23مارچ اور بھگت سنگھ

 تحریرمحمد عظیم دت ایڈووکیٹ

ہندوستان کی تحریک آزادی میں بے شمار لازوال کردار ہیں جنکی کوششوں سے آج ہم انگریز سامراج کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کر کے آزادی کی سانس لے رہے ہیں ان میں ایک شخص جو دار پر جھول کر رہتی دنیا تک امر ہو گیا اسکی قربانی سے ہم اسکو شہید بھگت سنگھ کے نام سے جانتے ہیں۔ 28 ستمبر 1907 کو اپنے والد کشن سنگھ،اور والدہ ودیا وتی کے گھر چک نمبر 105 گ۔ب جڑانوالہ ضلع لا ئلپور میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم اور انقلابی شعور گھر میں ہی پیدا ہوا۔ اس کے والد اور چچا اجیت سنگھ اور سورن سنگھ انگریزوں کے دور میں تحریک آذادی کے سلسلے میں جیل یاترا کر چکے تھے۔اگر چہ اس کے دادا ارجن سنگھ ،سوامی دیانند سرسوتی کے پیروکار تھے جو ہندو سماج کی ایک فلاحی تحریک تھی۔

بھگت سنگھ کے بچپن کے تمام دوست خالصہ ہائی سکول میں زیر تعلیم تھے دادا نے اسکو خالصہ ہائی سکول میں داخل نہ کرایا کیونکہ یہ سکول انگریز حکام کی وفاداری کی تعلیم دیتا ہے۔ اسکو دیانند ویدک ہائی سکول میں داخل کرایا جو آریا سماج کا ہائی سکول تھا۔ جہاں ا س کا ذہن ایک غیر متعصب ،انسان دوست، مزدور،کسان ہمدرد اورغیر طبقاتی معاشرہ کی ترویج اور پسے ہوئے طبقات کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والے شخص کے طور پر تیار ہوا اور سامراج سے نفرت اسکے ذہن میں پروان چڑھی۔ کم عمری میں ہی بھگت سنگھ تحریک آزادی کے جلسوں میں شریک ہونے لگا ۔12 سال کی کم عمری میں وہ 1919 کوجلیانوالا باغ میں ہونے والے دلسوز سانحے کا عینی شاھد تھا جہاں ہزاروں نہتے انسانوں کو شہید کیا گیا۔

14 سال کی عمر میں 20 فروری 1921 میں ننکانہ صاحب گوردوارا میں نہتے انسانوں کو تہ تیغ کیا گیا۔ اسی بنا پر وہ گاندھی جی کی عدم تشدد کی تحریک سے بھی متنفر ہوااسکا نظریہ تھا کہ گولی کا جواب گولی سے ہی دیا جا سکتا ہے۔ترک ِموالات کی تحریک کے دوران وہ کانپور مولانا حسرت موہانی سے ملنے اوراس تحریک کو مزید تیز تر کرنے کی گائیڈ لائن لینے گے اس دوران مولانا کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان حالات میں بھگت سنگھ نوجوانوں کی انقلابی تحریک میں شامل ہو کر نوجوانوں کو متحرک کرنے لگا۔ 1923 میں نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لیا جس کے بانی لالہ لاج پت رائے تھے ۔جہاں نصابی سرگرمیوں کے علاوہ ڈرامیٹک سوسائٹی میں حصہ لیکر انقلابی انداز کے ڈراموں کو سٹیج کر کے لوگوں کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مسائل غربت،جہالت،بیروزگاری،اور سامراجی لوٹ مار کو تشت از بام کیا ۔ اسی دوران اسکی حرکات پولیس،اور خفیہ والوں کی نظر میں آنی شروع ہو گئیں۔

