ہندوستان میں فسطائی طاقتوں کو جب سے عروج حاصل ہوا ہے اس
وقت سے اخلاق و اقدار ، تحمل وبردباری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا
مادہ ہی ختم ہوگیا ہے۔ اپنے حریف کی بات سننا کسی کو گوارہ نہیں رہا۔ جب کہ
جمہوریت کی خاصیت یہی ہے سیاسی حریف کو بھی یکساں مقام حاصل ہوتا ہے ۔ لیکن
کچھ برسوں میں ہندوستان میں جو کچھ ہورہا ہے اسے قطعی طور پر اسے جمہوری
اقدار کے حق میں بہتر قرار نہیں دیاجاسکتا ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے
کہ اس نظریہ کو بڑے پیمانے پر فروغ حاصل ہورہاہے۔اقدار و اخلاقیات کی بات
نہ تو سماجی زندگی میں ہے اور نہ ہی سیاسی زندگی میں ۔ صرف ہر جگہ چنگیزیت
کامظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ جو نظر آرہی ہے وہ قانون
کی بالادستی کاکمزور ہونا ہے۔ قانونی بالادستی اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب
قانون کے ساتھ امتیاز برتا جاتاہے۔ ایک فرقہ کے افراد خواہ وہ کتنا بڑابھی
جرم کرلے نہ صرف وہ قانون کی گرفت سے باہر ہوتا ہے بلکہ سماج میں انہیں ایک
ہیرو کی حیثیت سے پیش کیا جاتاہے۔ اسے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی قانون کو
انگوٹھا دکھانے گریز نہیں کرتے ۔ اخلاق و اقدار کا تعلق قانون کے خوف
اوراحترام سے بھی ہے۔ہندوستان میں قانون کا احترام نہ کے برابر ہے۔ یہاں
پیسے کے دم پر ہرغلط کام کروایا جاسکتا ہے۔ تھوڑا بہت خوف بھی ہے تو صرف
کمزور، دلت اور مسلمان کو ہے ۔ کیوں کہ ان لوگوں کو بیشتر ناکردہ گناہوں کی
سزا دی جاتی ہے۔ ان لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے جس سے انصاف خریدا جاسکے
اس لئے یہ لوگ بے قصور ہوتے ہوئے بھی قصوروار ٹھہرائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں
کے ساتھ صورت حال تو اوربھی بدتر ہے۔ انہیں سب سے آسان نشانہ تصور کیا جاتا
ہے جس کے بھی مرضی آتا ہے وہ دوچار ہاتھ مسلمانوں پر ضرور آزماتا ہے۔ کیوں
کہ سزا کا کوئی تصور نہیں بلکہ پرموشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ابھی حال
ہی میں ممبئی پولیس کمشنر کے عہدے پر بٹھائے گئے پولیس افسر کی مثال دی
جاتی ہے۔ ان پر ایک سازش کے تحت جب وہ اے ٹی ایس کے سربراہ تھے درجنوں بے
قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزامات میں جیل کے سلاخوں کے پیچھے
پہنچایاتھا۔جب کہ انہیں معلوم تھا کہ اس میں مسلم نوجوان ملوث نہیں ہیں اس
کے باوجود انہوں نے ابھینو بھارت کے دہشت گردوں پر کارروائی نہ کرکے مسلم
نوجوانوں کی زندگی تباہ کی۔ مظفر نگر فسادات کے دوران رہائی منچ نے ان پر
انگلی اٹھائی ہے۔ فسادات کے دوران ایسے اسلحے استعمال کرنے کے ثبوت پیش کئے
ہیں جو انسداد دہشت گردی دستہ استعمال کرتا ہے۔ وہ اسلحہ مظفر نگر فسادات
میں مسلمانوں کے قتل میں استعمال ہوئے ہیں۔ ایسی صورت حال سے ہندوستان میں
کسی اقدار یا اخلاقیات کی توقع کیسے جاسکتی ہے۔ جہاں قانون کے نفاذ کو ایک
فرقے تک محدود کردیا جائے اور دوسروں کو مجرمانہ سرگرمیوں کو انجام دینے
