اس حقیقت کو ہم جھٹلا نہیں سکتے
کہ موجودہ دور فائلوں کا دور ہے۔ایک زمانہ تھا کہ کسی بھی حاکم کا منہ سے
نکلا ہوا لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا اور بس فوری اس پر عمل کیاجاتا مگر
آج طاقتور آمروں کو بھی اپنے احکامات منوانے اور نافذالعمل کروانے کے لیے
لمبی لمبی فائلیں تیارکروانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان فائلوں کی تیاری اور
بڑوں کی ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے جو عملہ موجودہ دور میں تخلیق کیا
گیا ہے اس کو انگریزی میں بیوروکریسی اور اردو میںآفسر شاہی کے نام سے
تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ فائلوں کی تیاری اور ڈرافٹنگ میں مہارت حاصل
کرلیتے ہیں۔ ہم اس حقیقت کو بھی جھٹلا نہیں سکتے کہ ہمارے تعلیمی ادارے صرف
کاغذ کی ڈگریا ں بانٹتے ہیں۔مروجہ سرکاری وغیرسرکاری تعلیمی اداروں سے بہت
ہی کم تعداد میں لوگ خودآگہی حاصل کرتے ہیں اور مختلف سرکاری و غیر سرکاری
امور کی انجام دہی کے لیے مطلوبہ قابلیت اور ہنر، ان تعلیمی اداروں میں
قطعا نہیں سکھایا جاتا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی کا ٹاپر جب کسی محکمے میں بڑی
پوسٹ پر بھرتی ہوتا ہے تو اس کو چھوٹے چھوٹے کاموں کی تیاری اور انجام دہی
میں بھی اپنے ماتحت عملے بالخصوص کلرک اور سپریٹنڈنٹ سے رہنمائی لینے پڑتی
ہے ، کافی سالوں کے بعد وہ اعلیٰ آفیسر کام سیکھ جاتا ہے اور پھر اپنا
ادارہ بہتر طریقے سے چلانے کی مطلوبہ صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
مجھے گزشتہ کچھ عرصے سے ملک کی بڑی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے
سات آٹھ سال سے گلگت بلتستان کے مختلف محکموں میں اعلیٰ آسامیوں پر کام
کرنے والے احباب سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ میں نے ان لوگوں سے اپنے
متعلقہ ادارے کے کام کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ
وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ اس عرصے میں کافی تجربہ بھی حاصل کرچکے
ہیں۔یہ تمام آفیسر گریڈ 16سے 18 تک کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔اب
بہترین آفیسر اور بیورکریٹ بن چکے ہیں۔ اس عرصے میںمطلوبہ مہارت بھی حاصل
کی ہے جو ادارے کی ضرورت ہوتی ہے۔تاہم یہ تمام آفیسر اس تمام عرصہ میں
عارضی ملازمین کی حیثیت سے کام کرتے آئے ہیں۔ اب گلگت بلتستان کی انتظامیہ
بالخصوص بیوروکریسی ان آفیسروں کو مستقل کرنے کے بجائے فارغ کرنا چاہتی ہے۔
میں نے ان سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے تمام تفصیلات میرے
سامنے رکھی۔ ان کے پاس مستقل ہونے کے حوالے سے مضبوط دلائل موجود ہیں۔ آئیے،
ان کی کہانی ان کی زبانی سنتے ہیں۔انہوں نے زبانی کلامی جو کچھ مجھے بتایا
اورتحریراًاپنی کہانی مجھ تک جن الفاظ میں پہنچائی اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
''ہم گلگت بلتستان کے گریڈ16، 17او18کے آفیسران گلگت بلتستان کے مختلف
محکموں میں گزشتہ کئی سالوں سے اپنی خدمات بطریق احسن سرانجام دے رہے
ہیں۔ان محکموں میں ہماری تقرری گورنمنٹ آف پاکستان کے مروجہ رول ریگولیشنز
کے مطابق باقاعدہ اور باضابطہ طور پر اشتہارات کی اشاعت، ٹیسٹ ،انٹرویوزاور
ڈی ،ایس ،سیز کے ذریعے آرمی مانیٹرنگ ٹیم کی موجودگی میں عمل میں آئی
ہے۔وزیراعظم پاکستان نے وفاقی کیبینٹ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذریعے سے
2011ء میں عارضی ملازمین کی مستقلی کے حوالے سے باضابطہ طور پر ایک کمیٹی
تشکیل دی تھی اور اس کمیٹی کے ذمے تمام عارضی ملازمین کومستقل کرنا تھا اور
