دہشت گردی اور میڈیا

وطن عزیز مشکل ترین مرحلے سے گزر رہا ہے، سیاست دان خلفشار کو فروغ دینے، علماء فرقہ واریت کو دین قرار دینے اور میڈیا انتشار پھیلانے میں مصروف ہے۔ مذاکراتی عمل کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ معمولی واقعات کو بڑھا چڑھا کر اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ مذاکرات کا عمل آگے نہ بڑھ سکے۔ الیکٹرانک میڈیا بریکنگ نیوز کے حصار میں پھنس کر انٹ شنٹ مارنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کر رہا۔ اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کے واقعے پر میڈیا نے جس طر ح حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدف تنقید بنایا، یو ں لگتا تھا کہ کسی دشمن ملک کا میڈیا ہمارے ملک کو ناکام ریاست قرار دلوانے کے لیے منظم سازش پر کام کر رہا ہے۔میڈیا کے رپورٹرز یقینا پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں ملکی مفادات کا ادراک بھی ہوتا ہے۔ انہیں اس بات کا اداراک بھی ہونا چاہیے کہ اس رپورٹنگ کے معاشرے میں کیا اثرات مرتب ہو ں گے ۔

اس نازک مرحلے پر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے۔ کچھ اندرونی اور بیرونی عناصر مل کر پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں۔ پڑوسی ملک افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ہمارا دشمن ہم سے کچھ ایسی شرائط منوانا چاہتا ہے جو ہمارے مفاد میں نہیں۔ ان شرائط کو منوانے کے لیے اس نے دہشت گردی کا سہارا لیا ہے۔ دہشت گرد اپنے مزموم مقاصد کے لیے قبائلی عوام اور نفاذ شریعت کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ سیکورٹی اداروں کے لیے کسی مخصوص علاقے میں آپریشن کرنا مشکل نہیں لیکن مسئلہ وہاں کے قبائلی بھائیوں کی سلامتی کا ہے۔ اسے سیکورٹی اداروں کی ناکامی سے تعبیر کرنے والے زیادتی کرتے ہیں۔

اسلام آباد کچہری کے واقعے کو مثال بنا کر سارے معاملے کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔اسلام آباد کچہری شہر کے وسط میں واقع ہے، جہاں روزانہ کم ازکم دس سے بیس ہزار افراد اپنے کیسوں کی سماعت اور دیگر مسائل کے حل کے لیے آتے جاتے ہیں۔ کچہری کے گرد حصار بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ اندر آنے کے لیے چیکنگ کا نظام بھی ہے لیکن اس چیکنگ کے نظام کو اگر زیادہ سخت کردیا جائے گا تو کچہری میں آنے جانے والے دس ، بیس ہزار لوگ آدھا دن تو کچہری کے دروازوں پر لائنوں میں لگے رہیں گے۔ اس زیادہ سخت چیکنگ عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے گی۔ میں خود اسلام آباد میں مقیم ہوں، جہاں درجنوں پولیس ناکے لگے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے معمولات زندگی پہلے ہی بہت متاثر ہیں، اگر پولیس نے مزید سختی شروع کر دی تو پھر اسلام آباد میں داخل ہونا ممکن نہیں رہے گا۔ سیکورٹی اداروں نے عوام کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی مرتب کرنا ہوتی ہے۔

گوریلا جنگ اور خودکش بمبار وں کی روک تھام جیتے جاگتے شہروں میں ممکن نہیں۔ افغانستان، عراق اور کشمیر میں دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور عالمی معیار پر تربیت یافتہ افواج اور گوریلے بھی خودکش حملوں اور گوریلا وار کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ بھارت پانچ لاکھ فوج (پاکستان کی کل فوج کے برابر) کشمیر کے پانچ اضلاع سرینگر، بڈگام، انت ناگ، بارمولا اور کپواڑہ میں تعینات کرنے کے باوجود گوریلا وار کا مقابلہ نہیں کرسکا تو اسلام آباد پولیس کو اس طرح ہدف تنقید بنانے والے حقائق کو کیوں مسخ کر تے ہیں۔ پولیس فورس معمول کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے ہوتی ہے اور افواج محاذوں پر جنگ کی تربیت رکھتی ہیں۔ گوریلا وار کی صورت میں ایسے واقعات کو کم تو کیا جاسکتا ہے ختم کرنا ممکن نہیں۔

حکومت مذاکرات اور ڈائریکٹ سٹرایکس کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑنے میں مصروف ہے۔ اس وقت دہشت گردی کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ نوازلیگ کی پالیسیوں سے ہزاروں اختلاف کے باوجود ملکی سلامتی کے معاملات میں اہل پاکستان کو یکسو ہونا چاہیے۔ سیاسی نمبر سکورنگ ملکی سلامتی کی قیمت پر نہیں کی جانی چاہیے۔ آج قوم کو متحد اور میڈیا کو ذمہ دار ہونا چاہیے۔ فرقہ واریت، علاقائیت، لسانیت اور مفادات کا شوق امن قائم ہونے تک موخرکرنا ہی قومی سلامتی کا تقاضا ہے۔

آج ہم دہشت گردی کا شکار ہیں، فوج، پولیس، انتظامیہ اور عوام سب پر بلاتخصیص موت مسلط کی جارہی ہے۔ موت کے سوداگر یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کر رہے ہیں حالانکہ ان بیچاروں کو اسلام کی الف ، ب بھی پتہ نہیں۔ ڈالروں کے زور پر انسانیت کو موت کے منہ میں دھکیلنا، انسانیت کو بلا وجہ قتل کرنااور اسلام……ان میں تو دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ایسے میں معاشرے کے ہر باشعور انسان کو مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ اپنے اداروں کو ہدف تنقید بنانے کے بجائے ان کی معاونت کرنی چاہیے۔ ان کا دست و بازو بننا چاہیے۔ یک آواز اور یک جان ہونے کی ضرورت ہے۔

میڈیا کو باالخصوص زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دشمن کی کاروائیوں کی تشہیر کے بجائے عوام کے حوصلے بلند رکھنے پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بریکنگ نیوز میں نمبر بنانے کے بجائے ذمہ دارانہ رپوڑننگ وقت کا تقاضا ہے۔ میں تو بریکنگ نیوز سے عاجز آچکا ہوں۔ ٹی وی کے سامنے بیٹھنے سے یہ لگتا ہے کہ پورا ملک چند لمحوں میں خاکستر ہو جائے گا۔ العیاذ اباﷲ۔ میں نے میڈیا کی بے سروپا رپورٹنگ اور رائی کو پہاڑ بنانے کے شغل سے تنگ آکر لال مسجد کے واقعہ کے بعد اپنے گھر اور دفتر سے ٹی وی سیٹ ہٹا دئیے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کی اکثریت بھی یہی فیصلہ کرلے اور یہ دکانداری چلنی ممکن نہ رہے۔
 
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117159 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More