نامور محقق عالم دین پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی
سابق ڈائریکٹر شعبہ علوم اسلامیہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (انڈیا)تقریباً
چالیس روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے اور مختلف یونیورسٹیوں ،کا لجوں اور
دینی مدارس کے اساتذہ ،طلبا اور عوام الناس سے خطابات کئے ،ڈاکٹر صاحب
کراچی یونیورسٹی کی طرف سے ’’سیرت طیبہ اور عصر حاضر کے تقاضے ‘‘ کے موضوع
پر منعقدہ تقریب میں شرکت کے لیے ۱۰فروری ۲۰۱۴کو کراچی تشریف لائے، بعد
ازاں کراچی ،لاہور ، اسلام آباد ، گوجرانوالہ ، فیصل آباد، اور سرگودھا میں
مختلف تقاریب میں شریک ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب ۲۶دسمبر ۱۹۴۴ کو اتر پردیش انڈیا
میں پیدا ہوئے اور ہندوستان کی تین عظیم علمی وتربیتی درسگاہوں سے علمی فیض
حاصل کیا ، دارالعلوم ندوۃ العلماء سے ڈاکٹر صاحب نے باقاعدہ درس نظامی کا
کورس پڑ ھ کر سند فراغت حاصل کی ۔ یہاں آپ کے اساتذہ میں عالم اسلام کے
عظیم رہنما اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور مولانا
محمد رابع حسنی ندوی ایسی شخصیات رہی ہیں ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بھی
بھر پور فیض پایا ، عصری تعلیم زیادہ تر آپ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
انڈیا سے حاصل کی اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی اسی یونیورسٹی سے حاصل کی،
یوں آپ کی وابستگی ان تین درسگاہوں سے رہی ہے، اس اعتبار سے آپ کو بجا طور
پر ندوی،جامعی اور علیگ کہا جاسکتا ہے ۔تاہم آپ کی پہچان مسلم یونیورسٹی
علی گڑھ ہے، تعلیم سے رسمی فراغت کے بعد آپ نے ۱۹۷۰ء میں اپنے مادر علمی
مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ اپنے تدریسی سفر کا
آغازکیا۔ ۱۹۹۱ء میں یونیورسٹی کی طرف سے آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو
پروفیسر کا عہدہ پیش کیا گیا، پھر کچھ عرصہ بعد آپ کو شعبہ علوم اسلامیہ کا
ڈائریکٹر بنادیا گیا ۲۰۰۶ء تک آپ اسی عہدہ جلیلہ پر فائز رہے، یہاں آپ نے
تاریخ اور سیرت طیبہ کے موضوع پر عربی ،اردو ،انگریزی میں درجنوں کتابیں
اور سینکڑوں علمی وتحقیقی مقالات سپرد قلم کئے اور مختلف موضوعات پر قومی
وبین الاقوامی سیمینار ز منعقد کروائے، بعد ازاں ۲۰۰۶ء میں ریٹائر ہو کر
یونیورسٹی کے ذیلی ادارے شاہ ولی اﷲ ریسرچ سیل کے سربراہ منتخب ہوئے اور اب
اسی عہد ہ پر کام کررہے ہیں ڈاکٹر صاحب مختلف ممالک کا سفر کرچکے ہیں اور
متعدد سرکاری وپرائیویٹ اداروں کی طرف سے منعقد ہونے والے سیمیناروں میں
علمی وتحقیقی مقالات پیش کرچکے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کے مقالات ہندوپاک کے چوٹی
کے علمی وتحقیقی رسائل وجرائد میں شائع ہوتے ہیں اور اہل علم کی علمی تشنگی
کو دور کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کی پہلے پہل علمی جولان گاہ تاریخ تھی، تاریخ پر آپ نے متعدد
مقالات وکتب شائع کیـں ، تاریخ یعقوبی۔ ایک مطالعہ، قدیم سیرت نگار امام
واقدی ؒ۔ایک مطالعہ ، تاریخ وتہذیب اسلامی، اسی دور کی یاد گار کتابیں ہیں
۔ بعد ازاں آپ کا ذہن سیرت طیبہ جیسے بحرذخار موضوع کی طرف متوجہ ہوا ،پھر