1927 میں چھبیس سال کی عمر میں والدین نے اسکے پاؤں میں شادی کی زنجیر ڈالنے کا سوچا اور اس سے مشورہ کیا تو وہ ایک خط چھوڑ کر کانپور مولانا حسرت موہانی کے پاس چلا گیا۔ خط کیا تھا، جو ایک انقلابی کی سوچ ہوتی ہے۔ـــ میری زندگی میرے دیش کی امانت ہے میں نے اپنی زندگی اپنے دیش کی آزادی ،اس کے مظلوم عوام ،اور طبقاتی معاشرے کی فلاح اور دیگر اعلی و ار فع مقاصد کے لیے وقف کر دی ہے۔ زندگی کی آسائشیں مجھے متوجہ نہیں کر سکتیں۔ اور نہ ہی میرے لیے ان میں کوئی کشش ہے۔میرا عشق صرف اور صرف میرے دیش کی آذادی ہے۔

بطور سیاسی کارکن
آریہ سماج کی تربیت کے زیر اثر وہ شخص غیر متعصب تھا اس لیے اس نے مذ ہبی اعتبار سے لبرل جماعت نوجوان بھارت سبھا میں شرکت کی جس میں اس عہد کے نامور حضرات میں مولانا حسرت موہانی، مولانا عبدالرحیم پوپلزئی جیسے جید عالم بھی شامل تھے۔لیکن بہت جلد اس سیماب صفت شخص نے نوجوان بھارت سبھا کو الوداع کہ کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کو جوائن کر لیا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ کرتی کسا ن پارٹی (مزدورکسان پارٹی ) میں کام کرتا رہا۔ 1928 میں دہلی میں آل انڈیا کے انقلابیوں نے اپنے اجلاس میں بھگت سنگھ کو کرتی کسا ن پارٹی کا جنرل سیکریٹری چن لیاگیا۔

بطور صحافی
بھگت سنگھ جب کانپور حضرت مولانا حسرت موہانی کے پاس پہنچا تو ان کے اخبار اردو معلٰے میں مضمون لکھنے شروع کیے۔ اس نے اردو اور پنجابی میں برطانوی توسیع پسندی کے خلاف ڈٹ کر مضمون لکھے ۔دہلی سے نکلنے والے اخبار ویرارجن ، اخبار کرتی ، میں وہ باقاعدگی سے لکھتا رہا۔

1928 میں سائمن کمیشن جو سائمن کی سربراہی میں ہندوستان کی بے چینی کے اسباب کا جائزہ لینے کیلئے ہندوستان آیا وہ لاہور پہنچا تو لالہ لاجپت رائے کی سربراہی میں ایک پر امن جلوس نکالا گیاجس پر پولیس نے شدید لاٹھی چارج کیا جس سے لالہ لاجپت رائے شدید زخمی ہو کر چل بسے۔ بھگت سنگھ،لالہ لاجپت رائے سے بہت متاثر تھے۔بھگت سنگھ نے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ اس نے راج گرو،سکھ دیو،سے مل کر سکاٹ جو لاٹھی چارج کرنے کا ذمہ دار تھا کوٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا۔ اور اس پر گولی چلائی۔لیکن ایس۔پی جان سنڈرس مارا گیا۔اس کے بعد وہ روپوش ہو گئے۔ 8اپریل 1929کوبھگت سنگھ نے، باتوکشور دت کے ساتھ ملکر لاہور میں پنجاب اسمبلی میں ،انقلاب زندہ باد ،جئے ہندوستان، کے نعرے لگاتے ہوئے دو بم پھینکے۔ جس سے بہت سے ممبران اسمبلی زخمی ہوئے۔

7 مئی 1929کو بھگت سنگھ اوردیگر سیکڑوں انقلابیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔اور ان پر مقدمہ چلا۔ میانوالی جیل میں ان قیدیوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔اس جیل میں یورپین قیدی بھی تھے۔ہندوستانی قیدیوں اوریورپین قیدیوں میں ایک غیر انسانی تفریق تھی۔یورپین قیدیوں کیلئے خوراک،پوشاک،غسل،اور دیگر لوازمات اعلی معیار،کے تھے۔جبکہ ہندوستانی قیدیوں کو انتہائی گھٹیا معیار کی اشیائے خوردونوش دی جاتی۔اس انسانی تفریق کے خلاف ان انقلابیوں نے بھوک ہڑتال کر دی۔جس کی وجہ سے پورے ہندوستان میں تھرتھلی مچ گئی۔

