ایک محفل میں کسی دوست نے کہا کہ یہ ڈرامہ کب ختم
ہوگا؟میں اس کا مطلب نہیں سمجھ سکا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔تب وہ میرے
قریب آکربیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ آپ اور آپ جیسے تجزیہ نگار کیا بتا سکتے
ہیں کہ یہ ڈرامہ کب ختم ہوگا ؟ میں نے اس سے پوچھا کہ کون سا ڈرامہ بھائی ؟
اس نے جواب دیا یہ جوآج کل پاکستان میں چل ر ہے ہیں ۔ میں نے کہا کہ آپ اس
لوکل ’’پاک ٹی ہاؤس ‘‘ میں کھل کر وضاحت کریں کہ جناب کا اشارہ کس طرف ہے ؟
جواباً اس نے خاص طورپر دوباتوں کاذکر کیا ۔ایک طالبان مذاکرات کا اور
دوسرے شیخ رشید کا۔
بقول اس شخص کے ’’سنا ہے حکومت طالبان سے مذاکرات کررہی ہے اورہمارے حکمران
عوام کو یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ ملک میں جو دہشت گردی ہورہی ہے وہ طالبان
کررہے ہیں اگر ان سے مذاکرات کامیاب ہوجائیں گے تو دہشت گردی کا خاتمہ
ہوجائے گا ۔ لیکن یہ کیا کہ طالبان سے ابھی مذاکرات ہورہے ہیں اور دھماکے
پھر بھی ختم نہیں ہورہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو دھماکے اب ہورہے ہیں ان
دھماکوں سے طالبان لاتعلقی کا اعلان کرچکے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کامیاب
ہونے کا کسی کو کوئی علم نہیں ۔ کوئی دوسرا گروپ دہشت گردی کرنے میدان میں
اتر آیا ہے ۔پھر کل کو ہم طالبان کو چھوڑ کر اس دوسرے گروپ سے مذاکرات کریں
گے ۔ اس کے بعد پھر کوئی تیسرا گروپ سامنے آجائے گا ۔حکومت مذاکرات کے چکر
میں رہے گی اور مظلوم عوام اسی طرح اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتی رہے گی۔ اس سے
زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے آواز بلند کرنے
والے کسی بھی مسلک کے مسلمان مساجد، امام بارگاہ ، اجتماعات اور ایسی دوسری
جگہوں پر تو دھماکے کرتے ہیں لیکن وہ جگہ جن کے غلط اور غیر اسلامی ہونے پر
تمام مسالک متفق ہیں مثلاً رقص وسرود کی محافل، شراب خانے اور اس قسم کی بے
ہودہ غل غپاڑے والی جگہوں پر کوئی حرکت نہیں ہوتی۔‘‘
پھر اس نے دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں الیکڑانک میڈیا
کی بھر مار ہے اوریہ ٹاک شوکرنے والے اپنے پروگرامز میں سب سے زیادہ شیخ
رشید صاحب کو مدعو کرتے ہیں کیونکہ وہ کافی دلچسپ باتیں کرتے ہیں۔پچھلے
دنوں انہوں نے ایک نجی چینل کے لائیوپروگرام میں بڑے بلند و بانگ دعوے سے
کہا تھا کہ اگر ڈالر 100سے کم ہوگیا تو وہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں
گے۔عوام کا اب یہ جائز سوال ہے کہ ڈالر کی قیمت سو سے کم ہوگئی ہے تو شیخ
صاحب وعدے کے مطابق اپنی سیٹ چھوڑدیں ۔ مگرایسا ابھی تک نہیں ہوا۔ کیا
پاکستان کے اکثر سیاستدانوں نے جھوٹ بولنے میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے؟
اس کے پہلے سوال کا جواب تو یہ تھا کہ طالبان سے مذاکرات بہت اہم ہیں