مذکورہ پالیسی کے تحت تمام صوبوں بشمول وفاقی اداروں نے عمل کرتے ہوئے
باقاعدہ طور پر پورے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں عارضی ملازمین کو مستقل
کیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت حال ہی میں ( مورخہ 12-11-2013) کو Ministry of
Education نے 2943عارضی ملازمین کو مستقل کیا ہے۔ اسی طرح وزیر اعلی پنجاب
نے پنجاب حکومت کو واضح احکامات جاری کرتے ہوئے تمام محکموں میں کام کرنے
والے عارضی ملازمین کو مستقل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ جس پر پنجاب
حکومت نے عمل کرتے ہوے ہزاروں عارضی ملازمین کو مستقل کیا ہے ۔اسی پالیسی
کی بنیاد پر گلگت بلتستان میں بھی مختلف سرکاری اداروںمیں کام کرنے والے
چندعارضی ملازمین کو بھی مستقل کیا گیا۔اسی دوران وزیراعظم
سیکرٹریٹ،اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور وزارت امور کشمیرنے گلگت بلتستا ن حکومت کو
کئی خطوط ارسال کئے جن میںواضح طور پر گلگت بلتستا ن حکومت کو احکامات جاری
کیے گئے تھے کہ عارضی ملازمین کی مستقلی کے تمام کیسز مذکورہ کمیٹی کو
بھجوایں دیں جس پر اس وقت کے سیکرٹری سروسز نے اسٹبلشمنٹ ڈویژن کو خط لکھا
کہ ان تمام عارضی ملازمین کو جو ریگولر پوسٹوں میں کام کررہے ہیں گلگت
بلتستان کی صوبائی حکومت مستقل کررہی ہے۔
اسی طرح گلگت بلتستان کابینہ نے بھی ایک کمیٹی اس وقت کے وزیر قانون کی
سربراہی میں تشکیل دی جس کے ذمے گلگت بلتستان کے مختلف محکموں میں کام کرنے
والے عارضی ملازمین کو مستقل کرنا تھی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان نے اس کمیٹی
کے سفارشات اور گلگت بلتستان اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں مورخہ
12-9-2012کو واضح احکامات جاری کیے جن میں واضح طور پر لکھا تھا کہ سروسز
ڈیپارٹمنٹ ان تمام ملازمین کی مستقلی کا کیس بنا کر فوری ارسال کریں۔ علاوہ
ازیں سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی نے قانون ساز اسمبلی کے 31واں اجلاس جو کہ
23-10-2013کو منعقد ہوا تھا،میں باقاعدہ اسی موضوع پر رولنگ بھی دی ہے ۔یاد
رہے کہ سپیکر کی رولنگ پر عمل کرنا حکومت گلگت بلتستان پر لازم ہے تا ہم
سروسزیپارٹمنٹ نے بغیر کسی وجہ کے اس کیس کو کئی ماہ سے التوا میں رکھا ہو
ا ہے۔
گلگت بلتستان پبلک سروس کمیشن رول کی شق نمبر 5کے تحت وزیر اعلی اور گورنر
کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ مفاد عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلے سے ریگولر
پوسٹوں پر کام کرنے والے باصلاحیت اور تجربے کے حامل افراد کو بغیر FPSC
بھجوائے مستقل کر سکتے ہیں۔ اور اسی شق کے تحت وزیر اعلی گلگت بلتستان نے
محکمہ سیاحت ، محکمہ معدنیات اور محکمہ صحت کے چند عا رضی ملازمین کو مستقل
بھی کیاہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مورخہ 25-10-2013کو سپریم
ایپلٹ کورٹ کے چیف جسٹس نے ازخود نوٹس بھی لیا ہے۔اگرچہ یہ قضیہ سر دست
گلگت بلتستان کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے اس کے باوجود
سروسزیپارٹمنٹ نے عارضی ملازمین کے کیس کو FPSCبھجوا کر توہین عدالت کا
ارتکاب کیا ہے۔''
گلگت بلتستان کے مختلف محکموں پر کام کرنے والے آفیسران نے اپنے خلاف ہونے
والے سلوک کے حوالے سے گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کی اسمبلی کے سامنے احتجاج
کیا جس پر وزیراعلی، کابینہ اور ممبران اسمبلی نے ان کا جائز حق دلانے کی
یقین دھانی بھی کرائی اور ایک کمیٹی بھی اس حوالے سے تشکیل دی ہے۔ ان
آفیسران نے سخت احتجاج کیا اور قلم چھوڑ ہڑتا ل کیا ،بعد ازیںکمیٹی اور