قلم اس موضوع پر سر پٹ دوڑنے لگا اور سینکڑوں مقالات سیرت طیبہ کے مختلف
پہلوؤں پر منصہ شہود پر آئے اور اہل اسلام کے علمی اضافے کا ذریعہ بنے
،ڈاکٹر صاحب کی سیرت نگاری بہت متنوع ، ہمہ جہت اور جدت کا شاہکار ہے ،آپ
سیرت کے مختلف پہلوؤں اور نئے نئے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں اور نوآموز
محققین کے لیے تحقیق کا دروا کرتے ہیں ۔
آپ کی سیرت نگاری نو آموز محققین کے لیے قابل نمونہ ہے بجا طور پر آپ کو
عصر حاضر کا عظیم محقق وسیرت نگار کاخطاب دیا جاسکتا ہے ، آپ کی سیرت نگاری
کا مکمل طور پراحاطہ تو اس مختصرسے مضمون میں مشکل ہے تاہم آپ کی سیرت
نگاری کی چند جھلکیاں اور چند اہم کتب و مقالات کے عنوانات شائقین علوم
سیرت نبوی ﷺ کے لیے پیش ہیں ۔
مکی عہد نبوی ﷺ میں اسلامی احکام کا ارتقا،عہد نبوی کاتمدن ۔ نبی اکرم اور
خواتین ۔ایک سماجی مطالعہ، مکی عہد میں مسلم آبادی ایک تجزیاتی مطالعہ،
بعثت نبوی سے قبل عصمت نبوی ، عہد نبوی کی تنظیم وریاست، عہد نبوی میں فوجی
تنظیم ، عہد نبوی کی انتظامیہ ، عہد نبوی کامالی نظام ، عہد نبوی کامذہبی
نظام، عہد نبوی کی اقتصادی جہات، عہد نبوی کی مسلم معیشت میں احوال غنیمت
کا تناسب ، بنوعبد مناف عظیم تر متحدہ خاندان رسالت ، بنو ہاشم اور بنو
امیہ کی رقابت کا تاریخی پس منظر، بنو امیہ اور بنو ہاشم کے ازدواجی تعلقات
، معیشت نبوی مدینہ منورہ میں ، مکی مواخات اسلامی معاشرہ کی اوّلین تنظیم
، مکہ اور مدینہ کے تعلقات ،ازواج مطہرات کے مکانات ایک مطالعہ ،حدیث
قرطاس۔ایک مطالعہ ، سیرت نبوی کے مأخذپر جدید اردو تحقیقات ، عہد نبوی اور
خلافت اسلامی میں وصیت کی روایت ، سیرت نگاری کا صحیح منہج وغیر ہ ۔
ڈاکٹر صاحب ۹؍۱۰ مارچ ۲۰۱۴ء کو دو روزہ دورہ پر فیصل آباد تشریف لائے اور
مصروف ترین یہ دن گزارے ، مختلف علمی وفکری نشستوں سے خطاب کیا اور اہل علم
علماء وطلبہ اور عمائدین شہر سے ملاقاتیں کیں اور ان سے تبادلہ خیال کیا ۔
ڈاکٹر صاحب ۹ مارچ کی رات گیارہ بجے جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد پہنچے
۔ جامعہ کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد طیب صاحب،نائب صدرمولانا مفتی محمد
زاہدصاحب اور دیگر اساتذہ وطلبہ نے ان کا بھر پور استقبال کیا اور خیر
مقدمی کلمات سے نوازا ۔۹مارچ صبح دس بجے جامعہ کی وسیع وعریض مسجد میں طلبہ
، اساتذہ اور عوام الناس سے ڈاکٹر صاحب نے خطاب کیا ڈاکٹر صاحب نے اپنے
اختصاصی موضوع سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور عصر حاضر کے
حوالے سے مسلمانوں کے مختلف طبقات کو سیرت طیبہ کے اپنانے پر زور دیا
،ڈاکٹر صاحب کا خطاب سیرت طیبہ کے حوالہ سے اہم نکات پر مشتمل تھا،ڈاکٹر
صاحب نے تمہیدی باتوں میں فرمایا کہ مجھے جب بھی پاکستا ن آنے کاموقع ملا
ہے تو بہت ہی اعزازواکرام سے نوازا گیا ۔ اس کا شرف درحقیقت سب سے پہلے اﷲ
تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو جاتا ہے دوسرے درجے میں اس کا
شرف میرے والد گرامی کو جاتا ہے جنکا ذکر کرتے ہوئے میری آنکھیں بھر آتی
ہیں ، انہوں نے مجھے دنیاکی طرف سے ہٹا کر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے
در پر پہنچادیا ہے، میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تجھے اس لیے
نہیں پڑھایا کہ تم دنیا داروں کے قصے لکھو، بلکہ اس لیے پڑھایا ہے کہ تم
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان لکھو، چنانچہ تب سے ہی سیرت نبوی صلی اﷲ
علیہ وسلم کواپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے، ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ عصر
حاضر میں سیرت طیبہ کا مطالعہ نئی جہات کا متقاضی ہے ، اب سیرت کا مطالعہ
بیانیہ انداز میں کرنے کے بجائے موضوعی انداز میں کیا جائے، نبی اکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو موضو ع بنا کر ان کا سماجی مطالعہ
کیا جائے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کیا
جائے اور اس پر چھوٹے چھوٹے کتابچے اوررسالے لکھے جائیں اور سیرت کا نیا
نصاب ترتیب دیا جائے ، اس سلسلہ میں سیرت کا پہلامأخذ قرآن کریم ہے لہذا
سیرت سے متعلقہ قرآنی آیات کو جمع کرکے الگ کتاب لکھی جائے ، دوسرا مأخذ
حدیث ہے صحاح ستہ اور احادیث کی دیگر کتابوں سے سیرت سے متعلقہ تمام احادیث
کو جمع کرکے الگ کتاب تحریر کی جائے ، تیسر امأخذ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ
عنھم اجمعین کا اسوۂ حسنہ ہے کہ ان حضرات نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی
زندگی سے کیا سیکھا ہے اور پھر کس طرح دوسرے لوگوں کو سکھایا ہے اس انداز
سے سیرت کے مطالعہ کی ضرورت ہے ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس اور سرکاری یونیورسٹیوں میں سیرت کا
نصاب ہی سرے سے شامل نہیں اگر کہیں ہے بھی تو بہت کم اور وہ بھی باقاعدہ
تدریس کا حصہ نہیں ،لہذا اس پر بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
احکام الہی ہمیں جتنے بھی ملے ہیں وہ سب کے سب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم
کے واسطے سے ملے ہیں ،نبی اکرم ہمیں اﷲ تعالیٰ سے جوڑنے کے لیے تشریف لائے
تھے ہمارے پا س جتنے علوم پہنچے ہیں وہ سب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے واسطے سے
پہنچے ہیں اس اعتبار سے آپ کی ذات مخلوق خدااور اﷲ تعالیٰ کے درمیان پُل کی
سی ہے، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں اپنے آپ تک محدود کرنے کے لیے نہیں بلکہ
اﷲ تعالیٰ تک پہنچانے کے لیے مبعوث ہوئے تھے ۔ لہذا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم
کی ذات سے اﷲ تعالیٰ کی ذات تک یہ تعلق مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کی دعا کے ساتھ یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی ۔
دوسرا پروگرام رفاہ یونیورسٹی فیصل آباد میں طے تھا، ۱۲بجے حضرت ڈاکٹر صاحب
مفتی محمد زاہد صاحب کی معیت میں رفاہ یونیورسٹی پہنچے جہاں پر شعبہ علوم
اسلامیہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مدثر احمد اور دیگر حضرات نے ان کا
استبقبال کیا اور ڈاکٹر صاحب کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔
رسمی ملاقات کے بعد ڈاکٹر صاحب دیگر مہمان شرکاء کے ہمراہ یونیورسٹی کے نئے
تعمیر شدہ شاندار اور کشادہ’’ خدیجۃ الکبرٰی ؓہال ‘‘ میں تشریف لے گئے جس
