خوب کہا ہے سرتاج عزیز نے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر مال مفت ہے،
اسکے عوض ہمیں کچھ لینا دینا نہیں، ہوا یہ کہ افغان جنگ چھڑی تو امریکہ نے
پاکستان پر ڈالروں کی بوچھاڑ کردی دولت سبنھالے نہیں سبنھلتی تھی، وزیر نے
لوگوں کو سمجھایا کہ مال مفت نہیں ہے اسکے بدلے ہمیں کچھ دینا بھی ہے، اور
پاکستانی قوم کو بدلے میں جہاد کرنا پڑا اور اس جہاد کے بدلے میں ہمیں
ہیروئن کلاشنکوف اور دہشت گردی کے تحفے ملے۔ ضیاالحق نے بیچ میں دائو لگا
کر ایٹم بم بھی بنا لیا اور امریکیوں کو کہنا پڑا کہ پاکستان نے سرخ بتی
پار کرلی ہے۔
تو صاحبو یہ جو ڈیڑھ ارب کی خطیر رقم سعودی عرب نے دی ہے یہ بھی مفت ہی
سمجھوں اس پر ہر طرح کے ٹیوے لگائے جارہے ہیں، ٹیوے اس لیے کہ نہ سعودی سچ
بولتے ہیں اور نہ پاکستانی سچ بتانے کو تیار ہیں، اسٹیٹ بنک کے اکائونٹ میں
کسی نے ڈیڑھ ارب ڈالر جمع کرادیئے، خورشید شاہ نے کہا ہے کہ یہ رقم
وزیراعظم نواز شریف کی سالگرہ کا تحفہ ہے۔ تو پھر اس رقم پر پاکستانی قوم
کا تو کوئی حق نہ ہوا-
مسئلہ اتنا سادہ نہیں اور اس قدر پیچیدہ ہے کہ اسے سمجھنے کے لیۓ کسی سیانے
کا مشورہ درکار ہے۔ ابن خلدون سے پوچھ لیتے ہیں جس نے تاريخ کا مقدمہ لکھ
کر قوموں کی تقدیر بگڑنے اور سنورنے کے اسباب گنوادیئے، ایڈورڈ گبن سے رجوع
کرتے ہیں جس نے سلطنت روما کے عروج و زوال پر روشنی ڈالی۔ دور حاضر میں ایک
سے بڑھ کر ایک فیلسوف پڑا ہے، مائکرو سافٹ یا گوگل کے مالک شاہد ہماری
راہنمائی کرسکیں-
ابھی سعودی عرب کے ڈالروں کا قضیہ ختم نہیں ہوا تھا کہ بحرین کے خلیفہ حمد
تین روز کے لیے تشریف لے آئے ہیں، قطر کا کردار عالم عرب میں متنازہ ہوگیا
ہے اس پر الزام ہے کہ وہ اسلامی انتہا پسندوں کی سرپرستی کوتا ہے، سعودی
عرب نے مصری تنظیم اخوان المسلمون پر پابندی عائد کردی ہے، مجھے یہ پوچھنا
ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن بھاگم بھاگ سعودی عرب کیوں گئے کیا
کوئی ایسا خطرہ ہے کہ اخوان کی حامی جماعت اسلامی کو پاکستان میں پابندیوں
کا سامنا کرنا پڑے، موصوف خود زبان کھول سکتے ہیں، وہ بے قابو ہوکر بولنے
میں مہارت رکھتے ہیں، وہ بتائیں پنجاب یونیورسٹی ہوسٹلوں میں جمعیت کے
کمروں میں القاعدہ کے انتہا پسند کیوں قیام پذیر تھے، وہ یہ بھی بتا سکتے
ہیں کہ جماعت نے پاک فوج کے خلاف زبان استعمال کیوں کی جو ابھی تک تحریک
طالبان نے بھی روا نہیں سمجھی، اخوان پر پابندی کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت
سا پانی بہہ گیا ہے۔ اور اگر ہم نے احیتاط سے کام نہ لیا تو کچھ بعید نہیں
کہ پانی اپنے ساتھ سارے پل بھی بہا لے جائے گا پاکستان نے اپنے چند تیار
شدہ ایٹم بم سعودی عرب منتقل کردیئے تو ہم اسکی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور
جب بھارتی لابی یہ شوشہ چھوڑتی ہے کہ سعودی عرب نے پاک فوج کے ایک دو
ڈویثرن ماںگے ہیں تو ہم اس بے سروپا کہانی کو شہ سرخیوں کی زینت بناتے ہیں
، کوئی اور بیرونی ایجنسی یہ راگ الاپتی ہے کہ پاک فوج کے ریٹائر عملے کو
بھرتی کرکے سعودی عرب بھیجا جائے گا تو ہم ٹی وی چینلز پر چٹخارے لے کر
تجزیئے پیش کرتے ہیں کوئی بے پر کی اڑاتا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے
طیارہ شکن میزائل مانگے ہیں جنہیں وہ شامی مزاحمت کاروں تک پہنچانا چاہتا
ہے۔ مگر پاکستان کو خد شہ ہے کہ یہ میزائل شمالی وزیرستان واپس طالبان کے
پاس آجائیں گے اور اس وقت ہم انہیں جن ایف سولہ سے مار رہے ہیں، پھر طالبان
ہمارے ایف سولہ ہمارے ہی میزائلوں سے مار رہے ہوں گے، یہ سب بے سروپا
کہانیاں ہیں-
امریکی اور یورپی ویزوں کے لیے ہم مرے جارہے ہیں ہمارے بچے انکی
یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں ایک زمانہ تھا کہ بھٹو صاحب فرانس سے پانی
منگوا کر پیتے تھے اب تو ہمارے کتوں کی خوراک بھی وہیں سے آتی ہے مگر ہم
فیشن کے طور پر امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں، منور حسن نے تو فتوی دے دیا کہ
پاک فوج کا جو سپاہی امریکہ کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے مارا جائے گا وہ شہید
نہیں، مولانا فضل الرحمان نے بھی کہہ دیا کہ ڈرون سے مرنے والا کتا بھی
شہید ہے، یہ سب کچھ کج بحثی نہیں ایک انتشار کی علامت ہے خلفشار کا مظہر ہے
امت مسلمہ تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے یا تو یہ معدوم ہوجائے گی یا انگڑائی
لے کر جاگ اٹھے گی- |