آکے بیٹھے بھی نہ تھے اورنکالے بھی گئے

ہندوستان کی سیاست میں بغاوت کی لہر چل رہی ہے ، ہر روز یہ خبر آرہی ہے کہ آج فلاں لیڈر نے فلاں پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے، مفاد پرستی کی خاطر اتحاد بدلنے کا یہ سلسلہ شروع ہوا تھا مفاد پرست سیاست داں رام ولاس پاسوان سے جو کبھی بی جے پی کے اتحادی تھے ۲۰۰۲ میں گجرات فساد کے بعد مودی کی جارحیت اور فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کو لے کر این ڈی اے سے سے کنارہ کش ہو گئے تھے ؛لیکن آج سولہویں لوک سبھا انتخاب کے پیشِ نظر ان اسباب کے ہوتے ہوئے پھر سے نریندر مودی کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں اور این ڈی اے کے اتحادی بن چکے ہیں ، پاسوان کے بعد بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرساد یادو کے داہنے ہاتھ اور ان کی پارٹی کے اہم رکن رام کرپال یادو ذراسی بات کو لیکر بی جے پی میں شامل ہوگئے،اسی دوران آر جے ڈی کے ۱۱ ممبروں نے بھی پارٹی چھوڑ کر نتیش کمار سے ملنے کی تحریک چلائی تھی تاہم لالو پرساد اپنے ۱۱ممبرانِ اسمبلی پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے ،۔بہار کی سیاست میں ایک نام چودھری مجبوب علی قیصر کا ہے کانگریس سے ان کا ۵۰ سالہ پرانا رشتہ تھا ،ان کا خاندان کانگریسی تھا ۲۰۱۰ میں یہ بہارکانگریس کے صدر بھی تھے؛لیکن اسمبلی الیکشن میں شکست سے دو چار ہونے کے بعد اس عہدے سے مستعفی ہو گئے ، یہ کھگڑیا لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑنا چاہ رہے تھے ؛لیکن آر جے ڈی کانگریس اتحاد کے بعد یہ سیٹ آر جے ڈی کے حصے میں چلی گئی اور مجبوب علی قیصر کو وہاں سے الیکشن لڑنے کا موقع نہیں مل سکا ، آں جناب نے اس کے ردِ عمل میں پارٹی تبدیل کردی اور بی جے پی کے اتحادی ایل جے پی میں شامل ہوگئے ۔ ان حضرات کی پارٹی تبدیل کرنے کی خبر ابھی گردش کر رہی تھی کہ ایک اور نامور صحافی کی بی جے پی میں شمولیت سے سیکولر اور انصاف پسند حلقے میں ہلچل مچ گئی یہ نامور صحافی ایم جے اکبر ہیں جو اردو اور انگریزی کے مایہ ناز صحافی ہیں ؛ ۱۹۸۹ میں کانگریس کے ترجمان اور راجیہ سبھا کے ممبر بھی رہ چکے ہیں لیکن اب بی جے پی میں شامل ہوکر انسانیت کے قاتل مسلم کش فسادات کے ذمہ دار مودی کی تعریف میں قصیدے پڑھ رہے ہیں ؛حالاں کہ یہی کل تک مودی کی مذمت میں لکھ رہے تھے اور ملک کی سلامتی کے لئے بی جے پی کی حکومت اور مودی کو خطرہ قرار دے رہے تھے ۔

