قائد کی بصیرت اور ہندو کا رویہ

تحریر:محمد قاسم حمدان

اس وقت ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی کسمپرسی دیکھ کر یقین محکم ہوتاہے کہ اگر23مارچ 1940ء کوتحریک پاکستان کاسفر شروع نہ ہوتااوربانی پاکستان کی مدبرانہ قیادت میں پاکستان قائم نہ ہوتاتومسلمان ہندوستان کے دلت اوراچھوت ہوتے۔ہندوؤں کی متعصبانہ پالیسیوں کانتیجہ ہی تھاکہ مسلمانوں میں علیحدہ وطن کی سوچ ایک نظریہ اورعقیدہ کی صورت میں پنپنے لگی۔تقسیم بنگال کاواقعہ خصوصی اہمیت کامظہرہے۔ تقسیم بنگال کے پس پردہ انگریز کی مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی‘بلکہ تقسیم بنگال ان کے لیے محض انتظامی مسئلہ تھا۔بنگال ایک وسیع وعریض صوبہ تھا جس کی آبادی 1903میں سات کروڑ تھی۔ ایک لیفٹیننٹ گورنرکے بس میں نہ تھا کہ وہ وہاں کے انتظامات کو بخوبی چلاپاتا۔اس کااندازہ اس بات سے بھی ہوتاہے کہ لارڈ کرزن اپنی پانچ سالہ مدت ملازمت میں ایک دفعہ ڈھاکہ اورچٹاگانگ کادورہ کرپایا۔

18اکتوبر1905ء کوتقسیم بنگال سے ایک نیاصوبہ وجودمیں آیا جس کا رقبہ 1065000 مربع میل اورآبادی31ملین تھی جس میں دوتہائی سے زائد مسلمان تھے۔ تقسیم بنگال سے مسلمانوں کوآگے بڑھنے کاموقع ملا۔ 1905ء میں مسلم اکثریتی صوبے کے پرائمری سکولوں میں ان کی تعداد 317699 تھی جبکہ 1911ء میں یہ تعداد451157 ہوگئیؒاسی طرح کالجزمیں 8869 طلباء سے بڑھ کرتعداد 20729 ہوگئی۔ سینکڑوں میل ریلوے لائن بچھائی گئی۔بنگال اورآسام میں24ہزار میل لمبی آبی شاہراہ کو بہتر بناکرسٹیمرسروس شروع کی گئی۔

1905ء میں 68918ٹن پٹ سن کے مقابلے میں1911ء میں 70272050 ٹن پٹ سن برآمد ہوئی ۔گویا تقسیم بنگال مسلمانوں کے لیے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی۔ ہندو مسلمان کو کیسے خوش حال دیکھ سکتے تھے۔انہوں نے سودیشی تحریک شروع کی۔16اکتوبر کویوم سیاہ منایا۰ مرن برت رکھا ۔سریندرناتھ ‘بینرجی نے اس تقسیم کوبم کاگولہ پھٹنے سے تشبیہ دی کیونکہ عدلیہ سے لے کر میڈیااورتجارت سے لے کر ایوان اقتدار تک ان کے مفادات کاجنازہ نکل گیاتھا۔ بالآخر 12دسمبر1911ء کوشہنشاہ جارج پنجم نے اس سکیم کے خاتمے کااعلان کیا تو ہندؤوں نے خوب جشن منایااور 12دسمبر کوقومی تہوار میں شامل کرلیا لیکن ان کے رویے نے ثابت کردیا کہ مسلمان اگر ہندوستان میں اپناتشخص برقرار رکھ سکتے ہیں تو انہیں علیحدہ ملک بنانا پڑے گا۔ ہندؤوں نے قدم قدم پرمسلمانوں کی اس سوچ کومضبوط کیا۔

1937ء کے انتخابات نے منظرنامے کواوربھی واضح کردیا۔ایک کانگریسی اخبار نے صاف لکھ دیاکہ انتخابات میں واضح کامیابی سے ہندؤوں کوغلط فہمی ہوگئی کہ اب ہندو راج کا آفتاب نکل آیاہے۔ اس لیے انہیں مسلمانوں کے ساتھ حکمرانوں کاساسلوک کرناچاہئے۔

