ایسا کیوں ہوتا ہے؟

یہ آج سے کوئی پچیس برس ادھر کا قصہ ہے کہ راولپنڈی سے آزاد کشمیر کے ضلع باغ جاتی، پہاڑی سڑک پہ لکڑی کا ایک پل آتا تھا۔سڑک تو سرکار کی ملکیت تھی لیکن اس پل کی ملکیت مشکوک تھی۔اسی پل کے عین اوپر ایک بابے کا گھر تھا۔بابا سیاست میں بھی سرگرم تھا۔جونہی بابے کا حکومت کے ساتھ پھڈا ہوتا یا اس نے سرکار دربار سے کوئی بات منوانا ہوتی، بابا لکڑی کا وہ پل اتارتا اور اسے اپنے گھر میں یرغمال بنا لیتا۔ دونوں طرف گاڑیوں کی طویل قطار لگ جاتی۔ صاحبان اقتدار خبر ملتے ہی دوڑے آتے۔ مسئلہ سنتے اسے حل کرتے پل دوبارہ جوڑا جاتا اور ٹریفک یوں رواں دواں ہو جاتی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔پنڈی سے باغ جاتے ہوئے جب تیسری بارمیں نے یہی منظر ری پلے ہوتے دیکھا تو باغ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سے شام کی ایک ملاقات میں میں نے پوچھ لیا کہ بھائی تم اس سڑک کو یر غمال بنانے والے بابے کو روکتے کیوں نہیں؟ اس درویش صفت ڈپٹی کمشنر نے بہت دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ لوگ اس کے ساتھ ہیں اور اس کے سارے مطالبات جائز اور اجتماعی ہوتے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں میں نے دیکھا کہ غداری کے مقدمے میں ماخوذ ایک شخص کو پاکستان کی عدالتیں ڈھونڈتی پھرتی ہیں۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہیں۔وہ عدالت سے چند منٹ کے فاصلے پہ اپنے فارم ہاوس میں برج کھیل رہا ہے۔ کافی اور سگار سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس کے وکیل عدالتوں کا منہ چڑا رہے ہیں اور عدالت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی بیٹھی ہے۔حکومت اور اس کے جری وزیر داخلہ کو بھی صورت حال کی سب خبر ہے لیکن سب کی رنگت اڑی ہوئی ہے اور سانس رکا ہوا ہے۔ غصہ اپنا ہے لیکن ہر شخص عدالت کے کندھے پہ میزائل رکھ کے فائر کر رہا ہے۔کوئی مجھ جیسا غریب ہوتا تو پاکستان پولیس کے شیر ضوان اسے یوں ڈنڈہ ڈولی کر کے لے جاتے کہ زمانہ دیکھتا۔اس سے پہلے کیا ہم انسانوں پہ انڈوں کے بے رحمانہ استعمال کی کہانیاں پڑھ نہیں چکے۔ کیا یہی پولیس سرخ مرچوں کو اپنے طریقہ تفتیش میں ترپ کا پتہ نہیں سمجھتی۔بات دور نکل گئی۔وہی شخص ایک دن گھر سے عدالت پیش ہونے نکلا اور دل کا کیا کریں صاحب گاتا اے ایف آئی سی کے وی آئی پی روم میں جا براجمان ہوا۔ حکومت کے ڈیلے باہر آ گئے۔ اسے فارم ہاؤس سے پکڑنا مشکل تھا اب اسے کون پکڑے گا۔ جنرل راحیل شریف نے روایات کے برعکس نہ اس کی عیادت کی نہ فون کیا۔ بس ایک گلدستہ بھیج دیا کہ آخر مروت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اب وہ ایک گلدستہ ہوا بنا ہوا ہے۔ مشرف کے وکیل اسی ایک گلدستے کے سر پہ کبھی پوزیٹو سرپرائز دیتے ہیں اور کبھی نیگیٹو۔یہ گلدستے کا نہیں اس کے پیچھے اس کے بھیجنے والے کا زور ہے جو ساڑھے سات لاکھ لوگوں کا اعتماد اپنے پاس رکھتا ہے۔