میں تقریب منعقد ہونا تھی، سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے اس نئے تعمیر شدہ ہال
کا دعائیہ کلما ت کے ساتھ افتتاح فرمایا، بعد ازاں باقاعدہ تقریب کا آغاز
ہوا جسکی صدارت مفتی محمد زاہد صاحب نے کی اور سب سے پہلے قرآن کریم کی
تلاوت کی گئی ،تلاوت کے بعد حدیث شریف اور اس کاترجمہ پڑھا گیا، اس کے بعد
یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا،جس
میں افتتاحی کلمات کے ساتھ ساتھ مہمان ذی وقار اور دیگر مہمان شرکاء ، طلبہ
اور اساتذہ کا شکریہ ادا کیا اور ان کی آمد پر انہیں خوش آمدید کہا، اس کے
بعد شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مدثر احمد نے ’’خدیجۃ
الکبرٰی ہا ل ‘‘ کی تعمیر اور اس کے نام کی وجہ تسمیہ پر روشنی ڈالی، ڈاکٹر
مدثر احمد کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل عالمی یو م مادر منایا گیا انہی
دنوں یہ ہال تعمیر ہورہا تھا، تو میرے دل میں یہ خیا ل پیدا ہوا کہ کیوں نہ
اس عالمی یوم مادر کے موقع پر ہال کا نا م امّ المؤمنین حضرت اماں خدیجۃ
الکبرٰی کے نام پر رکھا جائے جو مسلمانوں کی پہلی ما ں ہیں ، ڈاکٹر صاحب نے
اپنے اس عزم کا بھی اظہارکیا کہ یہ ہال حضرت خدیجۃ الکبرٰ ی کے نام پر ہے
اس لیے ماں کی عزت وحرمت کا لحاظ رکھتے ہوئے کبھی بھی اس ہا ل میں خلاف
شریعت ناچ گانا، موسیقی اور دیگر لہو ولعب کی تقریب منعقد نہیں کی جائے گی،
اس موقع پر ڈاکٹر صاحب کی آنکھیں بھر آئیں اور شرکاء کو بھی آبدیدہ کردیا
اور سامعین نے بھی خوب داد دے کر ڈاکٹر صاحب کی تائید کی، اﷲ تعالیٰ ڈاکٹر
صاحب کے اس عزم پر استقامت عطا فرمائے آمین ۔
اس کے بعد مہمان خصوصی ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی
۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطاب میں سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے
ہوئے امّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰ ی کے فضائل ومناقب اور خصائل وواقعات
بیان کئے اور اماں خدیجہ کا تذکرہ کچھ ایسے والہانہ انداز سے کیا کہ سامعین
عش عش کر اٹھے، ڈاکٹر صاحب نے کہا حضرت خدیجۃ الکبرٰی ؓ کی زندگی خواتین کے
لیے مشعل راہ ہے ان کا اشاعت اسلام کے لیے کردار ناقابل فراموش ہے، ان کی
زندگی جدید دور کی خواتین کے لیے قابل نمونہ ہے ، اسلام کے ابتدائی دور میں
جو کردار اماں خدیجہ ؓ نے ادا کیا ہے ، امت مسلمہ تا قیا مت اس کو بھول
نہیں پائے گی ۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اعانت کا حق ادا
کردیا ہے باقی صحابہ دعوت ملنے کے بعد ایمان لائے اماں خدیجہ ؓ دعوت ملنے
سے بھی پہلے ایمان لائیں اور مشکل وقت میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تسلی کا
باعث بنیں ۔ بعد ازاں تقریب کے صدر مفتی محمد زاہد صاحب کو صدارتی کلمات
ادا کرنے کے لیے دعوت دی گئی، مفتی صاحب نے اپنے خطا ب میں کہا کہ ڈاکٹر
یٰسین مظہر صدیقی صاحب اپنی گفتگو میں علمی وتحقیقی مضامین ونکات کچھ اس
انداز سے بیا ن کرتے ہیں کہ علمی پیاس بجھانے کی بجائے مزید بھڑکاتے ہیں
دوسری بات یہ ہے کہ بعثت نبوی ؐکے بعد حضرت خدیجۃ الکبرٰ ی سب سے پہلی سیرت
گو ہیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنے کی ابتدا کی
