خلیفہ ہارون الرشید کی محبوب ملکہ 193ہجری کو حج کی
سعادت حاصل کرنے کے لیے جب مکہ گئیں تو اس وقت وہاں پانی کی شدید قلت تھی۔
وہ لوگوں کی پریشانی دیکھ کر انتہائی غمزدہ ہوئیں اور اس مسئلہ کے حل کیلئے
نہر کی کھدائی کا فیصلہ کیا۔ حج کی سعادت حاصل کر لینے کے بعد جب واپس
بغداد پہنچی تو سب سے پہلے دنیا کے ماہر انجینئروں کو اکٹھاکیا۔ جنہوں نے
اس چینلج کو قبول کرتے ہوئے سروے کا کام شروع کر دیا اور تمام انجینئرز اس
متفقہ فیصلہ پر پہنچے کہ وادی حُنین سے مکہ تک تقریباً35 کلومیٹر کے فاصلے
پر نہر کھود کر پانی پہنچایا جا سکتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں سڑکیں بنانا تو
نہایت آسان ہے لیکن پتھریلے علاقہ میں ہموار سطح پر نہریں بنانا انتہائی
کٹھن کام ہے اوپر سے موسم بھی سخت گرم ہو اور پتھر بھی آگ اگل رہے ہوں۔ جب
جذبے صادق اور مقاصد نیک ہوں تو مشکلیں آسان ہو جایا کرتی ہیں۔ ملکہ نے عزم
کر رکھا تھا اور وہ کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھیں۔ لہٰذا فوری طور
پر بے پناہ افرادی قوت اور پہاڑوں کو کاٹنے کے لیے زبردست مہارت کو بروئے
کار لایا گیا۔ ملکہ کا عزم ایک لمحے کو بھی متزلزل نہ ہوا۔ ملکہ ایک ٹھوکر
کے بدلے ایک درہم تک خرچ کرنے کو تیار تھیں۔ لہٰذا چند سال کی مشقت کے بعد
روئے زمین پر اپنے طرز کی عظیم تر نہر معرض وجود میں آچکی تھی۔ جس سے ملکہ
کے لوگوں حج و عمرہ پر جانے والے زائرین کے علاوہ زرعی ضروریات بھی پوری
ہونے لگیں۔ 3 میٹر گہری اور سوا میٹر چوڑی یہ نہر جبل رحمت کے ساتھ ساتھ
بہتی ہوئی عرفات منیٰ اور مزلفہ تک جاتی ہے۔ اس نہر نے تقریباً ایک ہزار
سال تک مقامی لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا۔ اب چونکہ جدید دور ہے اور بے
پناہ وسائل کے بل بوتے پر ان علاقوں میں پانی کثرت سے پایا جارہا ہے لہٰذا
اس نہر زبیدہ کو چالو رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ لہٰذا سعودی حکومت نے اس
نہر کو قومی ورثے کے طور پر محفوظ رکھنے کے احکامات صادر فرمادیئے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں کہ ایک کثیرالمقاصد قومی منصوبہ جس سے کروڑوں
انسانوں کا مستقبل وابستہ ہے کی طرف دھیان ہی نہیں دے رہے نہ جانے کن
خیالوں میں گم ہیں۔ حال ہی میں عوامی رائے لینے کے لیے پرائیویٹ سطح پر
سروے کا اہتمام کیا گیا تھا جس کو ریفرنڈم کا نام دیا گیا۔ جس ریفرنڈم میں
68 ہزار کے قریب پاکستانیوں نے حصہ لیا۔ ان میں سے 99 فیصد نے کالا باغ ڈیم
کی فوری ضرورت اور تعمیر کے حق میں رائے دی۔ لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔
آبی ماہرین چیخ چیخ کر خیبرپختونخواہ اور سندھ کے اعتراضات کو رد کر رہے
ہیں۔ کوئی بھی ان کے دلائل سننے کو تیار نہیں ہے۔ خیبرپختونخواہ کے حکمران
صوبہ کی زرخیز زمین کے بنجر ہونے کا بلا جواز واویلا مچا رہے ہیں حالانکہ
حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ڈیم 134500 ایکڑ رقبہ پر محیط ہوگا۔ جس میں 99500
ایکڑ بنجر زمین ہے اور صرف 3500 ایکڑ قابل کاشت زمین اس ڈیم کی زد میں آئے
گی۔ جس میں پھر 32000 ایکڑ زمین بارانی اور 3000 ایکڑ نہری ہے جس میں 2700
ایکڑ زمین پنجاب اور صرف 300 ایکڑ نہری زمین صوبہ خیبرپختونخواہ کی متاثر
ہوگی۔ جس کے بدلے بنوں ڈسٹرکٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے زرخیز رقبے اسی کالا
باغ ڈیم سے ہی سیراب ہونگے۔ جو کپاس گنا کی کاشت کے لئے ماہرین کی رائے میں
بھرپور فصلیں اگائیں گے جس سے ان علاقہ کے لوگوں میں خوشحالی آئے گی۔ سندھ
