کراچی کو بچایا جائے

یوں تو کراچی ایک طویل عرصے سے خوف ناک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، قتل و غارت، بھتا خوری اور اسٹریٹ کرائم اب اس شہر کی پہچان ہیں۔ سیاسی مخالفین کو موت کی نیند سلاکر ہمیشہ کے لیے اُنہیں چُپ کرانا معمول بن چکاہے۔ بدامنی کی بڑھتی وارداتوں اور صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک ہزاروں شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ صرف 2013ء کے دوران کراچی میں 2600 سے زاید افراد ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور پر تشدد واقعات میں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ جبکہ 2014ء کا آغاز بھی اس شہرِنا پرساں لیے امید کی کوئی کرن نہ لاسکا۔رواں سال کے ابتدائی سہ ماہی میں بھی پر تشدد واقعات میں تیزی ریکارڈ کی گئی۔اس دوران500 کے لگ بھگ افراد مارے جاچکے ہیں، لیکن حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس صورت حال کو کنٹرول کرنے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔ بدامنی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ لیاری ہے، جہاں جرائم پیشہ افراد کی حکمرانی ہے اور وہ جو چاہیں کریں، حکومت ان کے سامنے بے بس ہے۔ گینگ وار کے گروپس میں آئے روزقبضے کی جنگ یہاں معمول ہے، اس لڑائی میں عام آدمی بھی پس رہا ہے۔ بدھ کے روزلیاری میں قبضے کی جنگ میں اتنی شدت آئی کہ فائرنگ اور بم دھماکوں میں 17 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ اس دوران حکومت اور قانون نافذکرنے والے ادارے بے بسی سے تماشا دیکھتے رہے۔اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ اور بھتا خوری کی وبا آج بھی عروج پر ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر میں عام آدمی کے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ قتل و غارت کی اکثر وارداتوں کے مرتکب’نامعلوم‘ کیوں رہتے ہیں؟ قاتل انسانی خون سے ہولی کھیلنے کے بعد کہاں روپوش ہوجاتے ہیں؟ مقتولین کی روحیں شہر کی فضاؤں میں مدتوں اپنے لہو سے تر ہاتھوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔ نامعلوم قاتلوں کا سراغ لگانا جن محکموں اور ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے وہ کیا کررہی ہیں؟ دہشت گردی کی لرزہ خیزوارداتیں عام شہری کی ذہنی، نفسیاتی اور اعصابی شکست و ریخت کا باعث بن رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رینجرز اور پولیس کے ہائی الرٹ ہونے کے باوجود ٹارگٹ کلرز قتل و غارت میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ہر بار وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ سندھ بدامنی پر قابو پانے اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیتے ہیں، کیا اس کے بعد ان کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے؟

یقینا اس ناکامی میں جہاں دہشت گردوں کا کردار ہے، وہاں خود حکومتی پالیسیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ن لیگ کی حکومت برسر اقتدار آئی توقوم کو امید تھی کہ یہ دہشت گردی، مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادے گی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف خود کراچی آئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بیٹھ کر کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے اور دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اب اس آپریشن کو شروع ہوئے بھی 5 ماہ مکمل ہوچکے ہیں، لیکن شہر قائد میں آج بھی دہشت گرد اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دن دہاڑے لوگوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

یہاں تو حال یہ ہے کہ سندھ حکومت ہائی پروفائل مقدمات کی سماعت کراچی میں جاری نہیں رکھ سکتی۔ اہم کیسوں کی سماعت دوسرے شہروں میں منتقل کی جارہی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی اہم مقدمے کے وکلاء اور گواہان کو تحفظ حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں سے عوام کی وابستہ امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے کراچی کے معاملے پر ہاتھ کھڑے کردیے ہیں۔ یہ صورت حال انتہائی سنگین خطرات کی جانب اشارہ کررہی ہے۔ اگر حالات یونہی رہے تو حکومت کے لیے اپنی رٹ برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ ان دگرگوں حالات میں اپوزیشن جماعتیں بھی زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہیں۔ کوئی جماعت دوسری جماعت کی مخالفت اس لیے نہیں کررہی کہ اس کی حکومت کو غیر مستحکم نہ کردیا جائے۔ سب کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوجائیں، کوئی بھی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز نہیں اٹھارہا۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ شہریوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیاست اور جرم دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، جو سیاسی جماعتیں مجرموں اور ٹارگٹ کلرز کو مدد فراہم کررہی ہیں ان کی نہ صرف نشان دہی ہونی چاہیے، بلکہ انہیں قانون کی گرفت میں لانا بھی ضروری ہے۔ شہر بے اماں کو مقتل بننے سے بچانے کے لیے وفاقی وزیر داخلہ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دینا ہوگا۔ شہر کو ہائی جیک کرنے والے عناصر کا موثر انداز میں قلع قمع کے بغیر امن کی امید رکھنا عبث ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کردینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ گزشتہ 5 سال کے دوران کراچی میں 8 ہزار سے زاید شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ ان مظلوموں کا خون تقاضا کرتا ہے کہ قاتلوں کو تلاش کیا جائے، ان پر کھلی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ کراچی کو بچانا ہے تو قانون کے نفاذ میں کسی سے بھی رعایت نہ برتی جائے۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر من و عن عمل درآمد کیا جائے تو شہر قائد دوبارہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے، بصورت دیگر دہشت گرد اسی طرح دندناتے، شہریوں کو قتل کرتے رہیں گے اور حکومت بے بسی سے تماشا دیکھتی رہے گی۔
Usman Hasan Zai
About the Author: Usman Hasan Zai Read More Articles by Usman Hasan Zai: 111 Articles with 86358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.