،ہماری خوش بختی ہے کہ نبی محترم کی پہلی سیرت گو کے نام سے منسوب ہال کا
افتتاح عصر حاضر کے عظیم سیرت نگار کے ہاتھوں ہو رہاہے ، اﷲ تعالیٰ اس حسن
اتفاق کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں ۔ آمین ،تیسری بات یہ ہے کہ نبی
محترم ﷺ پر سب سے پہلی وحی علم کے بارے ناز ل ہوئی ہے ، بعثت نبویؐ کے بعد
اس وحی کو سب سے پہلے جن کانوں نے سُنا وہ حضرت خدیجۃالکبرٰی ؓ کے کان ہیں
اور آج ایک عظیم تعلیم گاہ اور دانشگاہ کے ہال کو اماں خدیجۃالکبرٰ ی ؓ کے
نام سے موسوم کرنا ، جو علم کی روشنی پھیلنے کا پہلا ذریعہ بنی ہیں ،رفاہ
یونیورسٹی کے لیے ایک نیک فال ہے ۔اس خوبصورت تقریب کا اختتام پروفیسر
ڈاکٹرقاری محمد طاہر صاحب کی دعا سے ہوا ۔
تیسرا پروگرام نماز مغرب کے بعد جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے
دارالحدیث میں ’’سیرت طیبہ پر ایک اہم علمی وفکری نشست ‘‘کے عنوان سے منعقد
ہوا یہ نشست خاص طور پر دینی وعصر ی علوم کے شائقین اہل تحقیق کالجوں ،
یونیورسٹیوں کے پروفیسروں، ڈاکٹروں، دینی اسکالرز اور جدید تعلیم یافتہ
طبقہ کے لوگوں کے لیے مخصوص تھی ،جسکی صدارت رئیس الجامعہ مفتی محمد طیب
صاحب نے کی، خصوصی مہمان گرامی کی نشست پر رفیق امیر شریعت حضرت مولانا
مجاہد الحسینی مدظلہ برجماں ہوئے، تلاوت کلام پاک کی سعادت پروفیسر ڈاکٹر
قاری محمد طاہر صاحب نے حاصل کی، اس کے بعد نعت شریف پڑھی گئی ،نعت کے بعد
شیخ الحدیث مفتی محمد زاہد صاحب نے مہمان ذی وقار کا خوبصورت انداز میں
تعارف پیش کیا، بعد ازاں ڈاکٹر صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی، ڈاکٹر صاحب نے
اس تقریب میں بھی ماشاء اﷲ عنوان کی مناسبت سے بہت ہی مدلل پُر مغز،علمی
اور سیر حاصل گفتگو فرمائی، جسے سامعین نے بہت ہی ذوق وشوق سے سُنا اور اسے
بہت سراہا ،جس کا اندازہ گفتگو کے بعد شرکاء کی طرف سے پیش کئے گئے سوالات
سے ہوا چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے سوالات کا مدلل جواب دے کر سامعین کی تشفی کا
سامان فراہم کیا، اس علمی گفتگو کو اس کی اہمیت کے پیش نظر انشاء اﷲ الگ سے
قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے، بعدازاں جامعہ اسلامیہ امدادیہ
کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ایک اعزازی شیلڈ پیش کی گئی جسے الحاج
میا ں محمد ادریس صاحب( چیرمین ستارہ گروپ ) نے اپنے ہاتھوں سے پیش کیا اور
یوں یہ نشست مفتی محمد طیب صاحب کی دعا سے اختتام پزیر ہوئی ۔
اگلے دن ۱۰ مارچ ۲۰۱۴ ء کو 2بجے دن چوتھا اور آخری پروگرام ایوان صنعت
وتجارت فیصل آباد میں طے تھا ،چنانچہ ۲ بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب ایوان صنعت
وتجارت کنال روڈ فیصل آباد پہنچے، جہاں پرایوان کے صدر انجینئر سہیل بن
رشید نے دیگر ارکین ایوان کے ہمراہ ڈاکٹر صاحب کا استقبال کیا اور خیر
مقدمی کلمات سے نوازا، بعد ازاں ایوان کے ہال میں تقریب منعقد ہوئی جس کی
صدارت ایوان کے صدر انجینئر سہیل بن رشید نے کی، تقریب کا آغاز قرآن کریم
کی تلاوت سے ہو ا، شرکاء کی خواہش پر انجینئر سہیل بن رشید نے پُرسوز اور
خوبصورت انداز میں نعتیہ کلام پیش کیا جسے حاضرین نے بہت سراہا ۔ اس کے
