معاملہ میڈیا کا۔۔۔۔

گذشتہ چند برسوں میں ہمارے ہاں شعبہ ابلاغ ، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا ایک نئی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جنرل مشرف کے آمرانہ اقدامات کی مخالفت ہو، عدلیہ بحالی تحریک کی پر زور حمایت یا حکومتوں کی کارکردگی پر اصلاحی مقاصد کے لئے کی جانے والی تنقید، میڈیا کا کردار ہمیشہ مثبت رہاہے۔ مگر بد عنوانیوں ، گھپلوں اور خفیہ معاہدات کی نقاب کشائی کر کے طاقتور افراد اور مقتدر حلقوں کو ہدف تنقید بنانے والا میڈیا گذشتہ کچھ ماہ سے اپنی غیر جانبداری کے حوالے سے خود تنقید کی زد میں ہے۔ یہ سچ ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح شعبہ صحافت بھی ذاتی مفادات کی اسیر کالی بھیڑوں کی موجودگی سے مکمل طور پر پاک نہیں۔ ماضی میں بھی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے صحافیوں کی وفاداریاں خریدنے کے لیئے روپے پیسے کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ مگر ایک ایسے وقت پر جب نگران حکومت کا قیام اور انتخابات کا انعقاد چند ماہ کی دوری پر ہے ، قائد حزبِ اختلاف چوہدری نثار علی خان کا یہ انکشاف تشویشناک ہے کہ وفاقی حکومت ، صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کی وفاداریا ں خریدنے کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات کے خفیہ فنڈ کااستعمال کر رہی ہے تا کہ رائے عامہ کو متاثر کر کے انتخابات کی شفافیت پر اثر انداز ہوا جا سکے۔ ماضی میں بھی مختلف حلقوں کی جانب سے وزارتوں اور محکموں کے خفیہ فنڈز کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کا مطالبہ سامنے آتا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) تو خفیہ ایجنسیوں کے فنڈز کی تفصیلات بھی آڈٹ کے لیے پیش کرنے کا تقاضا کرچکی ہے۔ کچھ عرصہ قبل خود پیپلز پارٹی کی ایم این اے یاسمین رحمان ،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سٹیرنگ کمیٹی کی ممبر کی حیثیت سے،27 وزارتوں اور محکموں کے خفیہ فنڈز کی پڑتال کا تقاضا کرتی رہیں اور آخر میں اسی معاملے پر احتجاجا مستعفی ہو گئیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ایم ۔ این ۔ اے اور پبلک اکاونٹس کمیٹی کے موجودہ چیئرمین ندیم افضل چن بھی بارہا اقرار کر چکے ہیں کہ خفیہ فنڈز چونکہ عوام کے ٹیکس سے حاصل کر دہ رقم ہے لہٰذاا سے پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا چاہئے ۔ جنرل مشرف کے دورِ ِ حکومت میں جب وزارتِ اطلاعات و نشریات میں خفیہ فنڈ کی موجودگی کا اقرار کیا گیا، تب اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے نیئر بخاری نے اس فنڈ کی تفصیلات اور اس سے مستفید ہونے والے صحافیوں کے نام جاننے کے لیے نیب میں ریفرنس دائر کیا اور مقصد میں ناکامی پر اعلان کیاتھا کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو گئی تو یہ خفیہ فنڈ ختم کر دیا جا ئے گا۔ مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد پیپلز پارٹی نے نہ صرف اس فنڈ کا استعمال جاری رکھا بلکہ اس میں بتدریج اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ۔ گذشتہ بجٹ میں اس فنڈ کے لیے دو ارب روپے مختص تھے جبکہ رواں سال اسے دوگنا کر کے چار ارب کر دیا گیا۔ دوسری جانب پنجاب میں شہباز شریف نے وزارت اعلیٰ سنبھالتے ہی مشرف دور سے موجود صوبائی وزارت اطلاعات کا دس کروڑ روپے سالانہ کاخفیہ فنڈ آڈٹ کے لیے پیش کر کے اچھی روایت ڈالی۔

جہاں تک خفیہ اور صوابدیدی فنڈز کو آڈٹ کرنے کا تعلق ہے تو ہر بار ملکی مفاد کا جواز پیش کرتے ہوئے اسکی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ وزارت داخلہ، اور خارجہ کی حد تک خفیہ فنڈز کا استعمال اور ملک کے مفاد کا جواز کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے ،مگر وزارت اطلاعات و نشریات میں خفیہ فنڈ کی موجودگی کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے ۔ وزیراطلا عات و نشریات قمر زمان کائرہ کی طرف سے مو قف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ خفیہ فنڈ اندرون و بیرون ملک حکومت کی پالیسیوں کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جواز سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ کروڑوں روپے ماہانہ بجٹ کی حامل وزارت اطلاعات و نشریات کا اصل ہدف ہی حکومتی پالیسیوں کی تشہیر اور حکومت مخالف پروپیگنڈے کا جواب دینا ہے ۔ وفاقی حکومت کی پالیسیوں کے حق میں رائے عامہ کی تشکیل کے لیے پی ٹی وی کا کئی علاقائی اور گلوبل چینلز پر مشتمل نیٹ ورک اور ریڈیو پاکستان جیسے وسیع دائرہ اثررکھنے والے ادارے بھی انہی اہداف کا تعاقب کرنے میں شب و روز مصروف رہتے ہیں ۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر PID اور DGPR جیسے ادارے بھی دن رات اپنی اپنی حکومت کی تشہیر کے لئے کام کرتے رہتے ہیں۔ اس سب کے باوجود کسی خفیہ فنڈ کی کیا ضرورت ؟ جہاں تک بیرون ملک رائے عامہ کی تشکیل اور حکومتی پالیسیوں کی تشہیر کا تعلق ہے تو نہ صرف سرکاری میڈیا یہ کام بخوبی کر رہاہے بلکہ وزارتِ خارجہ، تمام ممالک میں موجود سفارت خانے ، سفراء،دیگر سفارتی عملہ اور ان سے وابستہ میڈیا اور پبلک ریلیشن ٹیمیں انہی فرائض کی انجام دہی کے لئے موجود ہوتیں ہیں۔

یہ بجا کہ اپنی تشہیر اور مخالفین کے خلاف پروپیگنڈا کرنا سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے ۔ اپنی تشہیر پر اپنا پیسہ خرچ کرنا کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں،جیسا کہ تمام سیاسی جماعتوں میں بھاری بھر کم بجٹ رکھنے والے میڈیا سیل اور پبلک ریلیشن ڈیپارٹمنٹ قائم ہیں،جو صحافیوں، ماہرین ابلا غیات اور تحقیقی ماہرین کی مدد سے اپنی اپنی جماعت کی پالیسیوں کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔ مگر عوام کے خون پسینے کی کمائی ا ور ٹیکس کی رقم کو" خفیہ فنڈــ" کی آڑ میں بغیر جانچ پڑتال سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے خرچ کرنا واقعی قابل افسوس امرہے۔

یوں بھی کسی حکومت کی اچھی کارکردگی اورمثبت پالیسیاں کسی خفیہ فنڈکی بیساکھی کی محتاج نہیں ہوا کرتیں۔وفاقی حکومت کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں چند افراد کو ملنے والی امداد پورے محلے یا علاقے کی رائے اس پروگرام کے ساتھ ساتھ خود حکومت کے حق میں کرنے کو کافی ہے۔ بالکل اسی طرح پنجاب حکومت کی لیپ ٹاپ اسکیم کے تحت چند طالب علموں کوملنے والے لیپ ٹاپ اس تعلیمی ادارے کے سینکڑوں طالب علموں کی مثبت رائے ہموار کرنے میں مدد گار ہیں۔

چوہدری نثار علی خان کے بیان کے بعد بعض صحافی تنظیموں نے اسے تمام شعبہ صحافت کی توہین قرار دیتے ہوئے چوہدری نثار سے معافی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی ایسے بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ عمران خان اپنے لاہور کے جلسے سے پہلے اس خدشے کا کھلم کھلا اظہار کرتے رہے کہ جس طرح ماضی میں ان کو کوریج نہیں دی جاتی رہی اب بھی نہیں دی جائے گی کیونکہ سارا میڈیا اور خاص طور پر لاہور کا میڈیا مسلم لیگ (ن )نے خرید رکھا ہے۔ تب تو کسی صحافتی تنظیم کو ’’ہتک عزت‘‘ کا احساس نہیں ہوا۔ یوں بھی خود میڈیا کے کئی معتبر افراداپنے شعبہ میں موجود کالی بھیڑوں کا کبھی کھل کر اور کبھی اشاروں کنائیوں میں ذکرکرتے رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل کچھ سینئر صحافی اس سیکرٹ فنڈ کے استعمال اور اشتہارات کی تقسیم کا نظام شفاف بنانے کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کر چکے ہیں ۔ اسی تناظر میں چند روز قبل سپریم کورٹ نے وزارتِ اطلاعات و نشریات کے خفیہ فنڈز منجمد کرنے اور انکے استعمال کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ مگریہ بات بھی کسی حد تک بجا کہ چوہدری نثار علی خان بھی عمومی یا مبہم انداز اختیار کرنے کی بجائے ان ناموں اور اداروں کی واضح نشاندہی کریں۔ الیکشن کمیشن اور خاص طور پرچیف الیکشن کمیشنر کا فرض ہے کہ وہ ایسی باتوں کا نوٹس لیں اور باقاعدہ تحقیقات کر کے شفاف انتخابات کے انعقاد کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کریں۔ماضی میں خفیہ فنڈ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے والی جماعت PPP سے بھی امید کی جانی چاہیے کہ وہ ماضی کے دعووں اور سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظراس فنڈ کی تفصیلات پیش کر کے جمہوری روایات کی مضبوطی کا باعث بنے گی۔
 
Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25400 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.