محمد علی جناح : نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ہندوستانی انگریز حکمرانوں کے خوب لتے لئے۔انہوں نے کہا کہ یورپ میں ہی نہیں ہندوستان میں بھی انسان بستے ہیں۔انہوں نے غیر انسانی تفریق کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔

جواہر لال نہرو: میانوالی جیل میں بھگت سنگھ اوردیگر انقلابیوں سے ملنے کے بعد کہا کہ مجھے ان بہادروں کو دیکھ کر انتہائی اذیت ہوئی ہے ان قیدیوں سے انسانوں جیسا سلوک اور یورپین قیدیوں جیسا سلوک ہونا چائیے۔

مہاتما گاندھی: کتنے دکھ کا مقام ہے کہ مہاتما گاندھی جیسا لیڈر ۔ مہاتما۔عظیم روح۔ یہ کہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ میں عدم تشدد کاپرچارک ہوں میں ان تشدد پسندوں کی حمائیت نہیں کر سکتا۔ جبکہ پوراہندوستان ان عظیم ہندوستانی قیدیوں کی حمائیت میں سراپا احتجاج تھا۔

آخر 63 دنوں کی اس بھوک ہڑتال کے بعد جیتندر داس ، اور پریم دت انتقال کر گئے۔ان عظیم ہندوستانی قیدیوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔بھگت سنگھ،سکھ دیو ،راج گرو، اور کئی سرکردہ سیاسی انقلابیوں پر سپیشل ٹریبونل بنا کر پونچھ ہاؤس لاہور میں مقدمہ چلا کر 7 اکتوبر 1930 کوسزائے موت سنا دی گئی۔جب ان کو اپیل کے فارم دستخط کرنے کے لیے دیے گئے تو ہندوستان کے ان عظیم جانثاروں نے یہ کہ کر ان اپیل کے فارموں کو پھاڑ دیا کہ ہم جن غاصبوں کے خلاف لڑ رہے ہیں ان سے زندگی کی بھیک مانگیں۔یہ ناممکن ہے۔

پوراہندوستان ان عظیم ہندوستانی جانثاروں کے لیے سراپا احتجاج تھا۔اور پر زور مطالبوں کے باوجود ان کی سزا بحال رکھی گئی۔

23 مارچ 1931 کو میانوالی جیل میں ہندوستان کی آذادی کے نغمے گاتے اور نعرے لگاتے ہوئے تختہ دار پر جھول کر ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔

مجسٹریٹ موقع نے آخری خوائش پوچھی تو ان وطن کے متوالوں نے کہا کہ ایک تو ہمیں اکھٹے پھانسی دی جائے دوسرا ہمارے منہ پر کنٹوپ (کالے غلاف) نہ چڑھائے جائیں ہم آخری دم تک اپنے دیش کو دیکھنا چاھتے ہیں۔

ٹھیک نو سال کے بعد اسی روز 23 مارچ 1931کو اسی شہر لاہور میں جہاں بھگت سنگھ کو سزائے موت سنائی گئی ۔ ان قربا نیوں کے طفیل وہاں 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان منظور ہوئی۔ اس روز کو اگر ہم یوم آزادی مناتے ہیں تو ان شہیدوں کی قربانیوں کو بھی بغیر کسی تعصب کے یاد رکھنا چائیے۔ جنہوں اپنا آج ہمارے کل کیلئے قربان کیا تھا۔

Mian Shafiq Shafiq
About the Author: Mian Shafiq Shafiq Read More Articles by Mian Shafiq Shafiq: 3 Articles with 2019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.