انسان نے جو سیکھا وہ رائیگاں نہیں جاتا

انسان نے جو سیکھا وہ رائیگاں نہیں جاتا
بھارتی فلم گاندھی کے منتخب اداکار کی غلط خود کشی

آئنا دیوا انگاڈی ---بھارت کے مشہور شہر بنگلور سے تعلق رکھتے تھے -پنڈت جواہر لال نہرو وہاں تعلیم کےلئے گئے تو انکی آئنا دیوا انگاڈی سے کافی واقفیت اور دوستی ہو گئی -

آئنا دیوا انگاڈ ی کے بیٹے ڈیرین انگاڈی نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہان وہ بچپن سے ہی پنڈت جواہر لال نہرو کے تذکرے سنتے تھے - نہرو کی عادتوں کے بارے میں والدین کے تبصرے کانوں میں آتے رہتے تھے -اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نہرو کی نقل کافی صحیح کر لیتے تھے -

ڈیرین انگاڈی نے بعد میں فلم لائن اختیار کی اور اداکار بن گئے

شہرہ آفاق فلم ‘گاندھی “ بنانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں - اس فلم کے لئے مختلف اداکاروں کی تلاش ہوئی تو جواہر لال نہرو کا کردار ادا کرنے کے لئے فلم ساز و ہدیات کار کی نگاہ انتخاب ڈیرین انگاڈی پر پڑی اور اور انہیں یہ کردار ادا کر نے کے لئے منتخب کر لیا گیا - چھ ماہ گزر گئے - اس دوران میں فلم ساز اور ہدایت کار انکی کارکردگی کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیتے رہے - ان کے متبادل اداکار کی صلاحیتوں کو بھی پرکھا گیا - یوروپین فلمساز فلم میں کسی قسم کا سکم اور جھول نہیں چاہتے تھے - آخر کار ہدایت کار و فلم ساز اس نتیجے پر پہنچے کہ ڈیرین انگاڈی نہرو کا کردار ادا کرنے کے لئے موزوں نہیں اور یوں انکی جگہ کسی دوسرے اداکار کو نہرو کا کردار ادا کرنے کے لئے منتخب کیا گیا -حالانکہ اس دوران ڈیرین انگاڈی نے اپنے اداکاری کا معیار بلند کر نے کے لئے مزید محنت کی تھی اور وہ یقین رکھتے تھے کہ جتنا وہ نہرو کی مختلف عادتوں کا شعوررکھتے ہیں کوئی اور نہیں رکھتا -اس بات سے وہ بہت مایوس ہوئے -مختلف موقعوں پر انہیں خلاء میں گھورتے ہوئے پایا گیا اور کسی خیالی ہستی سے بات چیت کرتے ہوئے پایا گیا - کبھی کبھار وہ نہرو کے انداز میں تقریر کرنا شروع کر دیتے تھے - --اسی مایوسی کے عالم میں انہوں نے دسمبر ١٩٨١ میں خود کشی کر لی-

بھارت کے مشہور مذہبی اسکالر جناب وحیدالدین صاحب اپنی کتاب “راز حیات“ میں اس خود کشی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈیرین انگاڈی نے اپنے اندر محنت سے جو صلاحیت پیدا کر لی تھی انہیں اسے نہیں بھولنا چاہئے تھا -وہ ایک قیمتی خزانہ تھا جو ان کے پاس تھا - -یہ صحیح ہے کہ فوری طور پر اسے استعمال کا موقع نہیں مل سکا تھا لیکن اس کی حیثیت ختم نہیں ہوئی تھی - یہ نہیں سمجھنا چاہیئے تھا کہ محنت اکارت گئی - اس محنت سے پیدا شدہ لیاقت بدستور موجود تھی -جلد یا بدیر انہیں کوئی دوسرا موقع ملتا جہاں اسے بہتر انداز میں استعمال کرکے پوری قیمت وصول کر سکتے تھے -

میں ایک سیمینار میں شرکت کرنے بھوربن گیا - وہاں میں نے شرکاء سے اس واقعے کا تذکرہ کیا - تب ایک صاھب کھڑے ہو گئے اور بولے ہان ہاں ایسا میرے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا - میں میزائیل سازی کے ادارے سپارکو میں کام کرتا تھا - اسے چھوڑ کر ڈیزل انجن بنانے والے ایک کارخانے میں نوکری کر لی کیوں کہ وہاں مشاہرہ زیادہ تھا - -ابھی یہان نوکری کر ہی رہا تھا کہ اسٹیل مل کا شہرہ سنا اور سب چھوڑ چھاڑ کر اسٹیل مل میں میکانیکل انجینئیر کی حیثیت سے شرکت کر لی -

ایک روز سینئر انجینیئر صاحبان نے دوبارہ انٹرویو لیا اور جب انہیں پتہ چلا کہ میں راکٹ سازی کرتا تھا اور ڈیزل انجن کے مختلف پرزوں کو اسمبل کرتا تھا تو وہ کہنے لگے یہاں تو اس کا کوئی کام نہیں -یہاں تو اسٹیل ٹکنالوجی ہے - نہ جانے وہ اسٹیل ٹکنالوجی کو کیا سمجھتے تھے -

میں جونئیر انجینیئر تھا کچھ نہ کہہ سکا -صرف کہا “جناب میں کیا کہہ سکتا ہوں -آپ ہی لوگوں نے مجھے منتخب کیا ہے “

آج میں جب بطور چیف انجینئیر مینٹی ننس کے طور پر کام کر رہا ہوں اور کبھی کبھی یہ واقع یاد آجاتا ہے تو ایک بے ساختہ مسکراہٹ لبوں پر آجاتی ہے -

راکٹ سازی کے دوران جو کچھ سیکھا - انجن کی اسمبلی کے دوران جو علم حاصل کیا اور اس سے بڑھ کر جو انسانی نفسیات کا ادراک ہوا اس کا ایک ایک ذرہ اگلے تیس برسوں میں میرے کام آتا رہا مثلآ
- - بولٹ اگر مشین کے اندر ٹوٹ جائے تو کیسے نکالیں گے
- - تیل کا فلٹر کیسے کام کرتا ہے اور اس کے اندر کیا خرابیاں پیدا ہوتی ہیں
- - لیتھ مشین سے فیبری کیشن کا کام کیسے لیا جاتا ہے
- - بولٹ اور اسٹد مین کیا فرق ہے
- - تیل مین پانی مل جائے تو اس کا رنگ کیسے ہوجاتا ہے
- - سامان اٹھانے کے لئے رسی یا سلنگ کا پھندہ کیسے بنایا جاتا ہے
- - آڈٹ والے کیا سوالات پوچھتے ہیں
- - ٹرانسپورٹ کے اصول و ضوابط کیا ہوتے ہیں

بھوربن کا سیمینار ختم ہوئے عرصہ ہو گیا لیکن ان صاحب کی باتیں اب بھی یاد اتی ہیں کیونکہ وہ صحیح تھیں -
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355103 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More