2 تا 4 مارچ مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کی ایک بین
اقوامی کانفرنس میں شرکت کے بعد اس ارض مقدس سے جلد واپس لوٹ آنے کو دل ہی
نہیں چاہا۔ جی تو چاہتا ہے پہلے وہاں 26روز ہ قیام کے اپنے تاثرات اور
مشاہدات کا ذکر کروں مگر فی الحال چند معروضات قومی انتخاب کے بارے میں، جن
کا ذکر سعودی اخباروں اور وہاں مقیم ہندستانیوں سے ملاقاتوں کے دوران بھی
ہوتا رہا۔حجاز مقدس کے ایمان افروزسفراور کانفرنس کی روداد انشاء اﷲ بعد
میں پیش کروں گا۔
کالادھن اور چناؤ
اس بار کی انتخابی مہم کو اگر کالے دھن کی کالی اندھی کہا جائے تو بیجا نہ
ہوگا۔ بی جے پی عرصہ سے بیرون ملک سے کالا دھن واپس لانے کا سیاسی مطالبہ
کرتی رہی ہے۔ اس انتخابی مہم سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ کالے دھن کی اصل
طاقت سے بھاجپا جس قدر واقف ہے ،اور جس طرح اس کو برتنا جانتی ہے، کوئی اور
نہیں جانتا۔ اگرچہ عبوری بجٹ میں انتخابی مصارف کے مد میں صرف 595کروڑ
روپیہ رکھے گئے ہیں مگر فرسٹ پوسٹ کے ایک تجزیہ کے مطابق اس انتخابی مہم
میں 18,000 کروڑ روپیہ خرچ ہونگے، جس کا کثیر حصہ کالے دھن کا ہوگا۔
بھاجپا جس طرح سے انتخابی مہم چلارہی ہے اس سے بادی النظر میں یہ نتیجہ
نکالنا دشوار نہیں کہ کالے دھن کی گنگا میں یہ پارٹی جس طرح نہارہی ہے، اس
کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ بھاجپا نے 2014 کے لئے اپنی انتخابی مہم تو
2009 کا چناؤ ہارنے کے بعد ہی شروع کردی تھی مگر جنوری 2013 میں مودی کو
انتخابی کمیٹی کا سربراہ نامزد کئے جانے کے بعدسے اس میں شدت آگئی ۔ پارٹی
نے اور خصوصاً مودی نے اپنی ہوا باندھنے اور یو پی اے کے ہوا اکھاڑنے کے
لئے سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پرجو مہم چلارکھی ہے اورجس
طرح گزشتہ سوا سال سے ملک بھر میں مودی کی ریلیاں کی جارہی ہیں ان پریقینا
اربوں روپیہ خرچ ہو رہا ہوگا۔ یہ الیکشن محض آر ایس ایس بمقابلہ سیکولر
ہندستان ہی نہیں، کالی دولت کی طاقت کا بھی مظہر بن گیا ہے۔ یہ دولت کہاں
سے آرہی ہے، کون فراہم کررہا ہے، کیوں فراہم کررہا ہے، نہ کوئی پوچھنے والا
ہے اور نہ کوئی بتانے والا؟
کرپشن کی بادشاہ
اس پارٹی کا عجب حال ہے۔ شور کرپشن کے خلاف مچارہی ہے اورخود ہرطرح کے
کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے۔ہرداغدار لیڈر کو، جس کے ساتھ تھوڑے بہت ووٹ بھی
ہیں،دھڑاڈھڑ پارٹی میں داخل کیاجارہا ہے۔ اس کرپٹ موقع پرستی کا اندازہ اس
سے کیجئے کہ اب تک چناؤ کے لئے جن 409 امیدواروں کا اعلان ہوا ہے ان میں 56
وہ ہیں جو حال ہی میں پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ ان میں سے نصف یعنی 28اکیلے
یوپی اوربہار سے امیدوار ہیں۔حد یہ ہے کہ پارٹی میں شامل ایک نئے لیڈر کو
اڈجسٹ کرنے کے لئے 34سال سے پارٹی کے رکن اورسینئر لیڈر جسونت سنگھ کو بھی
باہر کا راستہ دکھادیا گیا۔کیا تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر چناؤ
جیتنے کے یہ ہتھ کنڈے سیاسی بدعنوانی نہیں؟ رواں انتخابات میں بھا جپا، جو
اصولوں اور اخلاقیات کی دہائی دیتے نہیں تھکتی، سیاسی اخلاق کی پامالی میں
