اب اس میں ہم آسمان سےتو شواہد نہیں لاسکتے ۔ ماما قدیر کوئی
پیغمبر تو نہیں جو حضرت جبرائیل آسمان سے ان کے لئے دستاویزات لے کر آئیں
تا کہ پنجاب کا دانشور اپنی فوج کے ظلم و ستم کا قائل ہو۔ آج کے جدید ترقی
یافتہ دنیا کی مستند ترین رپورٹس انہی تنظیموں ہی سے آتی ہیں۔ اب ایمنسٹی
انٹرنیشنل اپنا ہیڈ کوارٹر اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے مسجد کے
پیچھے قائم کرسکتا ہے اور نا ہی ہیومن رائٹس واچ لال مسجد کے ساتھ والی گلی
میں مولانا عبدالعزیز کے پڑوس میں اپنا ریسرچ ڈیسک قائم کرسکتا ہے۔ ایسی
خواہشات صرف حسن نثار اور عمران خان کی ہوسکتی ہیں بلوچوں کی نہیں۔ جب پوری
دنیا بشمول پاکستان کی سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ بلوچوں کے قتل ِ عام میں
اسلام آباد ملوث ہے تو پھر پنجابی دانشوروں کی یہ علمی بددیانتی کیوں؟
چہارم، حسن نثار نے بلوچستان کو کثیر القومی صوبہ قرار دے کر فو ج کو اس کی
ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔ چلو مان لیتے ہیں کہ بلوچ اکثریت ہی
نہیں بلکہ بلوچستان میں اقلیت میں ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا
دنیا کی کسی قوم اور فوج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کم آبادی والی قوم کے
نوجوانوں کو اغوا کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکے؟ کیا نیویارک، لندن ،
کراچی سب کثیر لاقوامی شہر نہیں ہیں؟ نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی شہر کی
ٹوٹل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہے اور وہاں چوالیس فیصد لوگ سفید فام
ہیں۔ تو کیا وہاں کی سفید فام آبادی کو یہ حق ملنا چائیے کہ وہ پاکستانیوں
کو صفر فیصد کی آبادی سمجھ کر ’’ لاپتہ‘‘ کریں؟ آپ کے لوگوں کا تو جب
امریکہ کے کسی ائیر پورٹ پر کمپوٹر پر باڈی سرچ ہوتا ہے تو لاکھوں لوگوں کی
غیرتِ ملی جاگ جاتی ہے۔ جیسا کہ پہلے کالم میں عرض کرچکا ہوں کہ مسئلہ یہ
نہیں ہے کہ بلوچوں کی آبادی کتنی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان فوج، خفیہ
ادارے اور ان کے ڈیتھ اسکواڈ بلوچوں کی نشل کشی میں ملوث ہیں اور اس کا
اعتراف پاکستان کی سپریم کورٹ کر چکی ہے۔ لاپتہ بلوچوں کے لواحقین یہ تو
نہیں کہتے کہ انھیں کسی جرگہ یا شریعت کورٹ میں پیش کیا جائے۔ ان کا تو یہ
مطالبہ ہے کہ انھیں پاکستان ہی کی عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ عجیب زمانہ
آگیا ہے کہ (فوج کی طرف سے ) عدالتوں سے بےرخی ’’حب الوطنی ‘‘کے زمرے میں
آتی ہے اور (بلوچوں کی طرف سے ) عدالتی انصاف کا مطالبہ ’’غداری ‘‘سمجھا
جاتا ہے۔
پنچم ، میری خواہش ہے کہ حسن نثار صاحب ہمیں بتائیں کہ ان کی نظر میں’’آباد
کار‘‘ کا مطلب کیا ہے۔ آباد کار کوئی قوم نہیں بلکہ بلوچستان کے تناظر میں
ایک کیفیت ہوتی ہے جب انسان اپنا گھر چھوڑ کر کسی اور کی زمین پر پناہ لے۔
اگرانھوں نے بلوچستان میں زندگی گزاری ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں
اگر کوئی قوم صیح معنوں میں دربدر ہوکر’’آباد کار‘‘بن گئی ہے تو وہ بلوچ ہی
ہے۔
چند سال قبل ایک ریسرچ کے لئے جعفر آباد جانے کا موقع ملا۔ وہاں لاکھوںمری،