گذشتہ دو تین دنوں سے ایک اور خبر میڈیا میں گردش کر رہی ہے اس خبر کا تعلق جناب صابر علی سے ہے ، ان کا وطنی تعلق چمپارن ضلع کے رکسول سے ہے ، ہندوستان کے مالدار مسلمانوں میں ان کا نام بھی آتا ہے ممبئی کی کروڑوں کی ملکیت ان کے پاس ہے اندھیری ،باندرہ اور دیگر کئی مقامات پر ان کے مہنگے ترین مکانات ہیں۔ عربی سوم تک کی تعلیم انہوں نے مدرسے میں حاصل کی تھی ۔۲۰۰۵ میں انہیں سیاست کا شوق لگا او ر اس میدان خارزار میں کود پڑے ، سب سے پہلے مفاد پرست سیاست داں رام ولاس پاسوان کی پارٹی ایل جے پی میں شامل ہوئے ،۲۰۰۵ میں کے ریاستی الیکشن میں لوجپا کو ۲۹ سیٹیں ملیں تھیں ان کا مطالبہ تھا کہ اس مرتبہ بہار کا وزیر اعلی ہم کسی مسلمان کوبنانا چاہتے ہیں لیکن لالو پرساد ان سے متفق نہیں ہوئے ،نتیجتا بہار میں صدر راج نافذ ہوگیا ،اسی سال اکتوبر نومبر میں۶ ماہ بعد دوبارہ ہو نے والے الیکشن میں پاسوان کو صرف۱۰ سیٹیں ملیں ، چناں چہ انہوں نے اپنی پارٹی سے راجیہ سبھا کے لئے اسی صابر علی کو نامزد کیا ۔۲۰۱۰ میں ان کے راجیہ سبھا کی مدت پوری ہوگئی ۔نیزاس سال کے ریاستی انتخاب میں ان کی اہلیہ یاسمین خاتون فتح حاصل کرنے میں ناکام رہی۔خود لوجپا کو ۲۴۳ اسمبلی والی ریاست میں صرف ایک سیٹ پر کامیابی ملی ۔وہ تھے ارریا ودھان سبھا حلقہ سے جناب ذاکر حسین صاحب جنہوں نے بھی لوجپا کے این ڈے اے میں شامل ہونے کے بعد پارٹی سے استعفی دے دیا ہے ۔ان دنو ں بہار اسمبلی میں ایل جے پی سے ایک بھی ممبر اسمبلی نہیں ہے ۔لوجپا کی اس ناکامی کے بعد نتیجہ ظاہر تھا کہ صابر علی کو اس پارٹی میں رہ کر کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا تھا۔جنہوں نے انہیں راجیہ سبھامیں بھیجا تھا وہ اس مرتبہ خود لالو پرساد کے رحم کرم پر راجیہ سبھا میں پہچے تھے۔لھذا انہوں نے فورا پارٹی بدل لی ،نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یونائٹید میں شامل ہوگئے۔ پاٹی فند میں کثیر رقم جمع کرکے ایک مرتبہ پھر راجیہ سبھا کی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔

سال رواں کے سولہویں لوک سبھا انتخاب میں نتیش کمارنے انہیں شیوہر لوک سبھا حلقہ سے الیکشن لڑنے کو کہا ۔چناں چہ یہ ٹکٹ لے کر میدان میں آگئے۔انتخابی تشہیر بھی شروع کردی لیکن لالو پرساد یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتادل سے جیسے ہی اس حلقے سے انوارالحق کی امیدواری کے نام کااعلان ہوا انہیں دن میں تارے نظر آنے لگے۔انہوں نے یہی سوچ لیا کہ انو ار الحق کے ہو تے ہوئے ہما ری جیت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ،انتخا بی تشہیر میں خر چ ہو نے والا پیسہ ضا ئع اور بر با د ہو جا ئے گا ، لہذا پا رٹی بدلنے کا فیصلہ کر لیا ،فو رانریند رمو دی کی تعر یف میں قصیدہ پڑھنا شروع کردیا ،بی جے پی کوملک کی سا لمیت کے لئے اہم قر ار دیا۔ صا بر علی کی زبا ن سے بی جے پی او رمو دی کی تعر یف میں نکلنے والا جملہ نتیش کما ر کے لئے نا قا بل برداشت تھا ،صا بر علی کا مقصد بھی جدیو سے نکلنے کا راستہ تلاش کر نا تھا ،انھیں اپنے مقصد میں کا میا بی مل گئی ،اور نتیش کما رکی انھیں پا رٹی ے بر طرف کر دیا ،صابر علی نے فورا بی جے پی میں شمولیت اختیا ر کرلی اور اس مو قع کو اپنے لئے با عث فخر کہنا شر وع کر دیا ،راج نا تھ سنگھ کے با رے میں کہا کہ ’’ ان سے ہمیں نعمت ملی ہے ،ملک کی خد مت کے لئے بہترین پلیٹ فا رم ملا ہے ،نریندرمودی کی قیا دت میں ملک تر قی کی را ہ پر گا مزن ہو گا ان کے با رے میں جو پر وپیگنڈہ کیا جا رہا ہے وہ با لکل غلط ہے ،میں مودی کے با رے میں مسلما نو ں کی سو چ بد لو ں گا ،اور ایک سپا ہی کی طر ح کا م کر ونگا ،،۔

صابرعلی کی بی جے پی کی قصیدہ خانی کا مقصد تھا کہ اب یہاں ہمیں اہمیت ملے گی راجیہ سبھا کی سیٹ آسا نی حاصل ہوجا ئے گی ،لیکن یہا ں آکر ان کی مشکلیں مزیدبڑھ گئی ،پا رٹی لیڈران نے ان کے خلا ف بغاوت کی تحریک شر وع کر دی ،یہ سلسلہ شر وع ہوا بی جے پی کے سنیئر مسلم لیڈر مختا ر عبا س نقو ی سے ’’انہو ں نے اپنے ٹویٹر اکا ؤ نٹ پر یہ ٹو یئٹ کیا کہ ’’دہشت گر د یاسین بھٹکل کا سا تھی بی جے پی میں شا مل ہوگیا ہے ،اب داؤ ابرا ہیم کو بھی جلد ہی پارٹی میں جگہ ملی گی،،۔اس کے بعدپارٹی کے دوسرے لیڈران بھی صابر علی کے خلاف تحریک چلانے لگے،سید شاہ نواز حسین رام دھیر چورسیا گری راج سنگھ اور دوسرے بڑے لیڈران بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے ۔سبھوں نے یک طرفہ پارٹی سے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا ۔آرایس ایس بھی اس معاملے میں خفاتھی وہ صابر علی کی شمولیت نہیں چاہ رہی تھی ۔صابر علی پر ایک الزام یہ بہی تھا کہ مودی کے خلاف بولنے والوں میں سرفہرست یہ بھی ہیں لہذا جو شخص مسلسل ہمیں گالیاں دے رہا ہو اس کے ساتھ دوستی کیوں؟اورکیسی؟۔

صابر علی نے اپنے خلاف ہونے والی اس سازش کو دفاع کرنے کی ہرممکن کوشش کی ۔پارٹی صدر راج ناتھ سنگھ کے نام خط لکھ کر گریہ وزاری بھی کی ۔منت وسماجت کے ساتھ ان سے یہ درخواست کی کہ مجھے پارٹی سے برطرف کرنے کے بجائے پہلے مجھ پر لگائے گئے الزامات کی تحقیق کرلی جائے اور اس دوران میر ی رکنیت کو التوا میں رکھا جائے ۔انہوں مخحتار عباس تقوی سے بھی سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی کچھ بھی سنی نہیں گئی اورپارٹی صدر نے اس بڑھتے ہوئے تنازع کو دیکھ کر بی جے پی سے ا ن کی برکرفی کا اعلان کردیا۔
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اورنکالے بھی گئے
شرم ان کو مگرنہیں آتی

یہ جناب صابر علی ہیں جن کے سیاست میں آنے کامقصد راجیہ سبھاکی سیٹ حاصل کرنا ہے اور بس۔انہوں نے اپنی ۸ سالہ سیاسی زندگی میں تمام جد جہد صرف کرسی کے حصول کے لئے کی ہے ۔مسلمانوں کے لئے انہوں نے کیا کیا ؟ کتنے مسائل انہوں نے حل کرائے ؟پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے کسی مسلم مسئلے پر انہیں بولنے کی توفیق ملی؟ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاری کے خلاف انہوں نے کبھی کوئی آواز بلندکی ؟جواب نفی میں ہے-

اقتدار کے لالچی اور عہد ہ کے سیاست داں کو آج اپنی سیاسی اوقات کا اندازہ لگ گیا ہے۔در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔نریندر مودی کی قصیدہ خوانی کی سزا ایک دن میں ہی مل گئی ہے ۔

لیکن اس پس منظر میں سوال مختار عباس نقوی صاحب سے بھی ہے کہ آخر صابر علی کی بی جے پی میں آمد سے انہیں تکلیف کیوں ہوئی ،انہوں ان کے خلاف بغاوت کی یہ تحریک کیوں چلائی ،کیا انہیں یہ خوف ستائے جارہا تھا کہ ان مسلم چہروں کی بی جے پی میں آمدسے ہماری حیثیت کم ہو جائے گی ،کیا بی جے پی کے اس نظریہ پہ شاید و ہ یقین رکھتے ہیں کے یہا ں ہر نئے آنے والے کی قد ر ہوتی ہے پرانوں کو کنار ے لگادیا جاتا ہے اس لئے و ہ نہین چاہتے ہیں کہ بھاحپا میں کوئی دوسرا مسلمان آئے ورنہ کل کے بجائے آج ہی کنارے لگادیئے جائیں گے۔پارٹی ان کی رہی سہی حیثیت بھی ختم ہوجائے گی ۔ ایم جے اکبر اور دیگر چند مسلم لیڈروں کی شمولیت سے یہ پہلے سے ہی خوف زدہ تھے۔ اس لئے صابر علی پر ایک فرضی الزام لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں کی۔صابر علی کا جو حشر ہونا تھا وہ تو ہو چکا لیکن اب صابر علی کھل کر میدان میں آگئے ہیں مختار عباس کو انہوں صاف لفظوں میں یہ چیلنج کر دیا ہے کہ ’’ وہ ہم پر لگائے گئے الزاما ت کو ثابت کریں یا پھر سرعام معافی مانگیں،،۔ اگر یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو میں تختۂ دار پر لٹکنے کو تیا ر ہوں۔آرایس ایس اور اس کی سیاسی شاخ بی جے پی کا اولین مقصد تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر جیل کی سلاخوں میں ڈالنا ہے ہندوستان کی سرزمین اسلام اور مسلمانوں کو وجود کو مٹانا ہے ۔اس لئے نقوی صاحب کے اس بیان پر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہے کیوں کہ وہ اسی کے پروردہ ہیں اگر صابر علی کے لئے میر جعفر کہا جائے تو مختار عباس نقوی صاحب کوعبد اﷲ بن سبا ۔

مختار عباس نقوی صاحب ہوں ،سید شاہنواز حسین صاحب ہوں،یا جناب ایم جے اکبر صاحب انہیں بی جے پی کی سیاسی تاریخ پر بہی ایک نگاہ ڈال لینی چاہئے کہ یہ پارٹی اپنے اراکین کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتی ہے۔ یہ معاملہ صرف تنہا صابر علی کے ساتھ نہیں ہوا ہے بلکہ یہ معاملہ تو پارٹی کے سینئر رہنماء اور بانی ممبروں کے ساتھ بھی ہو چکا ہے ایل کے اڈوانی مرلی موہر جوشی اور دیگر قد آور لیڈران ردی کی ٹوکری کی طرح کنارے لگائے جاچکے ہیں۔ آزاد امید وار کے طور پر پرچہ نامز دگی داخل کرنے کی پاداش میں پارٹی نے آج سابق وزیر دفاع جسونت سنگھ کی برطرفی کی اعلان بھی کردیا ہے۔مسلمانوں کے یہ دشمن آج خود پنی موت مر رہے ہیں۔ تو پھر یہ مسلم چہرے کس کھیت کے مولی ہیں ان لوگوں کا اس سے بھی برا حال ہوگا جو آ ج اپنے ضمیر کا سودا کرکے ، اپنے قلم کا قتل کرکے بی جے پی کی حمایت کررہے ہیں ۔ ملکی سلامتی کے لئے خطرناک سمجھی جانے والی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں اور انسانیت کے قاتل نریندرمودی کی تعریف میں زمیں و آسمان ایک کئے ہو ئے ہیں۔یقین کیجئے جس طرح آج صابر علی نہ’’ گھر کے ر ہے نہ گھاٹ کے ،، ۔

اسی طرح کل یہ ضمیرفروش سیاست داں بھی ’’نہ گھر کے ر ہیں گے نہ گھاٹ کے ،،(بصیرت فیچرسروس)

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 164302 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More