کے حکمران اپنے تعصب کی عینک اتار کر حقائق کا سامنا کریں کہ کالا باغ ڈیم
کی تعمیر کی صورت میں صوبہ کا پانی کا کوٹہ4.55 ملین ایکڑ فٹ سے بڑھ کر
4.70 ملین ایکڑ فٹ ہوجائیگا۔ اور فوری خریف کے لیے پانی صرف کالا باغ ڈیم
ہی سے مل سکے گا۔ کیونکہ سردیوں میں دریامیں پانی صرف 18فیصد رہ جاتا ہے
اور فوری فصل خریف کی کمی ذخیرہ کیے گئے پانی سے ہی حاصل ہوگی۔ سندھ کا سب
سے بڑا اعتراض کہ سندھ دریا کا پانی سٹور کر لیا جائیگا۔ جس سے زرعی مقاصد
میں کمی آئیگی اور یہی کمی سمندر میں پانی کا کھارا پن بڑھائے گی۔ اور زرعی
زمینیں بنجر ہوجائیں گی۔ اس سلسلے میں ماہرین آب واضح کر چکے ہیں کہ ڈیم کو
صرف مون سون کی بارشوں سے بھرا جائیگا اور یوں کل پانی جو کہ 40 ملین ایکڑ
فٹ سمندر میں ضائع ہو رہا ہے اس میں سے صرف 6 ملین ایکڑ فٹ ذخیرہ کیا
جائیگا اور باقی 34 ملین ایکڑ فٹ سمندر کے کھارے پن سے زرخیز زمینوں کے
بچائو میں حددرجہ معاون و مددگار ہوگا۔ اب جبکہ ہمارے حکمران اس پوزیشن میں
ہیں کہ وہ اپنے خیبرپختونخواہ اور سندھ کے اتحادیوں کو اپنے ذاتی اثرورسوخ
کے ذریعے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے رضا مند کر سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ
وہ دل سے پاکستان کے مخلص ہوں۔ اور ہمارے اپوزیشن رہنمائوں پر بھی یہ ذمہ
داری ہے کہ وہ اس قومی مسئلے کی طرف دھیان دیں اور اپنی خالص توجہ باری سے
پہلے اقتدار لینے کی بجائے ڈیم کی تعمیر پر مرکوز کریں۔ وقت گزرتے دیر نہیں
لگتی ان کی باری بھی آہی جائے گی اور تاریخ میں زبیدہ کی طرح زندہ رہیں گے۔
انڈین فور انجینئرنگ کور کی طرف سے سیاچن میں کی جانے والی ہزاروں میٹر
گہری کھدائی سے پاکستان کے لئے پانی کے بھاری ذخائر تیزی سے ختم ہونے کے
خطرات پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ جیوتھرمل توانائی کیلئے سیاچن پر
بھارتی فوجی ڈرلنگ نہ صرف انٹارکٹک ٹریٹی 1959ئ، میڈرڈ پروٹوکول اور ریو
کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ تنازع سیاچن کے حل میں بھی بھارتی فوج سب
سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 11 اور 12 جون کو دفاعی سیکرٹریوں کے درمیان سیاچن کو غیر
متنازع علاقہ بنانے کے سلسلے میں ہونے والی ملاقات بھی ناکام رہی۔ دونوں
ممالک کی فوجی سرگرمیوں سے سیاچن کے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھارت کے ساتھ تمام مسائل کو پُرامن طریقے سے حل
کرنے اور سیاچن کو ''غیر فوجی علاقہ'' قرار دینے کی تجویز پیش کی تھی لیکن
جنرل کیانی کی تجویز کا نئی دہلی کی طرف سے کچھ زیادہ گرمجوشی سے جواب نہیں
دیا گیا۔ بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے کہا کہ بھارتی فوج کی سیاچن
میں موجود پوزیشنوں سے انخلاء کے بارے میں سوال قبل از وقت ہے۔ بھارتی آرمی
چیف جنرل وی کے سنگھ کے مطابق جنرل کیانی کی طرف سے پُرامن حل کی تجویز
کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس کے ساتھ جنرل سنگھ نے سیاچن سے بھارتی فوج کے
انخلاء کو مسترد کردیا۔ بھارتی وزیر دفاع انتھونی کے مطابق ''ایک ایسا
مسئلہ جو ہمارے سلامتی کے لئے بہت اہم ہے اس پر کسی بھی ڈرامائی اعلان یا
فیصلے کی توقع نہیں کی جانی چاہئے''۔ اس سے ایک دن پہلے سکیورٹی پر بھارتی
کیبنٹ کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا جو بعد میں اخبارات کو بھیجا
گیا کہ نئی دہلی سیاچن میں اپنی فوجوں کی پوزیشن کو تبدیل نہیں کریگا۔