بعدصدر محفل نے اپنا صدارتی ـخطاب پیش کیا ،بعد ازاں مہمان کے تعارف کے لیے
مفتی محمد زاہد صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی، مفتی صاحب نے اپنے خطاب میں
ڈاکٹر صاحب کا تعارف کراتے ہوئے کہا، اس وقت ہمارے درمیان تشریف فرما معزز
مہمان ذی وقار ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی بڑی علمی شخصیت ہیں، ڈاکٹر صاحب
تین اہم تعلیمی وتربیتی درسگاہوں سے وابستگی رکھتے ہیں جو اپنے دور میں
رجحان ساز کے طور پر مشہور ہوئی ہیں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو ،جامعہ
ملیہ اسلامیہ دہلی اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا ۔ ڈاکٹر صاحب اردو،
عربی ، انگریزی میں پچاس سے زائد کتب اور پانچ سو کے لگ بھگ علمی وتحقیقی
مقالات اہل علم کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں، ڈاکٹر صاحب کا اختصاصی موضوع
سیرت طیبہ ہے اور ڈاکٹر صاحب واحد غیر ملکی مصنف ہیں جنکو حکومت پاکستا ن
نے قومی سیرت کے ایوارڈ سے نوازا ہے، ڈاکٹر صاحب بجا طور پر ہمارے عہد کی
قابل استفادہ اور قابل نمونہ شخصیت ہیں، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کو خطاب کی
دعوت دی گئی، ڈاکٹر صاحب نے یہاں’’ عہد نبویؐ میں تجارت وصنعت ‘‘ کے موضوع
پر لاجواب خطاب کیا ،ڈاکٹر صاحب نے قبل از اسلام اور اسلامی ادوار میں
تجارت اور کاروباری طور طریقوں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ تاجر حضرات نبی
محترم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم پیشہ ہیں اس لیے یہ باقی تمام طبقات سے افضل
ہیں ،ویسے تو تمام مسلمان اپنے مذہب سے وابستگی اور نبی محترم صلی اﷲ علیہ
وسلم کے امتی ہونے کا ناطے یکساں حیثیت رکھتے ہیں لیکن تاجروں کو حضور صلی
اﷲ علیہ وسلم کے پیشے سے وابستگی کی بنا پر خصوصی فوقیت حاصل ہے، ڈاکٹر
صاحب نے قبل ا ز بعثت اور بعثت کے بعد مکہ میں تجارت اور صنعت کی کون کون
سی صورتیں اور شکلیں رائج تھیں، اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
مکہ مکرمہ میں تجارت کے علاوہ دوسر ے کسب کے مواقع ممکن نہیں تھے، مکی دور
میں سب سے اہم پیشہ تجارت تھا اس لیے اس دور میں خواتین وحضرات تجارت کے
پیشے سے وابستہ تھے ، خود حضرت خدیجۃ الکبرٰی ؓ کی تجارت کی مثال بھی ہمارے
سامنے ہے ، ان سے نکاح کے بعد نبی محترم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عملاًخود
تجارت فرمائی ہے اور بین الاقوامی تجارت کی بنیاد رکھی ہے اور مختلف ممالک
کا تجارتی سفر فرمایاہے آپ کا یمن اور شام کا تجارتی سفر بھی اسی سلسلے کی
کڑی ہے، نبی محترم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے تین سو سال قبل قصی
بن کلاب نے سب سے پہلے تجارت شروع کی ہے اور اس وقت سے تجارت وجود میں آئی
ہے، اس مقصد کے لیے اہالیان مکہ دارالندوہ میں مشاورت کرتے تھے، دارالندوہ
درحقیقت ایوان صنعت وتجارت ہی تھا، اس وقت تجارت شرکت ومضاربت اور کمپنی کی
بنیاد پر ہوتی تھی، نبی محترم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہی تجارتی طریقہ اختیار
کیا ہے ، سود سے پاک مالیاتی نظام کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کااسوۂ حسنہ بھی یہی ہے، سود کی حرمت کا تصور اکابر قریش میں بھی موجود