کیلئے کھلم کھلا آزاد چھوڑ دیا جائے وہاں کسی اقدار و اخلاقیات کی بات
تودور ہے اس کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔آج کل جس طرح سیاست داں زبان کا
استعمال کر رہے ہیں اور انتخابات کے موقع پر جس طرح اشتعال انگیز زبان نفرت
آمیز بیان دیتے ہیں الیکشن کمیشن قانون کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کرتا
صرف تنبیہ کرنا کافی سمجھتا ہے۔ الیکشن کمیشن سے یہ سوال کیا جاناچاہئے کہ
اگر کوئی مسلمان اس طرح نفرت اور اشتعال کی زبان استعمال کرے گا تو کیا اسے
بھی صرف تنبیہ کرکے چھوڑ دیا جائے گا؟ پولیس اس کے خلاف بغاوت ، ملک سے
جنگ،دوفرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے اور فساد بھڑکانے کا مقدمہ درجہ نہیں
کرے گی؟۔ انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل مسلمانوں کا دیرینہ مطالبہ تھا
اورحکومت نے وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ اس بل کو رواں پارلیمانی اجلاس کے
دوران پاس کرائے گی۔لیکن مخالفت کا بہانہ بناکر اسے سرد خانے میں ڈال دیا
گیا۔ جبکہ تلنگانہ بل پر اس سے کہیں زیادہ مخالفت ہوئی ، پارلیمانی اقدار
کی دھجیاں اڑائی گئیں، چاقو دکھایا گیا، مرچ جھونکی گئی، کاغذپھاڑے گئے ،
مائک توڑے گئے اور طوفان کی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا لیکن حکومت نے اس بل
کو دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پاس کروایا۔کیوں کہ حکومت
کامنشا تھا ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسداد فرقہ واران تشدد بل پاس
کرانے کا حکومت کا منشا ہی نہیں تھا۔ اگر ہوتا توہ کسی حالت میں پاس کرواتی
جس طرح اس نے تلنگانہ بل پاس کروایا۔
زبردست شور شرابے اور ٹیلی ویڑن پر کارروائی کا براہ راست نشریات نہ ہونے
کے دوران لوک سبھا میں18 مارچ کو آندھرا پردیش کی تشکیل نو بل صوتی ووٹوں
سے منظور ہونے کے بعد جہاں تلنگانہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، وہیں ریاست کے
باقی حصے میں مخالفت شروع ہو گئی۔تلنگانہ ملک کا 29 واں صوبہ ہوگا اور اس
طرح تیلگوزبان والے لوگوں کی اب دو ریاست ہو جائے گی۔ اس میں حیدرآباد سمیت
10 ضلع ہوں گے۔تلنگانہ کے الگ ہو جانے کے بعد اب آندھرا پردیش میں 13 اضلاع
رہ جائیں گے۔ 10 سال تک دونوں ریاستوں کادارالحکومت حیدرآباد رہے گا۔ 1.14
لاکھ مربع کلو میٹر میں وسیع اور 3.52 کروڑ کی آبادی والی تلنگانہ ریاست
بننے کے بعد آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ملک کی 12 ویں سب سے بڑی ریاست
ہوگی۔ کانگریس نے مئی 2004 میں ہی تلنگانہ کی تشکیل کا وعدہ کیا تھا، لیکن
15 ویں لوک سبھا کے آخر میں یہ کام ہوسکا۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے وزیر ایس
جے پال ریڈی نے تلنگانہ کے حق میں دلیل پیش کرتے ہوئے کہا تھاکہ علیحدہ
ریاست کا مطالبہ گزشتہ 60 سال سے کیا جا رہا تھا۔لوک سبھا میں بل پرووٹنگ
کے دوران تلنگانہ کی مخالفت کر نے والے آندھرا پردیش کے ممبران پارلیمنٹ
اور کچھ اپوزیشن پارٹیوں نے اپنا احتجاج درج کیا ۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے
اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج نے کہا کہ ان کی پارٹی تلنگانہ کی حمایت کرتی
ہے، لیکن اس طریقے کا نہیں جو اپنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا، ’’میں اور
میری پارٹی بل کی حمایت کرتی ہے ،تلنگانہ کی تشکیل ہونی چاہئے ۔ہمیں اپنا
اعتماد ثابت کرنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ تلنگانہ کے نوجوان طبقے کی
خواہش پوری ہو رہی ہے‘‘۔اسی طرح تلنگانہ بل پاس کرانے کے لئے لوک سبھا اور
راجیہ سبھا سے کئی ممبران پارلیمنٹ کو معطل کرنا پڑا۔ ایوان میں بحث کم اور
ہنگامہ زیادہ ہوا۔یہ جمہوریت کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ صدر جمہوریہ نے بھی اس
مہینے کے آغاز میں کہا تھاکہ پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کے لئے ہے نہ کہ
ہنگامہ کھڑا کرنے کے لئے۔13 فروری کو دوپہر 12 بجے مرکزی وزیر داخلہ سشیل
کمار شندے نے لوک سبھا میں تلنگانہ بل پیش کیاتھااسی دوران تلنگانہ حامی
اور مخالف رہنما لوک سبھا اسپیکر کی سیٹ کے سامنے پہنچ گئے۔اس دوران وجے
واڑہ سے کانگریسی ممبر پارلیمنٹ ایل راجگوپال نے جیب سے نکال کرمبینہ طور
پر مرچ جھونک دی۔ اس کی وجہ سے کئی ممبران پارلیمنٹ کو تیز کھانسی ہونے لگی
اور انہوں نے راجگوپال پر حملہ کر دیا۔ایک رکن پارلیمان نے مبینہ طور پر
چاقو نکال لیا۔معاملہ اس قدر بڑھا کہ لوک سبھا کے واچ اینڈ ورڈ اہلکاروں کو
درمیان میں دفاع کے لئے آنا پڑا۔ فوری طور پر پارلیمنٹ کے ڈاکٹر ایوان میں
آئے۔ کچھ اراکین کو ہسپتال میں داخل کروانا پڑا ۔لوک سبھا اسپیکر میرا کمار
نے اس پورے واقعے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کی وجہ سے ساری
دنیا کی نظروں میں ہندوستانی جمہوریت ’’شرمسار\'‘‘ہوئی ہے۔ لوک سبھا اسپیکر
نے ضابطہ 374 کے تحت آندھرا پردیش کے 17 ممبران پارلیمنٹ کو معطل کر دیا
ہے۔ تمام رہنماؤں نے اسے پارلیمنٹ کیلئے سیاہ دن قرار دیا۔
تلنگانہ بل پاس تو ہوگیا لیکن ہندوستانی پارلیمنٹ کی دنیاکے سامنے جو تصویر
ابھری ہے اسے اچھی نہیں کہی جاسکتی۔ وہ درحقیقت ہندوستانی پارلیمنٹ کے زوال
کی ایک تصویر ہے ۔گزشتہ کچھ دہائیوں میں پارلیمنٹ میں ہونے والے کئی المناک
واقعات پریشان کن رہے ہیں۔کئی سیشن کسی کارروائی کے بغیر گزرگئے لیکن کبھی
بھی اتنا شرمناک اور اتنا افسوسناک واقعہ پارلیمنٹ میں نہیں ہوا تھا۔ سوال
یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ پارلیمانی قدریں اچانک تحت الثری میں پہنچ گئیں۔
پارلیمنٹ ارکان کے وقار میں کمی ہوئی ہے۔اس کے لئے پارلیمنٹ رکن ہی ذمہ دار
ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ ڈاکٹر حامدانصاری نے ایک اجلاس میں کہا بھی تھا کہ
ہم لوگوں کے درمیان کیا امیج پیش کر رہے ہیں۔رکن پارلیمان کے روز روز کے
ہنگامے سے تنگ آکر سابق لوک سبھا اسپیکر سومناتھ چٹرجی نے ایک بار ایوان
میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ایوان میں جتنے رکن ہنگامہ کر رہے ہیں میں توقع