سیاچن پر قابض بھارت کا موقف غلط اور فوجی سرگرمیاں ماحول دشمن ہیں۔پاک فوج
کے ٹو اور چین سے پاکستان کو کاٹ دینے کے بھارتی منصوبے کو ناکام بنائے
ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج نے 1983ء سے سیاچن میں پہلے ہی ایک
ہزار مربع کلو میٹر علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے جبکہ 120 کلو میٹر لمبے
سالٹرو رینج کی طرف پیش قدمی کرچکا ہے اور بالترو رینج کی طرف مزید پیش
قدمی کرکے کے ٹو اور چین سے پاکستان کو کاٹ دینا چاہتا ہے۔ 29 سال سے
پاکستانی فوج سیاچن میں بھارتی فوجی پیشقدمی اور عزائم کیخلاف سینہ سپر ہے۔
جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ سیاچن میں کیا رکھا ہے؟ ان کے لئے یہی کافی
ہے کہ سیاچن پاکستان کے لئے سب سے بڑا پانی کا منبع اور واٹر بنک ہے۔ اپریل
1984ء میں بھارت کی طرف سے ''میگھ دوت'' نامی فضائی آپریشن کے ذریعے اہم
چوٹیوں اور پھر سالترو رینج کے ساتھ زمین سے بلند تقریباً تمام مقامات پر
قبضے سے قبل تک 70کلومیٹر طویل سیاچن کے بارے میں یہ تصور بھی محال تھا کہ
انسانی رسائی سے دور یہ گلیشیر دنیا کا ایسا بلند محاذ جنگ بن جائیگا جہاں
دو ملکوں کی فوجیں برس ہا برس سے ایک دوسرے کے مقابل موجود ہیں۔ شاید اسی
لئے 1948ء اور 1971ء کی جنگوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کئے گئے
معاہدے کشمیر کے جنوب مشرق کے ان علاقوں میں کسی سرحدی پٹی کا تعین یا
حدبندی نہیں کرتے۔ جولائی 1949ء میں کئے گئے کراچی معاہدے میں ایک جنگ بندی
لائن تشکیل دی گئی تھی جو 1972ء میں شملہ معاہدے کے بعد معمولی تبدیلیوں سے
لائن آف کنٹرول بن گئی۔ یہ پٹی سیاچن گلیشیئر کے جنوب میں گرڈ ریفرنس
NJ9842 سے موسوم مقام تک گئی۔
اس سے آگے کے علاقے کی حدبندی اس لئے غیرضروری سمجھی گئی کہ کسی کے وہم و
گمان میں بھی نہ تھا کہ علاقے کی بدلتی ہوئی جنگی حکمت عملی اور تزویراتی
کیفیت اسے متنازع بنا دیگی۔ اسی لئے دنیا بھر میں چھپنے والے نقشوں میں اسے
پاکستان کا علاقہ قرار دئیے جانے اور کوہ پیمائوں کو سیاچن کے ویزے اسلام
آباد سے جاری ہونے پر بھارت سمیت کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوا۔ تاہم 1983ء
میں گلیشیر کی چوٹیوں پر بھارتی قبضے اور بعدازاں اس کی پیش قدمی روکنے کے
پاکستانی فوجی اقدامات کے بعد تنازع کے سفارتی حل کی کوششیں کی گئیں۔ سیاچن
سے یکطرفہ انخلاء سے پاکستان ہزاروں کلو میٹر سرزمین سے محروم ہو جائیگا
جبکہ یکطرفہ طور پر انخلاء بھارتی فوجی قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنے کے
مترادف ہوگا۔28 سال پرانے تنازع پر پاک بھارت مذاکرات کے 13 دور ہو چکے
ہیں۔ حالیہ مذاکرات بھی مئی 2011ء میں ہونے والے مذاکرات کی طرح بے نتیجہ
رہے ہیں۔ یہ مذاکرات اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہوتے بشرطیکہ بھارت
1992ء میں ''فوجوں کی ازسرنو تعیناتی'' کے معاہدے سے پھرتے ہوئے موجودہ
پوزیشنوں کی کلی تصدیق پر اصرار نہ کرتا جس کا مقصد بھارت کے عمل کو قانونی
جواز دینا اور NJ9842 سے آگے کے علاقے میں حدبندی کا موقع حاصل کرنا
ہے۔پاکستان کی طرف سے بھارت کو دیئے جانے والے ان نان پیپر کے تحت اسلام
آباد چاہتا تھا کہ دونوں ممالک سیاچن کے مسئلہ پر 1989ء میں ہونے والے
معاہدہ پر کاربند رہیں جس میں تنازع علاقے سے باہر فوجوں کی تعیناتی،
نگرانی اور فوجی ماہرین سے تصدیق کے طریقہ کار کو متعین کرنے کا اصولی
اعادہ کیا گیا تھا اور NG9842 کے بعد لائن آف کنٹرول کی حدود کا تعین شامل
تھا۔ |