بگٹی ’’مہاجرین‘‘ کا سنا۔ یہ وہ لوگ تھے جو فوجی آپریشن کی وجہ سے اپنا گھر
بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔مجھے کم از کم پانچ ایسے بچے ملے جو جعفر
آباد میں ’’آباد کار‘‘ ہونے کی وجہ سے صیح علاج و معالجہ ناہونے کی وجہ سے
اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ (اس مضمون کے ساتھ تصویر انہی بچوں کی
ہے۔ مزید تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں)۔اصل’’ آباد کار‘‘ تو نواب بگٹی کے
بچے بن گئیے ہیں جنھیں اپنی والد کی شہادت کے آٹھ سال بعد بھی ان کی قبر پر
فاتحہ خوانی کی اجازت نہیں ہے۔
آپ کوئٹہ میں ، کینٹ ، جنا ح ٹاون، شہباز ٹاون اور ارباب ٹاوں (جہاں غیر
بلوچ رہتے ہیں) جائیں اور دیکھیں کیا ایف سی اہلکار آپ سے شناختی کارڈ طلب
کریں گے ؟اگر آپ غیر بلوچ ہیں تو کیا آپ کو کسی چیک پوسٹ پہ روکا جائے
گا؟ہرگز نہیں ۔ اور پھر آپ بلوچ آبادی والے علاقوں سریاب روڑ ، بروری ، کلی
اسماعیل اور نیو کاہان کا رخ کریں تو پھر دیکھیں کہ آپ کو کتنے چیک پوسٹس
پر روکا جائے گا اور شناختی کارڈ طلب کی جائے گی۔
اگرحسن نثار کوئٹہ میں زندگی گزارتے تو انھیں پتہ چلتا کہ بلوچ ہی دراصل
اپنی سرزمین پر ’’آباد کار‘‘ بن گیا ہے جسے گھر سے نکلتے ہوئے دفتر تک
پہنچے میں فاٹا اور پنجاب سے آنے والے سپائی ایف سی کے چار، پانچ چیک پوسٹس
پر اپنی شناخت کرانی پڑتی ہے۔عجیب دستور ہے کہ ایک ایسا شخص جو بلوچستان سے
تعلق رکھتا ہے اور نا ہی یہاں کی زبان بولتا ہے اسی سرزمین پر بسنے والے
مقامی بلوچ سے کہتا ہے کہ ’’اپنی شناخت کرو‘‘۔
بلوچستان میں آباد کار وہ بلوچ بن گیا ہے جسے اپنے گھر لوٹنے پر ایف سی
والے پوچھتے ہیں’’ کدھر جارہے ہو؟‘‘بچارہ بلوچ کہتا ہے کہ’’ گھر جاتا ہوں‘‘
تو ایف سی والے پوچھتے ہیں کہ ’’ گھر کیوں جار ہے ہو؟‘‘۔ لاہور میں رہنے
والے کسی دانشور کے لئے تو یہ سب کچھ ’’ جھوٹ‘‘ کا پلندہ ہوگا۔ یقین نہیں
آتا تو سریاب روڑ پر رہنے والےاس بوڑھے بلوچ سے پوچھیں جو اپنے بیٹے کے
ساتھ موٹر سائیکل پر سوار گھر جارہا تھا تو ایف سی اہلکاروں نے روک کر یہ
عجیب سوال پوچھا ’’ گھر کیوں جارہے ہو؟‘‘
بڈھے بلوچ نے ڈرتے ہوئے کہا ’’معاف کیجئے، آئندہ نہیں جاوں گا!‘‘۔
ایف سی اہل کار کی تشنگی پوری نہیں ہوئی۔ پھر پوچھا ’’ لیکن اس وقت کیوں
گھر جارہے ہو؟‘‘
پتہ ہےجب اپنی ہی سرزمین پر آپ کی اس قدر تذلیل ہو تو آپ کیسا محسوس کریں
گے؟پتہ ہے سفید بالوں والے بڈھے بلوچ نے جل کر کیا کہا؟
آپ کو سن کر تو ہنسی آئے گی لیکن جب آپ اپنی ہی سرزمین پر ’’آباد کار‘‘ بن
جائیں اور پنجاب اور فاٹا سے آنے والے آباد کار آپ کے حاکم بن جائیں تو آپ
کو بڈھے بلوچ کی بات پر مزید ہنسی نہیں آئے گی۔
بڈھے بلوچ نے کہا، ’’ جی ، پھانسی دو مجھے۔ بلکہ ہم تینوں کو پھانسی دو‘‘
ایف سی اہل کار نے حیر ت سے پوچھا’’ تم تو دو لوگ ہو۔ تیسرا کون ہے ؟اور کس
کو پھانسی دوں؟‘‘
’’ مجھے‘‘ بلوچ نے کہا
’’ میرے بیٹے کو بھی‘‘
اسے بھی، اس نےاپنادردِ دل سنھبالااور موٹر سائیکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
کہا۔
’’ اسے بھی پھانسی دو۔ یہ بھی بلوچ ہے۔چلو، ہم تینوں کو چوک پہ لٹکا دو۔ ‘‘ |