فکر و تدبیر جہاد

ہم وہ قوم ہیں جو خود پسندی، خود فریبی اور خود پرستی کا شکار ہیں۔ ہم ’خودی‘ جیسی جان لیوا بیماری کے عارضے میں مبتلا قوم ہیں۔اپنی ناکامیوں اور حماقتوں کو بھی شاندار کامیابی ، کامرانی اور عقل و فراست کے سانچے میں ڈھال کر ایسے قصے کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ رہے رب کا نام!! پھر اس خود ساختہ سچ پر اکڑتے بھی یوں ہیں کہ دنیا کی آخری سچائی یہی ہو۔ نفسیات کی زبان میں ایسی ذہنی حالت کو ’شیزوفرینیا ‘نامی بیماری سے منسوب کیا جاتا ہے جہاں دماغ اپنی شدید اندرونی خواہشات کوچلتی پھرتی، نظر آتی اور محسوس ہوتی حقیقت کے طور پر اپنے سامنے کھڑا پاتا ہے۔ایسی حقیقت جس کو وہ سچ مانتا ہے ! ایسا سچ جس کے سامنے سچائی بذاتِ خود ماند پڑ جائے ۔

دہشت گردوں کی حامی مذہبی و سیاسی جماعتیں ، دانشور اور عام افراد جو گزرے ماہ و سال کے تمام واقعات کے بعد بھی اپنے حقیقی بھائیوں ، ان کی سر کٹی شریعت کے نفاذ اور پاکستان کے تابناک مستقبل کے لئے فکرمند ہیں اورہمہ وقت ان کے بچاؤ کی خاطر نئی نویلی تاویلیں گھڑنے میں مگن رہتے ہیں۔ آج کل مارکیٹ میں جو نئی تاویلیں اِن ہیں ان میں سے دو عدد تو اس قدر پر مغز ہیں کہ دماغ خیرہ کئے دیتی ہیں ! ایک یہ کہ امریکہ طالبان کے خلاف ایک دہائی سے زائد عرصہ تک جنگ کرنے کے بعد بھی ناکام ہو چکا ہے اور اسی لئے اپنے گھر کی راہ لینے کی تیاری کر رہا ہے تو پاک فوج کس طرح ان کے خلاف کامیابی حاصل کر سکتی ہے اور دوسرا یہ کہ فوج کا ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بنگلہ دیش کی تاریخ دہرائے گا۔ کاش کہ تھوڑا سا ہاتھ عقل کو بھی مار لیا جائے۔ کاش!!!

امریکہ نے جو اہداف 9/11 کی دہشت گرد کاروائی کے بعد القائدہ کے حوالے سے متعین کئے تھے آج تیرہ سال بعد وہ اہداف حاصل کئے جا چکے ہیں۔ القائدہ کمزور ہوئی، ان کے اعلی کمانڈر اور لیڈر شپ کو ختم کیا گیا، اسامہ بن لادن کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا، افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، شمالی اتحاد کی حکومت کا قیام عمل میں آیا، انہی کی سرپرستی میں جمہوری عمل کا آغاز ہوا، افغانستان کے تحفظ کے مستقبل کے حوالے سے اس کی سیکیورٹی فورسز کی تشکیل دی گئی اور اسے پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار کیا گیا۔ اس جنگ کے نتیجہ میں9/11 کے بعد القائدہ امریکہ میں مزید کوئی کامیاب دہشت گرد کاروائی نہیں کر پائی۔ امریکہ نے اپنا ملک اور مستقبل ان دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں سے محفوظ بنا لیا۔ حالت اب یہ ہے کہ افغانستان تو کیا کوئی پاکستانی پاسپورٹ بھی امریکن ائیر پورٹوں پر دکھائی دے جائے تو سیکیورٹی خدشات کے تحت پاسپورٹ کنندہ کے کپڑے تک اتروا لئے جاتے ہیں۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی جنگ ہمیشہ ہمیشہ جاری نہیں رہتی۔ اہداف حاصل کئے جاتے ہیں اور اگر فریقین کی مرضی شامل ہو تو جنگ کسی امن معاہدے کی صورت میں وگرنہ بنا کسی افسوس، معافی تلافی یالکھت پڑھت کے ختم کر دی جاتی ہے۔ یہی امریکہ کرنے جا رہا ہے۔ دو طرفہ سیکیورٹی معاہدہ افغانستان کو سمجھ آتا ہے تو ٹھیک ورنہ امریکہ اپنا بوریا بستر اٹھائے گا اور پھر تو کون میں کون!! تم جانو تمہارے طالبان جانیں تمہارا ملک جانے۔