ان دو واقعات کے بیچ ایک واقعہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ جب میاں نواز شریف پاکستانی عوام کی دو تہائی اکثریتی رائے کے ساتھ بر سر اقتدار آئے۔انہوں نے منگلا کے کور کمانڈر کو جس کا کوئی سیاسی بیک گراؤنڈنہ تھا اور جو برج اور گالف کھیلنے کے علاوہ کوئی بڑے عزائم نہ رکھتا تھا کو اچانک چیف بنا دیا۔اس چیف نے نواز شریف کے ساتھ وہی کیا جو ضیاٗء الحق نے بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔ ایک دن میاں صاحب اٹک قلعے میں تھے۔پھر اس کے بعد کی داستان سبھی جانتے ہیں۔جرنیلوں سے لے جیلرز تک ہر ایک نے حتی المقدور میاں صاحب کا ناک زمین پہ رگڑنے کی کوشش کی۔کون ہے جس نے اس افتاد کے زمانے میں میاں صاحب پہ تبرہ نہ کیا ہو۔لوگ مشرف ہی نہیں جنرل کیانی کو بھی میاں صاحب پہ ڈھائے جانے والے مظالم میں شریک بتاتے ہیں۔ یہ کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ کیسے میاں نواز شریف کو طیارے میں دوبارہ پیک کر کے سعودیہ والوں کی طرف اچھالا گیا اور کون اس کا ذمہ دار تھا لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جس دن میاں صاحب کا تختہ الٹا گیا۔ جس دن بریگیڈئر ہارون اسلم کی قیادت میں ٹرپل ون بریگیڈنے وزیر اعظم ہاؤس کے باتھ روموں تک میں چھپے لوگوں کو نہ بخشا اس دن لاہور کی مٹھائی کی دوکانوں سے مٹھائی ختم ہو گئی تھی۔لوگ جوش مسرت میں لاہور کی سڑکوں پہ دیوانہ وار رقص کر رہے تھے۔

ہمارے حکمران امریکہ کے ساتھ بنا کے رکھتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ بھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور تو اور افغانستان کی مینڈکی حامد کرزئی کی بھی سخت سست سن لیتے ہیں لیکن مجال ہے جن کے ساتھ بنانی ہے ان کے ساتھ بنا کے رکھیں۔ اگر گاوں کے چند لوگ بابے کے ساتھ کھڑے ہو کے اپنے جائز مطالبات منوا سکتے ہیں۔ اگر جنرل راحیل کا بھیجا ایک گلدستہ مشرف کو من مانی کا سرٹیفیکیٹ دے سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ملک کی اکثریت کے ووٹوں سے ان کی مرضی و منشاء سے بر سر اقتدار آئے لیڈر کے ساتھ یہ سلوک ہو۔چوری کے مینڈیٹ کا معاملہ البتہ دوسرا ہے۔ پنکچروں کے بل بوتے پہ کچھ عرصہ تک دھوکہ دہی چل سکتی ہے لیکن اس کے لئے لوگ اپنی جان دینے پہ تیار نہیں ہوتے۔میاں صاحب کی ٹیوب میں ہوا بھرنے والے انہیں یہ بھی بتائیں کہ اس موریوں سے بھری ٹیوب سے جان چھڑا کے ایک دیسی ٹیوب خریدیں اور اس میں خلوص کے ساتھ خدمت کی ہوا بھریں۔آپ دیکھیں گے کہ دنیا خود بخود آپ کے اشارہِ ابرو کی منتظر ہو گی۔عوام کی حمایت کے بغیر اقتدار گالی ہے۔پھر یہی ہوتا ہے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ۔۔۔اور نواز شریف کا بڑھا ہوا قدم کبھی اٹک قلعے میں جا پڑتا ہے اور کبھی جدہ کے سرور پیلس۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291711 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More