تھرپارکر کے بعد چولستان میں بھی قحط نے اپنے پنجے
گاڑنا شروع کردیے ہیں۔ صحرائے تھر کی طرح صحرائے چولستان میں بھی قحط کا
خطرہ بڑھ گیاہے۔ درجنوں جانور ہلاک ہوگئے ہیں،جب کہ صرف ایک بستی کھیر سر
میں پچھلے ایک ماہ کے دوران چھ اموات واقع ہوچکی ہیں۔ انسانوں اور جانوروں
میں وبائی امراض پھیل رہی ہیں۔ رحیم یارخان کا صحرائی سلسلہ چولستان بارشیں
نہ ہونے سے خشک سالی کا شکار ہے۔ 2010ءکے بعد سے بارشیں تسلسل کے ساتھ نہ
ہونے کی وجہ سے صورتحال بگڑتی جارہی ہے۔ حالیہ خشک سالی کی وجہ سے بارشوں
کا پانی جمع کرنے کے اکثر ذخائر خشک ہوگئے ہیں۔ چراگاہیں خشک ہو جانے سے
مال مویشیوں کی خوراک کے مسئلے کی وجہ سے روہی کے لوگوں نے مال مویشیوں کے
ساتھ آبادی کی جانب نقل مکانی شروع کردی ہے۔ ایک محتاظ اندازے کے مطابق
چولستان میں تقریباً دولاکھ افراد رہائش پذیر ہیں،جن کا روزگار جانوروں کے
ساتھ بندھا ہوا ہے ۔ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بہاولپور ڈویژن سے
ملحق صحرائے چولستان میں 20لاکھ جانور ہیں، جن میں اونٹ،گائے، بھیڑ بکریاں
اور دیگر جانور ہیں۔ 66 لاکھ ایکڑ رقبہ پر محیط ڈویژن بہاولپور کے16 لاکھ
ایکڑ پر پھیلے صحرائے چولستان کی سرحدیں بھارتی صحرائی صوبے راجستھان اور
پاکستانی صوبے سندھ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سندھ میں اسے” تھر“ اور پنجاب کے
ملتان اور ڈیرہ غازی خان کی ڈویژنوں میں” تھل“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
بہاولپور ڈویژن میںیہ ”چولستان“ اور ”رَوہی“ کہلاتا ہے۔ چولستان شمال کی
طرف سے زیریںخطے سے گھرا ہواہے، جسے مقامی طور پر ہاکڑہ کہتے ہیں،
جہاں200فٹ تک بلند ٹیلوں کی ایک قطار چلی آتی ہے۔ ان ٹیلوں میں اگنے والی
خاص طرز کی سَر، سروٹ، تیلے، سرکانے، ملھے اور ایسی ہی جھاڑیاں ملتی ہیں۔
اس علاقے میں طرح طرح کے ٹیلے بنتے رہتے ہیں،زیر زمین 80فٹ کی گہرائی میں
کڑوا پانی ملتا ہے۔ یہاں اکثر پانی کی کمی ہوتی ہے۔ چولستان میں ون ایل ،
کنڈےر ڈسٹی ، ون آر آب حیات ، چمن چھوٹی نہریں ہیں جو قرب و جوار میں ہی
جاکر ختم ہوجاتی ہیں۔
پانی کی قلت کے باعث بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ذخائر بنائے جاتے
ہیں۔ جنہیں ٹوبہ کہا جاتا ہے۔ جب اس علاقے میں بارشیں نہ ہوں یا پھر پانی
کو جمع کرنے کے لیے بنائے گئے ٹوبے خشک ہوں جائیں توقحط کی سی صورتحال پیدا
ہوجاتی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق چولستان میں سالانہ 3 سے 5 انچ بارش
ہوتی ہے، جو حالیہ چند سالوں سے کم ہوکر 2 سے 3 انچ ریکارڈ کی گئی ہے ۔
چولستان میں کل 12ہزار ٹوبے ہیں۔ عرصہ دراز سے چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی
جانب سے بھل صفائی نہ ہونے کے باعث کٹنی والی،کھوکھرانوالی، بھالا،اکمل
والا، بھوچھراں، کمال والی،کھرانی سمیت دیگر علاقوں میں 99 فیصد ٹوبے خشک
ہو چکے ہیں ۔ مقامی لوگوں کے مطابق سی ڈی اے کا ادارہ پانی فراہم کرنے کا
ذمہ دار ہے، لیکن یہ ادارہ پانی کی فراہمی اور دیگر ترقیاتی کاموں میں مکمل
طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ روہی میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پیداہونے والی
صورتحال سے بچنے کے لیے متبادل نظام موجودہے، لیکن 6سال سے یہ نظام بندپڑا
ہے۔ پمپنگ اسٹیشنز پرپائپ لائنیں بے کار،جب کہ جنریٹر وں سے مشینری غائب
ہوچکی ہے۔ میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے بچھائی گئی 4 بڑی پائپ لائنیں دیکھ
بھال نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوکر رہ گئی ہیں،چولستان میں 1999ءمیں
بدترین خشک سالی اور قحط سے 150 افراد اور 5 ہزار مویشی ہلاک ہوئے تھے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق حکومت پنجاب ہر سال چولستان سے دو ارب روپے کا
ریونیو اکھٹا کرتی ہے، مگر چولستانیوں کو آج کے اس جدید دور میں بھی پینے
کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے، بارشوں سے اکھٹا ہونے والا پانی جہاں
انسان پیتے ہیں ،اسی پانی سے جانور بھی اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ ان کے لیے نہ
تو ویٹرنری ڈاکٹرز کی سہولت ہے اور نہ ہی انسانوں کے لیے موبائل ڈسپنسری
کارآمد ہے ، بہت سے بچے اور بزرگ بشمول خواتین صحت کی سہولیات نہ ہونے کے
باعث زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہےں، جو کسی ناگہانی آفت سے کم نہیں ، دور
دراز کے صحرائی علاقوں سے بزرگوں بچوں اور عورتوں کا شہر کی جانب آنا مشکل
دکھائی دےتا ہے۔
دوسری جانب میڈیا پر چولستان میں قحط سالی سنگین ہونے کی خبروں پر پنجاب
سمبلی میں کھلبلی مچ گئی۔ اپوزیشن کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں تحریک
التوا جمع کروا دی گئی، صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمود الرشید کہا
کہنا تھا کہ چولستان میں بھی تھر جیسی صورتحال کا سامنا کرناپڑسکتا
ہے۔،حکومت فوری توجہ دے۔جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے چولستان
میں خشک سالی اور بچوں کی ہلاکتوں کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے صورتحال کے
جائزے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے چولستان میں خشک
سالی کی خبروں پر چولستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے صورت
حال سے نمٹنے کے لیے فی الفور موثر اقدامات کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس کے
علاوہ انہوں نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دے
دی ہے، جو چولستان کا دورہ کرکے وزیراعلیٰ کو رپورٹ پیش کرے گی۔
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو چولستان میں تھرپارکر کی طرح کسی
انسانی المیے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ فوری اقدامات کرکے قحط کی
صورتحال کو ختم کرنا چاہیے۔ حکومت پنجاب کو چاہیے کہ ڈےٹا جمع کرے اور
چولستان کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔ اربوں روپے کا ریونیو چولستان سے
اکھٹا کیا جاتا ہے، مگر اس کے بدلے میں چولستانیوں کو زندگی کی بنیادی
سہولیات تک میسر نہیں ہیں ، اگر حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے
تو گرمیوں میں چولستانیوں کی زندگی مزید اذیت کا شکار ہوجائے گی اور
خدانخواستہ کہیں چولستان میں بھی تھرپارکر جیسی صورتحال نہ پیدا ہوجائے،
جہاں ابھی تک لوگ موت کی آغوش میں پناہ لے رہے ہیں ، اس کے باوجود حکومت
سندھ ابھی تک تھرپارکر میں متاثرین کو امداد نہیں پہنچا سکی۔ منگل کے روز
تھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران
سیشن جج مٹھی اور سیکرٹری خوراک نے اپنی انکوائری رپورٹس پیش کیں، جن کے
مطابق تھر میں 80 ہزار خاندانوں کو ابھی تک امداد نہیں ملی، سرکاری ہسپتال
میں ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں، جب کہ ڈاکٹروں کی غیر حاضری کی شکایات بھی
دور نہیں ہو سکیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق تھرپارکر کی چھ تحصیلوں کے دور دراز
دیہاتوں میں امدادی سامان تا حال نہیں پہنچ سکا ، سرکاری اور نجی ہسپتالوں
میں مریضوں کی تعداد تین سو پچہتر سے زیادہ ہو گئی ، حکومت سندھ کی طرف سے
دی جانے والی گندم جیالوں اور مقامی وڈیروں کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ تھرپارکر
کے بیشتر علاقوں سے نقل مکانی کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے۔
تھرپارکر میں سنگین قحط کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں پر چیف جسٹس تصدق
جیلانی نے کہا ہے کہ سندھ حکومت سوتی رہی اور لوگ بھوک سے مرتے
رہے۔تھرپارکر کے واقعات سنگین غفلت کا نتیجہ ہیں، درجنوں معصوم دنیا سے چلے
گئے اور حکام سیاست کرنے میں مصروف ہیں،جب کہ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا
کہ تھرپارکر کے لوگوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا، پہلے کہا گیا کہ لوگ
بیماری سے مرے ہیں، اب غذائی قلت سے اموات کا انکشاف کیا جارہا ہے، تھرکی
صورتحال پر پہلے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟خدشے کے باوجود حکومت سندھ غافل
رہی، تھرپارکر کی آبادی گیارہ لاکھ ہے، شاید اب تک ایک لاکھ افراد کو امداد
ملی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ تھرپارکر چونکہ حکومت سندھ کے ماتحت ہے، اس
لیے مناسب اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے سب نے حکومت سندھ کو تنقید کا نشانہ
بنایا ہے، پنجاب حکومت نے بھی حکومت سندھ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اب
چولستان میں قحط کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے،چولستان کی ذمہ داری
پنجاب حکومت پر عاید ہوتی ہے۔حکومت پنجاب کو چاہیے کہ پہلے سے ہی وہاں ایسے
اقدامات کرے جس سے تھرپارکر جیسی صورتحال پیدا ہی نہ ہو۔ خدانخواستہ اگر
وہاں بھی تھر جیسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تو اس جدید ترین دور میں یقیناً
یہ حکومت پنجاب سمیت سب کے لیے باعث افسوس و شرم بات ہوگی۔ |