1935ء ایکٹ میں گورنروں کواقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی اختیارات حاصل تھے۔ کانگریس نے محض مسلمانوں کے حقوق غضب کرنے کے لیے اعلان کردیا کہ وہ اس شرط پر وزارتیں بنائے گی کہ اسے یقین دلایاجائے کہ گورنراقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی اختیارات استعمال نہیں کریں گے۔ یوپی اسمبلی جہاں مسلم لیگ نے 66 نشستیں حاصل کی تھیں ۔چودھری خلیق الزماں وہاں مسلم لیگ کے پارلیمانی صدر تھے۔ کانگریس نے مسلم لیگ کواقتدار میں شامل کرنے کے لیے کچھ ذلت آمیز شرائط رکھیں جو اس طرح تھیں۔

صدرکانگریس مولاناآزاد نے لکھا کہ مسلم لیگ کواسی صورت وزارت میں شامل کیاجاسکتا ہے کہ یوپی مسلم لیگ کوتوڑدیاجائے۔مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ توڑ دیاجائے اورآئندہ کسی انتخاب میں مسلم لیگ کواپنے ٹکٹ پرامیدوار کھڑے کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔مزید یہ کہ اسمبلیوں میں کانگریسی ضابطہ اخلاق پرعمل کرناہوگا۔کانگریس نے حکومت سنبھالتے ہی ترنگے کوقومی جھنڈا اوربندے ماترم کوقومی ترانہ قراردے دیا۔
لارڈزٹ لینڈنے اس ترانے کے بارے میں وائسرائے ہندکولکھا تھاکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ گیت نہیں بلکہ اعلان جنگ ہے جو ہندؤوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنی قومی تحریک کی خاطر وضع کیاتھا۔ 1937ء میں واردھا تعلیمی سکیم کانگریس نے مسلط کی جس کامقصد دوقومی نظریہ کومٹاناتھا۔ کانگریس نے اُردوکی جگہ ہندی کوقومی زبان قراردیا۔1938ء میں قائداعظم نے دلی میں تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ہندی کاجبری نفاذ اسلامی تمدن اوراردوزبان کے لیے پیغام مرگ ہے۔ کانگریس اورہندورہنماؤں کے رویے سے ہی مسلمانوں میں علیحدہ وطن کی سوچ نے جنم لیااور 23مارچ1940ء کی قرارداد اس کانکتہ آغاز قرار پائی۔مگراس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ قائداعظم نے مسلمانوں کے تشخص کے برقرار رہنے کی صورت میں متحدہ ہندوستان کوبھی قبول کرناگوارا کیا۔

شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعدحکومت برطانیہ نے سٹیفورڈ کرپس کی قیادت میں ایک وفد بھیجا جس نے کابینہ مشن پلان پیش کیا۔اس مشن کی تجاویز کے مطابق صوبوں کے تین گروپ بنا دئیے جائیں گے۔ گروپ اے میں ہندواکثریت کے صوبے ‘گروپ بی میں مسلم اکثریتی صوبے اور گروپ سی میں بنگال اور آسام ہوں گے۔ صوبے اورریاستیں بنیادی اکائیاں ہوں گی اور مرکزی امور کے علاوہ تمام باقی ماندہ اختیارات صوبوں کی تحویل میں ہوں گے۔ اسی طرح کوئی بھی صوبہ اپنی اسمبلی کے اکثریتی ووٹ کے ذریعے دس سال بعد یاہردس سال بعدآئین کی شرائط پراز سر نو غورکرنے کی فرمائش کرسکے گا۔

