ڈالر پہ اسحاق ڈار کا وار……ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آئے ؟

نواز حکومت کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے پاکستانی قوم سے کیا ہوا اپنا وعدہ سچ کر دکھایاوہ بھی اتنی قلیل مدت میں……یار بیلی اسے اسحاق ڈار کا معجزہ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح یار بیلیوں کے کہنے کے مطابق اسحاق ڈار’’ صاحب معجزہ ‘‘بھی بن گے۔’’دسمبر 2013 جناب ڈار نے ڈالروں کے ذخیروہ اندوزہ کو تنمبیہ کی تھی کہ وہ ڈالر مارکیٹ میں لے آئیں ڈالر گرنے والا ہے‘‘ اب ڈالر وقعی 1998 کی سطح پر واپس آ گیا ہے۔

ڈالر کی یہ گراوٹ کیسے ہوئی ؟ یہ ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔ ڈالر کی 98 پر واپسی سے ہمارے سدا بہار سیاست دان شیخ رشید احمد کو ندامت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔کیونکہ انہوں نے اپنے خادم اعلی کی طرح جوش خطابت میں اسحاق ڈار کو چیلنج دیدیا تھا کہ اگر ڈالر 100 سے نیچے آگیا تو وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جائیں گے۔ اب یار بیلیوں نے انہیں اپنا وعدہ یاد دلایا تو انہوں نے الٹا سوال ڈاغ دیا ہے۔حکومت بتائے کہ ڈالڑ کیسے نیچے آیا ہے اور ڈایڑھ ارب ڈالر کہاں سے آئے ہیں اگر حکومت نہیں بتائے گی تو میں بتادوں گا؟بعد میں یہی سوال ہر ٹی وی کے ہر ٹاک شوز میں زیر بحث رہا -

شیخ رشید احمد کا ڈیڑھ ارب ڈالر کا سورس بتانے کا چیلنج میں نے ہوا میں اڑا دیا کہ یہ چیلنج بھی پہلے چیلنج کی طرح بونگا چیلنج ثابت ہوگا۔ لیکن اگلے روز ہی مجھے محسوس ہونے لگا کہ شیخ صاحب کا یہ چیلنج کس قدر خوف ناک تھا۔ کیونکہ شیخ رشید کے چیلنج کے اگلے روز دا بجے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر دوست ممالک نے دئیے ہیں۔ لیکن شیخ صاحب نے اسے حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اینکرز کے سوال کے جواب میں کہا کہ’’ مجھے سیاست سیاست کھیلنے سے ’’ پرہیز کا مشورہ‘‘ دیا گیا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت نے منع کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ھکومت ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔

میں ڈالر کو 98 پر واپس لانے کے وعدے کو پورا کرنے پرجناب اسحاق ڈار کی خدمت میں ہدیہ تبیرک پیش کرتا ہوں کیونکہ اسحاق ڈار ملکی تاریخ کے پہلے وزیر خزانہ ہیں جس نے قوم سے کیا ہوا اپنا وعدہ اتنے قلیل عرسہ میں نپورا کر دکھایا ہے۔ اب قوم وزیر اعظم نواز شریف کی جانب دیکھ رہی ہے کہ وہ بھی اشیا خورد نوش کی قیمتیں 1999 کی سطح پر واپس لانے کا اپنا وعدہ نبھائیں۔ڈالر کی گراوٹ سے ہمارے بیرونی قرضے کے حجم میں تقریبا 50 کروڑ ڈالر کی فوری کمی ہو گی۔پیٹرولیم مصنوعات-

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ثالر کے دھڑام سے نیچے گرنے کا عمل مستقل رہے گا ۔یا پھر چند ماہ بعد ڈالر کو پھرسے ’’پر ‘‘ لگ جائیں گے؟ روپے کی قیمت کو اس سطح پر مستحکم رکھنے کے لیے حکومت مذید کیا قدامات اٹحائے گی؟ کیا ڈالر کی اس بے قدری کے فوائد پاکستان کے عوام تک بھی پہنچیں گے ؟کیا پیٹرول،مٹی کے تیل،گھی، ٹرانسپورٹ کے کرائے ،اور مہنگائی کے بے قابو جن کو بوتل میں بند کیا جائیگا؟ جس سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام سکھ کا سانس لے سکے ۔