چمپئن بن کر ابھررہی ہے۔
فریب کا نام انتخابی مہم
اس انتخابی مہم کا بڑا لمیہ یہ ہے کہ فریب اور غلط بیانی کو سچائی کاملمع
چڑھا کر اچھالا جارہا ہے۔ مودی کی چرب زبانی اور مخالفین پر رکیک حملے عوام
کو اسی طرح گمراہ کررہے ہیں جس طرح اڈولف ہٹلر نے 1930 کی دہائی کے اوائل
میں جرمن عوام کو کیا تھا۔ ہٹلر جمہوری راستے سے اقتدار پر قابض ہوا اور
ایک ہی سال میں سفاک ترین ڈکٹیٹر کے روپ دنیا کے سامنے آگیا ۔ اس نے لاکھوں
افراد کے خون سے ، جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے، اپنی پیاس بجھانے کی
کوشش کی۔سنہ 2002کا گجرات بھی اسی سفاکی کا نمونہ پیش کرتا ہے ، جس کے لئے
راج ناتھ تو کہتے ہیں پارٹی معافی مانگنے کے لئے تیار ہے، مگرمودی کے قریبی
ارن جیٹلی کہتے ہیں کہ معافی مانگنے کا کوئی سوال نہیں۔
حقائق سے کوسوں دور مودی کی چرب زبانی سے مسحوررائے دہندگان کوجرمن عوام کی
اس غلطی کا انجام یاد رکھنا چاہئے جو انہوں نے اقتدار نازیوں کے حوالے کرکے
کی تھی اور جس کو جرمنی 80 سال گزرجانے کے باوجود آج تک بھگت رہا ہے۔ہٹلر
کی خون آشام فرقہ پرست آمرانہ ذہنیت کا نتیجہ دوسری جنگ عظیم اور اس میں
خودجرمنی کی تباہی اور آخر کار اڈولف ہٹلر کی خودکشی کی صورت میں سامنے آیا
تھا۔ بھاجپا کم و بیش نازی پارٹی کی تاریخ دوہر ارہی ہے۔ نازیوں نے 1928کے
انتخاب میں ہزار میں صرف 26ووٹ حاصل کئے تھے اور پھر ہٹلر کو آگے بڑھایا
تھا۔چنانچہ 1932 میں 33فیصد ووٹ مل گئے اور اقتدار میں شریک ہوگئی ۔
مسحورکن تقریر میں مشاق ہٹلر نے اسی طرح جرمن قومیت کا نعرہ بلند کیا جس
طرح مودی کررہے ہیں اور نازیوں نے 1934 میں 44فیصد ووٹ حاصل کرکے اقتدار پر
قبضہ کرلیا تھا اورپھر پڑوسی ملکوں پر قبضہ کرنے کی ہوس میں دوسری جنگ عظیم
کی جوت جگائی ۔جس طرح نازی ہٹلر کی نگاہ پڑوسی ملکوں پر تھی تقریباً وہی
ذہنیت اس وقت بھاجپا میں پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلق
سے پائی جاتی ہے۔
مودی کی قیادت کی اس عفریت کوملک کے صالح ذہنیت کے عوام خوب سمجھ رہے ہیں
مگر پھر بھی میڈیا میں ایک رو چل رہی ہے جو اس بات کی متقاضی ہے کہ عوام
میں ہم آہنگی ،قومی اتحاد اوراعلا اقدارکے علم بردارزیادہ سمجھ داری سے کام
لیں اور اس طوفان کو روکنے کے لئے سوچ سمجھ کر اپنی حکمت عملی بنائیں۔ ہمیں
معلوم ہے کہ گزشتہ ساٹھ سال میں ملک کا ایک طبقہ ناانصافیوں کا شکار رہا ہے
جس کے لئے بڑی حد تک کانگریس اور انتظامیہ میں موجود خود غرض فرقہ پرستانہ
ذینیت ذمہ دار ہے ، لیکن اگراس کا موازنہ بھاجپا اور اس کی فکری ماں آر ایس
ایس کے نظریات، کالے کرتوتوں اور ارادوں سے کیا جائے تو کانگریس کو اور اس
کی موجودہ قیادت کو بہرحال کم تر برائی کا درجہ حاصل ہے۔ ہمارا شعور کیا
کہتا ہے؟ ملک اور اس کی جمہوریت کو پوری طرح تباہی کے غار میں جانے دیں
یاوقت کے تقاضے کو بھانپ کرجذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے،وطن کی دفاع کے
لئے فیصلہ کریں؟
ملہوترہ نے سچ کہا
بھاجپا کے سینئر لیڈر وجے کمار ملہوترہ نے، جو عرصہ تک بھاجپا پارلیمانی