کابینہ کی یقین دھانی پر اپنے کام جاری رکھنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ
اپنا کام مستعدی سے کریں گے۔ اس کے فور اً بعدایک ایسوسی ایشن بھی بنائی
گئی جس کا نام گلگت بلتستان آفیسرویلفیئر ایسوسی ایشن رکھا گیا، ان کے ساتھ
گلگت بلتستان کی مختلف کالجز کے لیکچرر بھی شامل ہوگئے جو گزشتہ تین
سالوںسے مختلف کالجز میں بطور کنٹریکٹ لیکچرر کے تدریسی خدمات انجام دے رہے
ہیں۔
گلگت بلتستان آفیسر ایسوسی ایشن کی کابینہ اور تمام ممبران بشمول مجلس
عاملہ نے انتہائی دکھ کے ساتھ کہا کہ! ''کیا یہ نہایت ستم ظریفی نہیں ہے کہ
کئی سالوں سے انتہائی خوش اسلوبی سے خدمات انجام دینے والوں کو اچانک بے
دخل کرکے ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ اپنا جارہا ہے اور ان کا جائز روزگار
چھین کر ان کے گھروں کا شعلہ بجھا رہے ہیں۔ گلگت بلتستان آفیسر ایسوسی ایشن
کے تمام ممبران سمجھتے ہیں کہ ''ہم بھی اس ملک کے مخلص شہر ی ہیں اور مکمل
وفادار بھی ہیں ،ہم نے بھی پاکستان کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے نامساعد
حالات کے باوجود اپنی محنت اور کاوشوں سے پروفیشنل ڈگریاں حاصل کی ہیں اور
ہماری تقرریاں ،شفارشوں اور بیک ڈور چینلوں سے نہیں ہوئی ہیں ،ہم نے تمام
سروس رولز اور ضابطوں کو عبور کرتے ہوئے ملازمت حاصل کی ہے اسکے باوجود
ہمارے ساتھ تاحال ناروا سلوک رو ارکھاجارہا ہے ، ہم گلگت بلتستان کی تمام
سیاسی ومذہبی اور سماجی تنظیموں اور کارکنوں سے انتہائی عاجزانہ اپیل کرتے
ہیں کہ ہمارے نہایت جائز مطالبات حکام بالا تک پہنچانے اور ہمیں انصاف
دلوانے میں مرکزی کردار ادا کریں اور ہمارے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا
جائے اور جو پالیسی پورے ملک کے لیے اپنائی گئی ہے اس پر عمل درآمد کرتے
ہوئے ان ملازمین کو مستقل کیا جائے جو ریگولر پوسٹوں پر گزشتہ کئی سالوں سے
کام کررہے ہیں۔ہم جناب وفاقی وزیر امور کشمیر گلگت بلتستان ، گورنر گلگت
بلتستان، وزیر اعلیٰ ، فورس کمانڈر، چیف سیکرٹری،کابینہ کے اراکین، ممبران
اسمبلی اور دیگر اہم سیاسی شخصیات اور رہنماؤں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ
ہمیں انصاف دینے میں بھر پور کردار کا عملی مظاہرہ کریں گے''۔
یہاں بات ساری باتوں کے ساتھ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان تمام عارضی
آفیسران کی عمریں ختم ہوئی ہیں۔ اب وہ ایف پی ایس سی بھی جوائن نہیں کرسکتے
ہیں۔ اور اگر حکومت نئے لوگوں کو کنڈکٹ کرتی ہے تو ان نئے ملازمین کو کام
سیکھتے سیکھتے کافی عرصہ لگے گا جو یقینا حکومت اور علاقے کے مفاد میں نہیں
ہے۔اگلی بات یہ ہے کہ اگر پورے ملک میں عارضی ملازمین کو ریگولر کیا گیا ہے
تو پھر یہاں کرنے میں کیا حرج ہے؟ ۔ کیا عوامی اور جمہوری حکومتیں اپنے
شہریوں کے ساتھ یہ سلوک کرتیں ہیں؟۔ میں نے ان تمام آفیسران میں مضبوط
اتحاد و اتفاق دیکھا ہے، وہ اپنے جائزاور بنیادی حقوق کے لیے کسی بھی حد تک
جانے کے لیے تیار ہیں اور انتہائی خوشگوار بات یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر اور
علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس آفیسر ایسوسی ایشن میں شامل ہیں۔یاد رہے
کہ ملک بھر میں کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کی سینکڑوں مثالیں موجود
ہیں ۔اطلاعات کے مطابق گلگت اسمبلی ان ملازمین کو ریگولر کرنے کے لیے
باقاعدہ قانون سازی کررہی ہے۔امید ہے کہ مثبت خبر مل جائے گی۔چیف سیکرٹری
کو بھی اپنا رویہ نرم کرنا ہوگا۔ورنہ انتظامیہ، مقننہ، بیوروکریسی اور
عارضی ملازمین کے درمیان نورا کشتی کا یہ کھیل بھیانک ہوگا ، جس کا نقصان
یقینا عوام کو اٹھانا پڑھے گا۔ |