شیخ رشید احمد سوال تو بیچ میں ہی رہ گیا۔ ڈیڑھ ارب ڈالر فراہم کرنے کا ’’دھان‘‘ کن’’دوست ممالک ‘‘ نے کیا ہے۔حکومت اتنی مہربانی کرنے والے اپنے دوست بلکہ’’ محسنوں‘‘ کے نام صیغہ راز میں رکھنے پر کیوں مصر ہے؟ کیا ان ‘‘ محسنوں ‘ کے اس احسان عظیم کے پس پردہ کچھ محرکات اور عوامل ہیں۔جن کے افشاء ہونے سے پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے؟

جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ ڈالر کی پستی کا باعث بننے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کی فراہمی کو اگر پچھلے ایک دو ماہ میں پاکستان آنے والی اہم عرب شخصیات سے جوڑا جا سکتا ہے۔ حکومت کو پاکستانی عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے اور انہیں بتایا جائے کہ ان ڈیڑھ ارب ڈالر کے عوض ’’پاکستان کیا خدمات سرانجام دینے جا رہا ہے؟اگر ہم اپنی فوج شام کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں تو یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے بہت ہی بھیانک ثابت ہوگا ۔کیونکہ ہمارے اس فیصلے سے ہمارا پڑوسی ملک ا یران اس فیصلے کو آسانی سے ہضم نہیں کریگا۔اور وہ اسے اپنی سلامتی کے خلاف سمجھے گا۔ شام کے خلاف پاکستانی فوج کے استعمال سے ایران کے ساتھ ہماری سرحد غیر محفوظ ہو جائیگی۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات ،طالبان کمیٹی کے رابطہ کار مولانا سمیع الھق اور دیگر کی عمرہ کی ادائیگی کے لیے جانا بھی خالی از علت نہیں ۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ’’طالبان سے مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ اب طالبان کو اس خطے سے نکال کر ’’شام ‘‘ پہنچانا مقصود ہے۔ کیونکہ اب انکی وہاں اشد ضرورت ہے۔ایک حلقے کی رائے ذرا اس سے مختلف ہے کہ’’پچھلے کچھ مہینوں سے سعودی عرب میں بھی ہلچل برپا ہے۔ سعودی حکومت کے خلاف لوگ مظاہرے کر رہے ہیں۔اور ولی عہد سمیت دیگر حکومتی شخصیات کے تصاویر بھی ’’سپرد آتش ‘‘ کیے جا رہے ہیں۔دنیا بھر کا میڈیا سعودی عرب کی اس اندرونی صورت حال سے آگاہی رکھتا ہے۔اور اگر کسی ملک کا میڈیا اس سے بے خبر ہے تو وہ’’پاکستان کا با خبر‘‘ اور تیز ترین میڈیا ہے۔

شائد سعودی عرب کو درپیش اندرونی شورش پر پردہ پوشی کرنا سعودی عرب کے احسانات کے بوجھ کے سبب ہمارے میڈیا اور حکومت کی مجبوری ہے۔ اگر تو یہ خبریں درست ہیں کہ ہم اپنی فوج کو سعودی عرب کے اندرونی حالات کو کنٹرول کرنے یا شام کے اندرونی معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بھیج رہے ہیں تو یہ ’’پاکستان‘‘ کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ شام کے اندر پہلے ہی پاکستان کے شہری بشارالاسد حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔کئی ڈیڈ بادیاں شام سے پاکستان پہنچ چکی ہیں۔کہاجاتا ہے کہ ڈیرہ اسمعیل خاں اور بنوں جیلوں سے فرار ہونے والے قیدی بھی شام کی سرزمین پر اتارے گے ہیں جو وہاں جہاد میں مصروف عمل ہیں۔

خیر یہ تو حکومت کی زمہ داریاں ہیں۔انشا ء اﷲ امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت پاکستان کے مفادات کے منافی فیصلے نہیں کریگی۔اور اپنی تمام تر توانیاں پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے لیے صرف کریگی اور ڈالر ریکارڈ پستی کے فوائد عوام کو ضرور منتقل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گی۔حکومت کو چاہئے کہ فوری پیٹرول کی قیمتوں میں 10روپے کی لیٹر ،بسوں کے کرایوں میں کمی کا اعلان کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ اشیا خوردنوش ،چینی ،گھی آٹا سمیت دیگرچیزوں کی قیمتیں کم کرے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے ہر چیز سستی ہو جائیگی۔ڈالر تو سستا ہوگیا لیکن اب اس کے فوائد عوام تک پہنچانا وزیر خزانہ کے لیے ایک نیا چیلنج ان کے سامنے کھڑا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اسحاق دار صاحب اس چیلنج سے کس طرح دو دوہاتھ کرتے ہیں؟
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161160 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.