کیونکہ غیر اسلامی و غیر ملکی طاقتیں مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اپنا
فائدہ اٹھا نا چاہتی ہیں۔ ساری قوم نے دیکھ لیا کہ جب طالبان نے پرامن رہنے
کا اعلان کردیا تو پھر اب وہ کون سے عناصر ہیں جو ملک میں دہشت گردی کررہے
ہیں؟ کوئی بھی محب وطن شہری نہیں چاہتا کہ اس کے ملک کا امن وامان تباہ ہو
جب کہ مسلمان کبھی بھی اپنے کسی بھائی کا ناجائز خون نہیں بہا ئے گا کیوں
کہ اس کو پتہ ہے کہ اسلام کسی ایک شخص کے ناجائز قتل کوپوری انسانیت کا قتل
کہتا ہے ۔ حکومت کا یہ بہت اچھا فیصلہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کررہی ہے ۔اس
طرح ساری عوام کو پتا چل جائے گا کہ دہشت گردی طالبان کررہے تھے یا پھر
کوئی اور ؟یہ سب غیر ملکی قوتوں کی ایک سازش ہے کہ اسلام کو بدنام کیا جائے
۔ ویسے بھی عوام کو امن چاہیے خواہ وہ ڈائیلاگ سے ہو یا پھر آپریشن سے۔
رہا دوسرا سوال تو شیخ رشید صاحب نے جذبات میں آکر ایسا فلمی ڈائیلاگ بول
دیا یا پھر انہیں بھی خادم اعلیٰ پنجاب کی طرح بڑھکیں مارنے کا شوق چڑھا
ہوگا۔ خادم اعلیٰ بھی تو جلسوں میں کہا کرتے تھے کہ اگر ہماری حکومت آئی تو
دیکھناہم آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔کیاآپ سب نے نہیں دیکھا کہ
میاں صاحبان نے آصف زرداری کو کس طرح سڑکوں پر گھسیٹا ہے۔حال ہی میں دونوں
بھائیوں (میاں نواز اور زرداری)نے ملکر بجلی گھر کا افتتاح کیاتو کیاوہاں
تک کا سفر زرداری نے سڑکوں پر چل کر نہیں کیا ؟ قوم نے دیکھا نہیں کہ کس
عزت و احترام سے زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا ؟ میاں صاحب تواتنے بے رحم
ہیں کہ انہوں نے تو بچارے بچے بلاول زرداری پر بھی ترس نہیں کھایا اس کوبھی
اتنا گھسیٹا کہ اسے کھینچ کر اپنے ساتھ تھر کے ریگستان میں لے گئے ۔
جب میاں صاحبان نے عوام سے کیا وعدہ پورا کردیا ہے تو اب شیخ صاحب بھی ضرور
اپنے وعدے کا پاس کریں گے۔شیخ صاحب نے بھی وعدہ کیا تھا کہ ڈالر سو سے کم
ہوا تو وہ اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں گے تو کوئی بات نہیں اسمبلی کی معیاد
ختم ہونے سے ایک دن پہلے وہ بھی مستعفی ہوکر اپنے وعدے کا پاس کردیں
گے۔عوام کو اتنی جلدی کیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ’’میرے عزیزہم
وطنو! ‘‘ کہہ کر استعفے کی بھی نوبت نہ آنے دے۔
پاکستانی بزرگوں کے بقول سیاست نام ہی جھوٹ کا ہے مگر اس میں قصور ان
سیاستدانوں کا نہیں بلکہ عوام کا ہے۔جب کوئی سیاستدان اپنی عوام سے جھوٹ
بولے تو اس کے حلقے کی عوام کو چاہیے کہ وہ اس کا محاسبہ کرے ۔اس سے پوچھے
کہ اس نے عوام کو گمراہ کیوں کیا؟ جب ہم خود اپنے اپنے حلقے کے لیڈروں کا
احتساب کریں گے تو پھر کوئی بھی سیاستدان جھوٹ نہیں بولے گاورنہ وہ اسی طرح
عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے ۔ بدقسمتی سے ہم آج تک منتشر افراد ہیں کاش
اﷲ ہم کو ایک قوم بننے کی توفیق دے۔
|