بنگلہ دیش کی بات کریں تو اُس فوجی آپریشن کا اِس فوجی آپریشن سے موازنہ کرنا کافی عجیب لگتا ہے کیونکہ دونوں صورتحال میں زمینی حقائق بالکل بر عکس ہیں!مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت ’عوامی لیگ‘ 1970 کے انتخابات میں واضح اکثریت لے کر پاکستان میں مرکزی حکومت سازی کا جائز سیاسی حق جمہوری عمل سے حاصل کر چکی تھی ۔ بنگلہ دیش کا فوجی آپریشن ایک ڈکٹیٹر نے اقتدار کی ہوس کے مارے سیاست دانوں کی مشاورت کے بعد بنگلہ دیش کو اس کے جائز ترین سیاسی حق سے محروم کرنے کے مقصد سے شروع کیا تھا۔آپریشن کے حوالے سے مغربی پاکستان کی عوام کو دھوکے میں رکھا گیا تھا ۔ پریس پر پابندی تھی اور سچائی عوام تک نہیں پہنچنے دی جا رہی تھی۔ آپریشن کا مقصد مغربی بازو کی مرکزیت کو مضبوط رکھنا، اقتدار پر براجمان رہنا اور وسائل پر قابض رہنا تھا۔آزادی کے بعد ہی سے مشرقی پاکستان کے عوام سے حقوق کیا ان کی شناخت تک چھیننے کی کوشش کی جاتی رہی۔ صوبے بنگال کا نام تبدیل کیا گیا، بنگالی زبان پر کاری ضربیں لگائیں گئیں،وسائل میں متوازی شراکت سے محروم رکھا گیا، معاشرتی و معاشی حقوق سلب کئے گئے اوریہاں تک کہ بنگالی سیاست دانوں کو غدار بھی ثابت کیا گیا۔بنگالی پستہ قد، گہری رنگت اور مضحکہ خیز لہجے میں اردو بولنے والے افراد تھے۔ اس کے باوجود مشرقی پاکستان کی عوام اپنے حقوق کی جنگ جمہوری طرزِ عمل سے لڑتی رہیں ۔ نہ وہ مشرقی پاکستان سے نکل نکل کر مغربی پاکستان پر خود کش حملے کرتے تھے، نہ وہ افواج کے گلے کاٹتے تھے، نہ انہوں نے گلی، محلوں، بازاروں، مساجد و کلیساو امام بارگاہوں میں بم پھوڑے، نہ اپنے ہم وطنوں کو انسانی ڈھال بنایا، نہ سر کٹی لاشوں کے تحفے بھجوائے، نہ انہوں نے مغربی پاکستان کو زبردستی بنگالی بنانے کی کوئی کوشش کی،نہ ہی انہوں نے قتل و غارت گری کی۔ مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعتیں مغربی پاکستان کی وعدہ خلافیوں کے باوجود بار بار مذاکرات کی ٹیبل پر آتی رہیں پر نیت میں فتور اِس طرف تھا نہ کہ اُس طرف! ایسی صورت میں فوجی آپریشن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ثابت ہوا اور مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بنا۔جبکہ آج کی صورتحال میں دہشت گرد جن کے خلاف افواج پاکستان نے ابھی محض ردِ عمل میں کاروائی کی ہے، پاکستان کی رٹ کو تسلیم نہیں کرتے، آئین تسلیم نہیں کرتے،غیر مشروط جنگ بندی پر تیار نہیں ہیں،برس ہا برس سے قتلِ عام بلکہ سفاکانہ قتال میں مصروف ہیں، اپنا ایجنڈا زبردستی پاکستان پر نافذ کرنا چاہتے ہیں، سیکیورٹی اہل کاروں کے گلے اور سر کاٹتے ہیں تو ان کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن پاکستان کی بقا کا معاملہ بن چکا ہے۔

ویسے پاکستان میں طالبان شریعت کی حامی تعداد میں کافی معقول ہے۔ طالبانی شریعت کا ایک دور پاکستانی عوام خود بھی ضیاء صاحب کی حاکمیت میں بھگت چکی ہے جب سرِ عام کوڑے برسائے جاتے تھے، زبردستی نمازیں پڑھائی جاتی تھیں، چوراہوں میں سرکاری تشدد کی محفلیں جمتی تھیں! مکمل انصاف فراہم کیا جا رہا تھا۔ طالبانی شریعت کے مدعی گواہی دیں گے کہ اُس شاندار دور میں ہم ایک عظیم اور مہذب ترین قوم بن کر ابھرے جو اسلام کے اصولوں پر ایسی کاربند تھی کہ نمازوں کی بروقت ادائیگیوں کے سلسلے میں کوئی کوتاہی برتنے پر تیار نہ تھی اور اسی واسطے بغیر وضو نماز پڑھنے سے بھی اجتناب نہیں کرتی تھی کہ کہیں فرض قضا نہ ہو جائے، جھوٹ اور کرپشن ملک سے نا پید ہو چکا، امن و امان کی حالت بے حد توانا تھی اور ہوتی بھی کیوں نہ کہ کلاشنکوف کلچر خوب پرورش پا چکا تھا، افغان جنگ و جہاد کے نام پر پاک سر زمیں پر دہشت گردی کے بیج بوئے جا رہے تھے اور نوجوانوں کا مستقبل روشن کیا جا رہا تھا، تمام صوبے اس دور سے بے حدخوش اور ضیاء نظریے سے از حد متفق بھی تھے بس سندھ میں کچھ منچلوں کے ہاتھوں ایم آر ڈی تحریک چل پڑی تھی ،معاشی سرگرمیاں انتہاووں کو چھوتی نظر آتی تھیں اور منشیات کا کاروبار عروج پر تھا،پاکستان ساری دنیا میں اپنا لوہا منوارہا تھا۔ کیا سنہرہ دور تھا!!!

طالبان حمایتی قوتوں کے پروپیگنڈا سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اب مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا الزام تیسری قوت یا ڈرون حملوں پر بھی نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب انہیں تازہ تاویلیں گھڑنے کی ضرورت ہے۔ اب حکومت اور فوج کو امریکہ کی افغانستان میں فرضی ناکامی کا راگ الاپ کر ڈرایا جا رہا ہے ۔ اب دہشت گردوں کے خلاف ردِ عمل کو بنگلہ دیش کے آپریشن سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ان کے پروپیگنڈا سے بچئے!!
دین کافر فکر و تدبیر جہاد
دین ملا فی سبیل اﷲ فساد

Jahid Ahmad
About the Author: Jahid Ahmad Read More Articles by Jahid Ahmad: 19 Articles with 13168 views Columnist for Roznama "Din"... View More