کابینہ مشن کے اس اعلان پرکانگریس اورہندؤوں نے خوب بغلیں بجائیں۔ نہرو کے روزنامے نیشنل ہیرلڈ نے لکھاکہ جناح کے نظریہ پاکستان کوکابینہ مشن میں سرکاری طورپر دفن کردیا گیا ہے۔ اخبارآبزرورنے بھی لکھاکہ کانگریس اس منصوبے کوخوش آمدید کہنے کی گنجائش نکال سکتی ہے کیونکہ مشن نے مسلمانوں کے پاکستان کے خواب کوسرے سے خارج کردیاہے۔

ادھرقائداعظم نے لیگ کونسل سے مشاورت شروع کی۔ لیگ کے خیال میں چھ مسلم صوبوں کی گروپنگ کی شکل میں پاکستان کی بنیاد مشن کے پلان میں موجودتھی۔ لیگ اس نکتہ پر پہنچی کہ پلان بالآخر ایک مکمل اورخودمختار پاکستان کی شکل میں منتج ہوگا۔ لیگ نے غیرمبہم الفاظ میں اعلان کیاکہ پلان منظورکرلینے کے باوجود ایک مکمل اورخودمختار پاکستان کاحصول بدستور مسلم ہند کا اٹل مقصدرہے گاجس کے حصول کے لیے وہ اپنی مقدور بھرطاقت استعمال کریں گے۔ اس فکر کے تحت قائداعظم نے کابینہ مشن پلان کی منظوری دے دی لیکن اس کے بعد’’میں ہوا کافر توکافر مسلمان ہوگیا‘‘والی بہت دلچسپ صورت بن گئی۔ وہی کانگریس جسے اس پلان میں پاکستان کی تدفین نظرآرہی تھی‘اب اسے اس میں پاکستان کی روح نظرآنے لگ گئی۔

ہندولیڈراورہندومیڈیا نے آسمان سرپراٹھالیا۔وہ اپنے مہاتماؤں کوچیخ چیخ کر باور کرانے لگے کہ کابینہ مشن کوکسی صورت قبول نہ کرنا۔روزنامہ امرت بازار پتریکا نے پلان کوزہر قرار دیااورکانگریس پرزور دیا کہ وہ یہ زہراپنے حلق میں نہ اتارے۔ ہندوستان ٹائمز نے اس سکیم کی مذمت کی۔ روزنامہ ٹریبیون نے لکھا کہ مسٹرجناح نے پاکستان کی روح حاصل کرلی۔ بنیئے کو یہ خوف لاحق ہواکہ د س سال بعد کہیں مکمل پاکستان معرض وجودمیں نہ آجائے اورپھر پوراآسام‘ پورا بنگال‘پنجاب نہ دیناپڑجائے۔ کانگریس نے اس پلان کی اسی سوچ کے تحت دھجیاں اڑاناشروع کردیں اور یہ پلان ناکام ہوگیا لیکن اس سے دوباتیں نکھرکرسامنے آئیں۔ایک تووہ لوگ جومتحدہ ہندوستان کے حامی تھے اورقائداعظم کواس وقت اورآج بھی مطعون کرتے ہوئے بٹوارے کاانہیں ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور پھردور کی کوڑی لاکریہ فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ آج اگرہندوستان متحد ہوتا تو مسلمان قوت بن کراقتدارحاصل کرلیتے لیکن قائدتومتحدہ ہندوستان پربھی راضی تھے۔ بشرطیکہ مسلمانوں کو ان کے حقوق ملتے جس کی کانگریس سے کوئی اُمیدنہ تھی۔

اگرکانگریس کوقومی جماعت کہہ کر زمام اقتدار اسے سونپ دی جاتی توپھراگلے ہزار سال تک مسلمان ہندوکے غلام ہی رہتے۔سارے ہندوستان کی مساجد بابری مسجد جیسے انجام سے دوچار ہوتیں اور ہر روز گجرات جیسے خون آشام دن دیکھنے پڑتے۔ یہ توقائداعظم کی دوربین نگاہیں تھیں جنہوں نے کسی صورت برصغیر کے مسلمانوں اورنظریہ پاکستان پرکوئی سودانہ کیااورہمیں اسلام کا قلعہ پاکستان دلادیا۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197275 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.