کرتا ہوں کہ وہ اگلے انتخابات میں ہار جائیں۔ اس لئے اگر پارلیمنٹ کو اپنی
عزت رکھنی ہے تو پارلیمنٹ کے اراکین کو اسی حساب سے سلوک کرنا ہوگا۔ جب 15
ویں لوک سبھا کاانتخاب ہوا تھاتو 543 میں سے 307 لوک سبھا رکن پہلی بار
منتخب ہوکر آئے تھے۔ امید تھی کہ یہ لوگ بہتر کریں گے مگر ایسا ہوا نہیں۔یہ
نظریہ بہت زیادہ کام کرنے لگا ہے کہ ’اگر بدنام ہوں گے تو نام نہ ہوگا‘۔
گزشتہ کئی برسوں میں عوام کے اندر پارلیمنٹ کے تئیں یہ امیج بنی ہے کہ یہاں
صرف تو تو، میں میں ہی ہوتی ہے اور یہ کسی حد تک صحیح بھی ہے کیونکہ یہاں
صرف تو تو، میں میں ہی ہو رہی تھی کام نہیں ہو رہا تھا۔ ایک وقت تھا جب
ہندوستان کی پارلیمانی روایت تیسری دنیا کے دیگر ممالک کے لئے مثال
تھی۔افسوس کی بات تویہ پارلیمنٹ اندوہناک واقعہ اس دن پیش آیا جب بنگلہ دیش
کی اسپیکر شیریں شرمین پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھنے کیلئے خصوصی بکس میں
موجود تھیں۔اس سے ہم دنیا کے سامنے اپنی کونسی تصویر پیش کرناچاہتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے احترام میں جواہر لال نہرو کازبردست رہاتھا۔ اس میں زوال کا
آغاز محترمہ اندرا گاندھی کے دور میں شروع ہواتھا اور نقطہ عروج پر اس وقت
پہنچا جب فسطائی طاقتوں نے پارلیمنٹ میں بڑی تعداد میں قدم رکھا۔
1989،1991،1996، 1998,،1999میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا تھا۔ اس کے
بعد تو پارلیمنٹ اپنی ناراضگی اورپارٹی کے مفاد کے اظہار کا اکھاڑہ بن
گئی۔اراکین کو عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے۔ممبران عوامی
خدمات کے بجائے اپنی دولت میں اضافہ کرنے پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ گزشتہ
دس برسوں میں ممبران کی جائداد میں بے تحاشہ اضافہ سے اندازہ لگایا جاسکتا
ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران بحث کم ہوئی ہے اور تضاد زیادہ رہا۔ کئی لوگوں
کا خیال ہے کہ ٹی وی پر براہ راست نشر کی وجہ سے ہنگامہ زیادہ ہونے لگے ہیں
۔ہنگامے کے پیچھے دو یا تین وجہ ہو سکتے ہیں۔ پہلا کہ کوئی رکن کوئی موضوع
اٹھانا چاہتے ہیں اور انہیں موقع نہیں مل رہا ہے۔اس لئے ایوان کی کارروائی
میں رکاوٹ ڈال کر اپنی بات کہنا چاہتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ
سیاسی وجوہات کی بنا پر پہلے سے طے کر لیا گیا ہو کہ رکاوٹ ڈالنی ہے۔ اس کو
روکنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایوان کی کارروائی سے پہلے اقتدار پارٹی اور
اپوزیشن دونوں بیٹھ کر یہ فیصلہ کریں کہ کس موضوع پر بحث کرنی ہے اور کس پر
نہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکمراں یا آنے والے وقت کے حکمرانوں کے
لئے یہ بات نہیں کہی جا سکتی ہے۔ ایسے میں پارلیمانی رویے میں قابل قدر
اصلاحات کی امید بہت کم ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران
پارلیمنٹ جتنا کام کر سکتی تھی اتنا نہیں کیا گیا۔
تلنگانہ بل آسانی سے پاس نہیں ہوا ہے اس کے لئے جہاں چھ دہائی سے زائد کی
جدوجہد ہے وہیں وہا ں کا تلنگانہ کے تئیں عوام کا حساس ہونا بھی ہے۔ اس