تھا، لیکن بعض لوگ زیادہ سے زیادہ مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے سودی
کاروبار کرتے تھے، نبی محترم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہی سود سے پاک مالیاتی
نظام کا تصور پیش کیا اور سود سے قطعی طور پر منع کردیا ، کچھ چیزیں ہمیشہ
ہر شریعت میں حرام رہی ہیں مثلاً سود ، خنزیر ، شراب ، زنا اور قتل ۔ سود
کو کسی بھی مذہب نے جائز قرار نہیں دیا ، بینکاری نظام کو اسلامی مالیاتی
نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے علما ء اور بینکاروں کے درمیان قریبی رابطے
ضروری ہیں ۔ اسلامی مالیاتی نظام میں شرکت ومضاربت کا ذکر موجود ہے جس کے
تحت کاروباری لین دین اور منافع کی تقسیم کا طریق کا ر طے ہے تاہم اس کو
عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے علماء اور بینکاروں کے مابین
مشاورت کی اشد ضروت ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کی علمی گفتگو کے بعد سوال وجواب کی
طویل نشست ہوئی، ڈاکٹر صاحب نے شرکاء کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے ،
ایوان کے نائب صدر حاجی محمد اصغر صاحب نے اپنا سوال کرکے گویا شرکاء کو
حیرت واستعجاب میں ڈال کر چونکا سا دیا، اُن کا سوال یہ تھا کہ ہم چند
دوستوں نے مل کر شہر کے مختلف علاقوں میں مفت دسترخوان اور لنگر خانے قائم
کئے ہیں، کچھ عرصہ کے بعد ہم نے سروے کرایا، تو پتہ چلا ہمارے مفت
دسترخوانوں سے بے فکری ، بے راہ روی،آوارہ گردی اور مفت خوری کارجحان پیدا
ہورہا ہے، جس سے بے روزگاری کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے، پہلے غریب طبقہ
کے نوجوانوں کو گھر والے محنت مزدوری کے لیے صبح بھیجتے تھے وہ روزی کی
تلاش میں پورا دن سرگرداں رہتے تھے اور انہیں روز ی مل بھی جاتی تھی ، اُن
کو اپنے کھانے کی فکر کے ساتھ ساتھ گھر والوں کو کھلانے کی فکر بھی ہوتی
تھی، اس لیے روزی کی تلاش میں وہ خوب محنت کرتے تھے ، اب اُن کو دونوں وقت
مفت کھانا مل جاتا ہے اس لیے وہ روزی کی تلاش سے بے فکر ہوجاتے ہیں اور
معاشرے کے بگاڑ اور فساد کا سبب بن رہے ہیں، اب اِن حالات میں ایسے مفت
دسترخوانوں اور لنگر خانوں کو بند کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے اور دوسری طرف
یہ احساس بھی دامن گیر ہے کہ خود اپنے ہاتھوں سے ایسے لوگ پروان چڑھارہے
ہیں جو معاشرے کے فساد وبگاڑ کا ذریعہ اور بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن
رہے ہیں ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے، ڈاکٹر صاحب نے اس کا جواب یہ
دیا کہ ایسے مفت دستر خوان اور لنگر خانے جو نوجوانوں کو مزید بے روزگار
،بے فکر،آوارہ گرد اور معاشرے کے بگاڑ کاسبب بننے والے نوجوان پیدا کررہے
ہوں، قائم کرنا جائز نہیں اُن کو بند کردینا چاہیے ۔ آخر میں مفتی محمد طیب
صاحب کی دعا کے ساتھ یہ باوقار علمی نشست برخاست ہوئی، اس کے بعد ڈاکٹرصاحب
جامعہ امدادیہ واپس لوٹے اور نماز عصر پڑھ کر سرگودھا کے لیے عازم سفر ہوئے
۔ اﷲ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کا سایہ صحت وعافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھے آمین
۔ |