مصیبت کے یہ دن دیکھنا ہوں گے

پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو اس وقت یہ فکر لاحق ہے کہ اس ملک کو درپیش دہشت گردی کے خطرے سے کس طرح نبرد آزما ہو ا جائے یقینا یہ فکر اب فطری ہے ملک کی بقا اور اس کی سلامتی کے لیے موجودہ بدامنی اور دہشت گردی سے جان چھڑانا ہو گی یہ سلسلہ اب مزید نہیں چل سکتا ہے طالبان نے جب سے پاکستانی ریاست کی گرفت کو للکارنا شروع کر رکھا ہے یہاں دو طرح کی آراء موجود رہی ہیں ایک ان سے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو سدھارنا چاہتے رہے ہیں جبکہ دوسرا گروہ طاقت کے استعمال کو ہی ان سے نجات پانے کا واحد حل تصور کرتے رہے ہیں ان دو طرح کی آراء نے قوم کو ایک مغالطے کا شکار کیے رکھا ابتدا میں طاقت کے ذریعے دہشت گردوں کو دبانے کی کوشش کی گئی مگر ان کی کاروائیاں بڑھتی گئی پھر مذاکرات کرنے کی آواز پیدا ہوئی اور شدت پسندوں کے لیے عوام میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی اچھے اور برے طالبان کے ناموں سے بھی قوم کو روشناس کروایا گیا درحقیقت یہاں یہ دونوں کلیے اب تک ناکام رہے ہیں یا ان کو خواہ مخواہ ناکام بنایا جا تا رہا ہے اور قوم کی سوچ کو بھی تقسیم کیا گیا ہے یہاں یہ ضروری تھا کہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے دونوں کُلیے متوازی اپنائے جاتے جو گروہ مذاکرات کی میز پر آتے ان سے مذاکرات کیے جاتے اور جو طاقت کی زبان سمجھتے ان سے طاقت کے زور پر نبٹا جاتا مگر ہمارے ہاں وقت ضائع کیا جاتا رہا اور معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو مرنے کے لیے بے آسرا چھوڑ دیا گیا ریاست نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور یہاں کی حکومتیں مصلحتوں کو شکار رہی ہیں یہاں جمہوری اشرافیہ اور مقتدرہ اس غدر کی آڑ میں اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کرتے رہے جبکہ ریاست تباہ ہوتی رہی اور عوام مرتے رہے ۔اس سب کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ تمام فیصلے عوامی خواہشات کے بر عکس کیے جاتے رہے اور عوامی نظریات اور سوچ کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی گئی ملک میں موجود مجلس شوریٰ کی حثیت عضو معطل کی سی رہی ہے اگر یہ معاملہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کی مشاورت اور ترتیب کردہ حکمت عملی سے حل کیا جاتا تو مسائل اب اتنے سنگین نہ ہوتے مگر افسوس اس ملک میں حقیقی جمہوریت کو عوام سے کوسوں دور رکھا گیا ہے قوم کو یہ بتایا جا تا رہا کہ جب تک اتفاق رائے نہ پیدا ہو جائے دونوں میں سے کوئی کام نہیں کیا جا سکتا گویا صرف تباہی اور بربادی کو قبول کیا جا سکتا ہے پاکستانی قوم صرف امن چاہتی ہے اور وہ اپنے آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ چاہتی ہے انہیں آج اپنی جان کی فکر لاحق ہے امن کیسے ہو اب انہیں طریقہ کار سے کوئی غرض نہیں ہے بس وہ صرف امن چاہتے ہیں ہاں البتہ عوامی نمائندوں کی سوچ اس وقت سب کے سامنے ظاہر ہوئی جب مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں انہیں بولنے کا موقع ملا سب ارکان نے دہشت گردوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو ترجیح دی اور ریاست کی گرفت کو یقینی بنانے کو کہا انہوں نے مذاکرات کے عمل کو اب مسترد کر دیا ارکان اسمبلی کے سخت رد عمل کے بعد وزیر اعظم کے رویے میں بھی تبدیلی آئی ہے اس اجلاس کے بعد نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے وہ فضل الرحمان اور ان جیسی سوچ کے حامل افراد کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں وہ ذرائع ابلاغ میں موجود دائیں بازو کے لوگوں کی مخالفت بھی مول نہیں لے سکتے کیونکہ انہیں صحافتی جنگجوؤں کی بدولت ہی تو انہیں انتخابات میں کا میابی ملی ہے جبکہ ان کی اپنی جماعت کے اندر سے آنے والی آواز بھی ان کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے دوسری جانب پیپلزپارٹی کے شریک چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بھی ایک جاندار انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے کھل کر دہشت گردوں کو للکارا ہے اور مذاکرات کے حامی سیاستدانوں کو کمزور اور بزدل کہا ہے مسلم لیگ ن کے اجلاس کی کہانی اور بلاول کے انٹرویو نے قوم کی سوچ کا پتا تو دے دیا ہے ہاں البتہ جمہوری اشرافیہ اور مقتدرہ گومگو کی صورت حال کا شکار ہیں نواز شریف ہمیشہ اپنے فیصلے مسلط کرنے کے عادی ہیں اور دوسری قوتوں کی بھی اپنی منطق ہوتی ہے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں سے کوئی بڑا اور جاندار فیصلہ نہیں ہو پائے گا اور حالات جوں کے توں ہی رہے گے یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر اے جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے قوم کو ایسے حالات ابھی کئی سال اور درپیش رہیں گے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام انتخابات میں اشرافیہ کو منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں اور یہ ارکان سرمایہ داروں کے سر پر حکمرانی کا تاج سجاتے ہیں پاکستانی قوم جب تک اپنے طبقے سے لوگ اوپر لے کر نہیں آئے گی تب تک اُنہیں مصیبت کے یہ دن دیکھناہوں گے۔
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61727 views i am columnist and write on national and international issues... View More