پاکستان میں سانحات کا تسلسل آخرکب تک؟

دہشت گردی اور انتہا پسندی اس وقت ملک کو درپیش اہم ترین مسائل ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی کی مسلسل کمی ہے۔ جنگ بندی کے اعلانات کے باوجود دہشت گردی کے سنگین واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ آج بھی جبکہ سرکاری مذاکراتی کمیٹی نے طالبان کمیٹی سے کئی ہفتوں کے تعطل کے بعد ملاقات کی ہے، ہنگو میں ایف سی کانوائے پر حملہ میں 6 اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں پولیس افسر اور شہری خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں حملوں یا ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود وزیراعظم نے مذاکرات کو پھر سے ایک موقع دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ مذاکرات کا آغاز کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم بھی سابقہ احکامات کی طرح کسی ٹھوس اور سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہے بلکہ ذاتی صوابدید اور رائے کا مظہر ہے۔
گویا مذاکرات کے نام پر اب تک جو کچھ ہو رہا تھا وہ وارمنگ میچ یا کھیل سے پہلے کی پریکٹس تھی۔ سکیورٹی جیسے اہم معاملہ پر حکومت کا یہ رویہ عوام میں بے چینی ، مایوسی اور عدم تحفظ پیدا کر رہا ہے۔ اس دوران پولیس کے بارے میں وزیر اطلاعات کے دعوے اس احساس عدم تحفظ کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کو یہ سوچنا چاہئے کہ یہ صورتحال کیوں کر ان کی حکومت کے لئے سود مند ہو سکتی ہے۔ اگر کچھ اور نہیں ہو سکتا تو کم از کم وزرائے گرامی کو بچگانہ ، غیر ذمہ دارانہ اور مضحکہ خیز بیانات دینے سے تو روکا جا سکتا ہے۔

ابھی چند روز قبل سانحہ اسلام آباد ہواجس کے بعد سکیورٹی فورسز کا قافلہ ہنگو سے وسطی کرم ایجنسی جا رہا تھا کہ اورمیگئی کے مقام پر اسے ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کی مدد سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 6 اہلکار شہید اور 10 زخمی ہو گئے، زخمیوں کو فوری طور پر قریبی سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا ہے جہاں انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے حملے کے بعد علاقے کا محاصرہ کر کے دہشت گردوں کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔

دوسری جانب کالعدم انصار المجاہدین نے ہنگو میں سکیورٹی کے قافلے پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے ایف سی پر حملہ کرکے ڈرون حملوں سے ہزاروں قبائلیوں کی موت کا بدلہ لیا ہے۔ ادھر پشاور کے علاقے وزیر باغ میں پولیس چوکی کے قریب مسلح افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار شہید ہو گیا۔ اہلکار کی شناخت ابن الحسن کے نام سے ہوئی جو کہ گھر سے نکل کر ڈیوٹی پر جا رہا تھا۔ علاوہ ازیں خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں دوافراد کی نعشیں ملی ہیں۔

افواج پاکستان کے اہلکاروں نے ابتلا اور آزمائش کی ہر گھڑی میں ملک و قوم کی خدمت کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اکتوبر 2005ء کا قیامت خیز زلزلہ ہو یا 2010ء کا تباہ کن سیلاب ہر موقع پر افواج پاکستان کے نوجوان میدان عمل میں متاثرین کی مدد کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلح افواج نے مختصر تاریخ میں بڑے بڑے چیلنجز پر قابو پایا، فوج اپنے مقصد کیلئے پرعزم ہے۔ یہ بات گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معذور ہونے والے فوجیوں اور پنجاب یوتھ فیسٹیول میں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ بنانے والے 19 جوانوں کے اعزاز میں گورنر ہاؤس میں ہونے والی تقریب سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کا ہر جوان اور افسر علامہ اقبال کے تصورات کا مظہر اور قائداعظم کی کوششوں کے حوالے سے پاکستان کو ایک مملکت صرف اور صرف اسلامی جمہوریہ کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ پاک فوج کا ماٹو ایمان، اتحاد اور جہاد فی سبیل اﷲ افواج پاکستان کے مسلم تشخص کو عالمی سطح پر اجاگر کرتا ہے۔ مختلف معرکوں کے دوران افواج کے سینکڑوں افسروں اور جوانوں نے جہاں جام شہادت نوش کیا وہاں کئی جوانوں کو اپنے دست و بازو کی قربانیاں بھی دینا پڑیں۔ یوں یہ جوان اور افسر معذور ہو گئے مگر معذوری کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔

بھارت نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا، وہ ہمارے وطن کو غیرمستحکم کرنا چاہتا ہے، دہشت گردی کے واقعہ کی بنا پر پاکستان میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی، آپ گھر سے نکلیں تو یقین نہیں کہ آپ گھر واپس آئیں گے بھی کہ نہیں۔ زخمی سولجرز کے زخم ان کے لئے اعزاز ہیں۔ یہ باتیں ڈاکٹر مجید نظامی نے گورنر ہاوس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معذور ہونے والے فوجیوں اور پنجاب یوتھ فیسٹیول میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے والے 19جوانوں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے سکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملے کی مذمت کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ۔

ضرروت اس امر کی ہے کہ ملکی تحفظ اور عوام میں خوف وہراس کی فضاء کو ختم کرنے کیلئے حکومت کو موثر اور باعمل حکمت عملی کے ذریعے ریاستی فرایض پورکرنے چاہیے کیوں کہ ریاست کا بنیادی مقصد عوام کے جان ومال ذمہ داری ہے۔
Syed Arif Nonari
About the Author: Syed Arif Nonari Read More Articles by Syed Arif Nonari: 12 Articles with 7798 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.