پارٹی کے ترجمان رہے،کہا ہے کہ مسلم اکثریتی جامعہ نگر ( اور اعظم گڑھ)
دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے۔ بعد میں انہوں نے وضاحت کی کہ یہ ان کا اپنا
نہیں بلکہ پارٹی کا نظریہ ہے۔ ان کی پہلے بات بیشک بے بنیاد ہے مگر دوسری
بات بالکل درست ہے۔بھاجپا کا نظریہ مسلم اقلیت کے بارے میں یہی ہے اور یہی
بات وہ مختلف طریقوں سے عوام کے ذہنوں میں بٹھاکر ان کو مسلمانوں سے دور
کرنے کو کوشش کرتی ہے۔پارٹی صدر راج ناتھ سنگھ نے اپنے سابق صدارتی دور میں
زور و شور سے یہ بات چلائی تھی کہ ہر ’مسلمان دہشت گرد نہ سہی، مگرہردہشت
گرد مسلمان ہوتا ہے۔‘ سنگھی دہشت گردوں کے بے نقاب ہونے تک بھاجپا یہ جھوٹ
دوہراتی رہی ۔ ملہوترہ نے اسی بات کودوسرے الفاظ میں دوہرادیا ہے۔ اگرچہ
دہلی کی پارٹی قیادت اس پر لیپا پوتی کررہی ہے مگر مودی اور دیگر مرکزی
لیڈروں نے خاموشی اختیارکرکے بالواسطہ طور پر ملہوترہ کی تائیدکردی ہے۔ اس
کے باجود کچھ نام سے مسلمان بھاجپا کے گن گاتے نہیں شرماتے ہیں۔
غریبوں کادرد
نریندر مودی کا یہ سوال کہ آزادی کے اتنے سال بعد بھی ملک میں اتنے سارے
غریب کیوں ہیں، تاریخ اور سماجیات سے ان کی لاعلمی کا اظہار ہے۔بھیک مانگنے
والے اوربے گھر لوگ تو دنیا کے امیرترین ملکوں امریکا و یوروپ میں بھی ہیں۔
ہم نے خود پیرس کی مشہور سیرگاہ ’وکٹری گیٹ ‘کے گرد اوروہاں کے
شانداربازاروں میں بھیک مانگنے والوں کو دیکھا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ آج
ہمارے ملک میں روزگار کے مواقع کم و بیش ہرجگہ موجود ہیں۔ جو کچھ کرنا
چاہتا ہے،محنت کرتا ہے، کماتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔رہے نکمے اور ناکارہ
لوگ، وہ بیشک شکوے کرتے رہتے ہیں۔ مکیش انبانی کے والد دھیروبھائی امبائی
ٹھیلی لگاتے تھے اورہفتہ واری بازار میں سمسوسے بیچتے تھے، آج انبانی
گھرانہ ملک کا دولت مندترین گھرانہ ہے۔ مودی خود تیلی برادری میں پیدا
ہوئے۔ان کے والدگاؤں کے ایک معمولی پنساری تھے۔ لڑکپن میں سنگھ کے دفتر میں
چائے پانی پلانے کی خدمت انجام دی، مگرآج امیرترین لوگوں کی طرح برانڈڈ
کپڑے پہنتے ہیں، جہازاور ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہیں اورعیش کی زندگی
گزارتے ہیں۔بڑے بڑے دولت مند ان کے آگے جھکتے ہیں۔ یہ عظیم الشان سماجی
تبدیلی اسی نظام کا نتیجہ ہے جو آزادی کے بعد ملک میں رائج ہوا، جس کا سہرہ
کانگریس کے سر ہے ۔آزادی سے پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھاکہ
معمولی گھرانے میں پیدا ہونے والا کوئی شخص اتنا اونچااٹھ سکتا ہے۔کانگریس
کو انکا گالیاں دینا محض نادانی اوراحسان فراموشی ہے۔
گمراہ کن پروپگنڈے میں مشاق مودی کوشاید یہ معلوم نہیں کہ ساٹھ سال پہلے
ملک کا کیا حال تھا۔آبادی کل 35کروڑ تھی، مگر اناج باہر سے منگانا پڑتا
تھا۔آج سوا ارب آبادی ہے اور ہم اناج ایکسپورٹ کرتے ہیں۔اس وقت میں مفلسی
کایہ حال تھا کہ ہزاروں غریب لنگوٹی میں کام چلاتے تھے۔ تن پر جب تک ایک
کپڑا رہتا، دوسرا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ آج یومیہ مزدور بھی ٹی شرٹ اور جینس
میں آتا ہے۔ ہرہاتھ میں موبائل، ہر گھر میں بائک اور جھگیوں تک میں بھی ٹی