تحریک میں سیکڑوں طلبہ اور عوام نے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔ ترقی پسند
شاعر مخدوم محی الدین بھی اس تحریک میں شامل تھے۔ اس کیلئے انہوں نے
صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ اس کے ساتھ دیگر چار بل بھی پارلیمنٹ میں منظور
کئے گئے لیکن مسلمانوں کا دیرینہ مطالبہ والا انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل
کو ٹال دیا گیا۔ انہی کے مطالبات تسلیم کئے جاتے ہیں جن میں قربانی دینے،
اثر انداز ہونے اور وزن ڈالنے کی قوت ہوں۔ انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل اس
لئے پاس نہیں ہوسکا کیوں کہ مسلمان سیاسی بے وزنی کے شکار ہیں۔ کسی بھی
مسئلے پر وہ گھروں سے نکلنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ڈرائنگ اور نکڑ پر لمبی
چوڑی باتیں کرتے ہیں، حکومت کے متعصبانہ رویہ کی شکایت کرتے ہیں، امتیاز
سلوک کا رونا روتے ہیں لیکن جب میدان عمل میں آنے کا وقت ہوتا ہے تو ’کنبھ
کرن ‘کی نیند سو جاتے ہیں۔ گزشتہ سال 16 دسمبر اور سال رواں 6فروری کو جنتر
منتر پر ہونے والے مسلمانوں کے مظاہرے میں کم تعداد دیکھ کر یقین کرنا مشکل
ہوا تھا کہ اس ملک میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہے۔انسداد فرقہ وارانہ
تشدد بل کی حمایت میں 16دسمبر کے مظاہرے کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لائزر
فورم نے انعقادکیا تھا ۔ اس فورم کے دہلی میں سات سو زائد ممبران ہیں لیکن
بے حسی کی انتہا دیکھئے کہ اس مظاہرے میں اس فورم کے بہ مشکل 30،35 لوگ
تھے۔ اے ایم یو اولڈ بوائز کے رکن ہی دہلی میں لاکھوں کی تعداد میں ہیں اس
کے باوجود مظاہرے میں اتنی کم تعداد مسلمانوں کی مسلم مسائل کے تئیں بے حسی
کو ظاہر کرتی ہے۔ جمہوریت میں اپنی موجودگی سڑکوں پر اترکر درج کرائی جاتی
ہے ۔ احتجاج اور مظاہرے کے بغیر کوئی حکومت عوام کی بات نہیں سنتی۔ اس کے
باوجود مسلمانوں کا اپنے مسائل کے تئیں بے حسی اور بے رخی قابل تشویش ہے۔
خاص طور پر ایسے وقت میں جب مسلم رہنما اور ملی رہنما صرف بیان دینے تک ہی
اپنی ذمہ داری کی ادائیگی تصور کرتے ہوں۔ مسلم ممبران پارلیمنٹ نے اپنی
کوئی ذمہ داری ادا نہیں کی۔جس طرح تلنگانہ ریاست کے حامی اور مخالفین
ممبران پارلیمنٹ نے پارٹی وابستگی سے بالاہوکر شدت کے ساتھ اس معاملہ کو
اٹھایا اورکسی حدتک بھی گئے کیا مسلم ممبران پارلیمان نے اس کا عشر عشیر
کرنے کی تو دور کی بات انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کی حمایت میں بیان تک
نہیں دیا۔ مسلمان خود فیصلہ کریں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا
چاہئے۔مسلمان اپنی ذمہ داری ادا کریں اس کے بعد حکومت کو کوسیں۔ مسلم مفاد
کے سلسلے میں کوئی بھی تحریک ہویا تحریک چلانے والے سے اختلاف ہو، اسے نظر
انداز کرتے ہوئے مسلک، ذات پات اورعلاقائیت کے خول باہر نکل کراس کی حمایت
کریں۔ مسلکی اختلافات مسجدوں تک محدود رکھیں کیوں کہ اسے ہوا دینے کی تیاری
بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ |