حکومت کا بڑھتا ہوا“ براہمدغ فوبیا“

سامراجی ریاستیں اپنی نوآبادیات پر اپنے قبضے کو دوام بخشنے کے لیے کوئی نیا طرز ستم کوئی نیا حربہ ایجاد نہیں کرسکتیں، وہ اپنے استعماری ہتھکنڈوں میں فروعی نوعیت کی تغیرات تو لاسکتی ہیں لیکن نو آبادیاتی پالیسیوں کا بنیادی خمیر ایک ہی رہتا ہے- لرزہ خیز ظلم وستم کے ذریعے حریت پسندوں کے دل و دماغ سے جذبہ آزادی کی والہانہ تڑپ کو کھرچ کہ پھینکنے کی کوشش، مراعات و نواز شات کی بارش، غلام قوموں کو اس کی اپنی تہذیب کے بارے میں بدظن کرنا اور یہ باور کرانا کہ آقا قوت کی قومی دھارے میں شامل ہونا اور یہ باور کرانا کہ آقا قوت کی قومی دھارے میں شامل ہونا ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں- نوآبادیاتی انفرا اسٹرکچرز اور تعمیرات کو ترقی کا لیبل لگا کر رائے عامہ کو گمراہ کرنا، غلام قوم کی نجات کے لیے سرگرم عمل رہنماؤں کی مقبولیت کے اثرات کو زائل کرنے کےلیے کردار کشی کی مہم وغیرہ وغیرہ-

یہی وہ تیر ہیں جو سامراجی ریاستیں اپنی ترکش میں ہمہ وقت موجود رکھتی ہیں- جنہیں وہ اپنی زیردست قوموں پر استعمال کرتی ہیں- یہ اور بات ہے کہ ان کے نشانے ہمیشہ خالی ہی جاتے ہیں اور آزادی کے جہد مسلسل کو خفیف سا گزند بھی نہیں پہنچتا بلکہ ان کی تحریک سے وابستگی اور زیادہ تقویت پکڑتی ہے- یہ کاتب ازل کا اٹل قانون ہے کہ حق و صداقت کی جنگ میں مادی قوت سے ماورا نظر آنے والی مفلوک الحال قوم اپنے عزم و استقلال اور پہیم قربانیوں کی بدولت آزادی کے متاع سے ضرور سرفراز ہوتی ہے-

مقبوضہ بلوچستان کے بارے میں پاکستان کی روز اول سے مروجہ پالیسی کا اگر ہم طاہرانہ جائزہ لیں تو اس میں بھی یہی ساری باتیں نظر آتی ہیں- شہید انقلاب نوابزادہ بالاچ خان مری کی شہادت کے بعد جب ریاستی تھنک ٹینک نے دیکھا کہ بالاچ مری کے بعد سردار براہمدغ بگٹی میدان مزاحمت میں ان کے سامنے کوہ گراں کی طرح موجود ہیں تو ریاستی اختیار داروں کے فتنہ پرور ذہنوں نے ایک اور سازش کے تانے بانے بن لیے اور اپنی غلیظ زبانوں سے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی کہ خدانخواستہ بالاچ مری کی شہادت میں براہمدغ بگٹی ملوث ہیں-( نقل کفر کفر نباشد ) لیکن یہاں حکمرانوں سے بہت بڑی غلطی ہوگئی کیونکہ براہمدغ بگٹی تو بلوچ نوجوانوں، بوڑھوں، بچوں، ماؤں اور بہنوں کی دل کا دھڑکن بن چکے ہیں ان کے بارے میں کوئی بلوچ ایسا تصور کرنے کو بھی گناہ کبیرہ تصور کرتا ہے- ریاست یہ کہہ کر دراصل ایک تیر سے دو شکار کرنے کی سعی لاحاصل کررہی تھی- یعنی اس بیان سے ایک طرف تو وہ مہذب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر شہید بالاچ مری کے قتل سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کررہی تھی تو دوسری طرف اس بیان میں براہمدغ بگٹی کی ابھرتی ہوئی قیادت کو گہنا کر بلوچوں کو آپس میں دست و گریبان کرنے کی خواہش کار فرما تھی لیکن ریاست کا وار خالی گیا- بلکہ اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا- شوریدہ سر بلوچ اپنے عظیم سالار کاروں کی وجہ سے پہلے ہی ریاست کو تہہ و بالا کرنے کی قسم اٹھا چکے تھے- اب ریاست نے دوسرے بلوچ سالار اور شہید بالاچ کے چھوٹے بھائی کے بارے میں پرو پیگنڈہ شروع کیا تو بلوچوں کی آتش نفرت اور بھڑک اٹھی اور شہید بالاچ مری کی شہادت کے ردعمل میں ہونے والے سبوتاژ میں شدت آگئی- اسی دن سے ریاستی مشینری اور پاکستانی میڈیا کے لیے براہمدغ بگٹی کی کردار کشی ایمان کے ارکان میں سے ایک رکن ٹھہرا- پاکستان کے غم میں ہلکان ہونے والے جس دن ذرائع ابلاغ میں براہمدغ بگٹی کے بارے میں زہرافشانی سے چوک جائیں اس رات انہیں نیند نہیں آتی- خصوصاً پاکستان کے موجودہ وزیر داخلہ رحمان ملک کو تو “براہمدغ فوبیا“ کا مرض کچھ زیادہ ہی لاحق ہوگیا ہے- کبھی وہ براہمدغ کو افغانستان میں دیکھتے ہیں تو دوسرے دن وہ انہیں بھارت میں نظر آتے ہیں- حکومت کے اس انکشاف کی باز گشت ختم نہیں ہوتی کہ پھر اعلان ہوتا ہے کہ اب براہمدغ دبئی پہنچ گئے ہیں- چلیے پاکستانی اداروں کا یہ معمہ ہم حل کیے دیتے ہیں-

براہمدغ بگٹی نہ صرف افغانستان، ہندوستان اور دبئی ہیں بیٹھے ہیں بلکہ وہ بیک وقت ایرانی بلوچستان، بحرین، عمان، قطر ، ترکمانستان، سوئیڈن اور ناروے میں بھی موجود ہیں- یعنی روئے زمین پر جہاں جہاں بلوچ قوم رہائش رکھتی ہے وہاں بلاشک و شبہ براہمدغ بھی رہتے ہیں- ان تمام ملکوں میں وہ صرف ایک ہی بلوچ کے گھر میں فروکش نہیں ہیں بلکہ ہر بلوچ کے گھر میں برملا طور پر ان کی نشست و برخاست ہے- اسی لیے پاکستانی ادارے براہمدغ بگٹی کے ٹھکانوں کو گنتے گنتے تھکاوٹ سے نڈھال ہوجائیں گے لیکن انہیں بلوچ قومی ہیرو کے ٹھکانوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہوسکے گا-
Baloch Voice
About the Author: Baloch Voice Read More Articles by Baloch Voice: 13 Articles with 14640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.