وی اس بات کی علامت ہیں کہ مفلسی کم ہوئی ہے اور خوشحالی آئی ہے اور ملک نے
ترقی کی ہے۔
عام آدمی کا مسلم چہرہ
عام آدمی پارٹی کی غازی آباد سے امیدوار شاذیہ علمی ایک بڑے عالم دین کی
صاحبزادی ہیں، مگرانہوں نے پرچہ نامزدگی داخل کرنے سے پہلے مندر میں جاکر
دودھ چڑھانے کی مشرکانہ رسم ادا کرکے حضرت نوح ؑکے صاحبزادے کی یاد تازہ
کردی۔ شاذیہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہندستان کے عوام ایسے لوگوں کو پسند
نہیں کرتے جو مذہبی مراسم کا مخول اڑاتے ہیں۔ اچھے دیندار اور باعمل مسلمان
کی جتنی قدر برادران وطن کرتے ہیں اتنی ان نام کے مسلمانوں کی نہیں ہوتی جو
’رواداری‘ میں مندروں جاکر پوجا پاٹھ میں بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ ایسی ہی خبر
بھاجپا لیڈر مختار عباس نقوی کے بارے میں آئی تھی ، جب وہ رام پور سے چناؤ
لڑرہے تھے اور چناؤ ہارگئے تھے۔
مصر میں فرعون
خبر ہے کہ دریائے نیل کے کنارے ملبہ میں دفن ایک قدیم مندر کے کھنڈرسے
فرعون خاندان کے ایک شاہ ’امنتخف ثالث‘ کے دودیوقامت مجسمے برآمد ہوئے ہیں
جن کوبحال کرکے اصل جگہ پرنصب کردیا گیا ہے۔ قرآن میں فرعون کا نام اس کی
سفاکی اور خدابیزار ی کے حوالے سے محفوظ ہے۔ اسی خبر کے ساتھ یہ خبر آئی کہ
مصر کی ایک عدالت نے محض چند منٹ کی سماعت کے بعد 529افراد کو اس لئے سزائے
موت سنادی کہ وہ سرزمین مصر پر اﷲ کا نام بلند دیکھنا چاہتے تھے۔صدر مرسی
کی برطرفی کے بعد اسرائیل سے دوستی اوراسلام کے نام لیواؤں کو دہشت زدہ
کرنے کا یہ نیاسلسلہ مصر میں پوری شدت سے جاری ہے۔حال ہی میں سبکدوش فوج کے
سربراہ ابوالفتح السیسی نے جائز طور پر منتخب صدر مرسی کو برطرف کرکے جس
طرح دین پسندوں پر قہر نازل کررکھا ہے اور عدالتوں نے جو کچھ ہورہا ہے، اس
سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر میں فرعون کے مجسموں کے ساتھ اس کی روح بھی بیدار
ہوگئی ہے اور وہاں کے حاکموں میں حلول کرگئی ہے معصوم افراد کے خون سے
فرعون کی طرح اپنی پیاس بجھارہے ہیں۔
ترکی میں الیکشن
خدابیزاروں کی ایک بین اقوامی سازش کے تحت ترکی کی صالح حکمراں جماعت اے کے
پارٹی اور وزیراعظم رجب طیب اردغان کو بدنام کرنے جو مہم چلائی گئی تھی،
ترک عوام نے ووٹ کے زریعہ اس کی ہوا نکال دی ہے۔ حال ہی منعقدہ بلدیاتی
انتخابات میں اے کے پی کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ مگراس کے نتیجہ میں
یہ توقع نہیں کی جانی چاہئے خدابیزار جو ترک عناصراس مہم کے ہراول دستہ کے
طور پر سرگرم ہیں وہ خاموش ہوکر بیٹھ جائیں گے۔ امکان زیادہ یہ ہے کہ وہ
اپنی مہم کو مزید تیز کردیں گے۔ ایسی صورت میں حکومت پر لازم ہے کہ اس
عفریت کا مقابلہ عوام میں بیداری اور اپنے فیصلوں میں ان کو شریک کرکے کرے
تاکہ حکومت ہی نہیں عوام بھی دین بیزاروں کی سازشوں کے خلاف مستعدرہیں۔
ساتھ ہی شہری آزادیوں کی حتی الامکان حفاظت ہونی چاہئے۔ان انتخابات کو
اردغان کے لئے ایک امتحان قراردیا جارہا تھا، اس کامیابی پر وزیراعظم، ان
کی پارٹی اوران سے بھی زیادہ ترک عوام مبارکباد کے مستحق ہیں۔ (ختم) |