ذوالفقار علی بھٹو کی برسی 4 اپریل کو جیالے مناتے ہیں
ذوالفقار علی بھٹو جمہوریت کا سائبان قائد عوام حقیقیی جمہوریت کے لیڈر ملک
و قوم کی بقاء کی علمبردار شخصیت اور قائدادانہ صلایت کے مالک تھے، اس میں
کوئی شک نہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بعد اگر کوئی سچا
جمہوری لیڈر تھا تو صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو تھے شہید ذوالفقار علی
بھٹو صاحب ادراک فہم و فراست کے انمول خزینوں سے لبریز اور بصیرت اور آگہی
کی منبع کی صلایت ذوالفقار علی بھٹو میں تھی ، شہید بھٹو نہ صرف پاکستان کے
لیے سرمایا افتخار تھے بلکہ امت مسلمہ کے لیے بھی کسی گہر نایاب سے کم نہ
تھے کیونکہ انہوں نے نہ صرف پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنی تعمیری
سوچ کو محدود کیا بلکہ بھٹو صاحب نے پورے عالم اسلام کو بھی متحد اور منظم
کرنے اور انکے وسائل کو درست استعمال کرنے کے لیے بھی ایک جامع اور مربوط
منصوبہ متعارف کروایا تھا، اگر اس پر بھٹو کے دور میں صحیح معنوں میں
عملدرآمد ہوجاتا تو آج نہ صرف پاکستان کا بلکہ پوری امت مسلمہ کا نقشہ ہی
بدل جاتا مگر افسوس کے انکے اس منصوبے سے اسلام دشمن قوتوں میں ہلچل مچ گئی
اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ اگر بھٹو صاحب کے منصوبے پر پوری طرح عمل ہوگیا
تو یورپ میں قیامت برپا ہوجائے گی ، اور اس خوف سے انکی نیندیں اڑچکی تھیں،
بھٹو شہید نے جب اپنا یہ پلان مسلم ممالک کے حکمرانوں کو متعارف کرایا تھا
تو اس وقت بالخصوصی سفید ہاتھی مسلمانوں کے خون کے پیاسے اور آج بظاہر دوست
نظر آنے والے دشمن کے روپ میں امریکہ نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے منصوبے
کی خبر لگتے ہی ایسی سازش کا جال بنا کہ اس نے اسی وقت اپنے چیلوں کے ساتھ
مل کر بھٹو صاحب کو اپنے ہی ملک کی ایک متنازع عدلیہ کے بغض پرور جج کے
فیصلے سے انہیں بغیر کسی جرم کے پھانسی لگوادی، اس کا اعتراف ایک نجی ٹی وی
کے پروگرام میں اس وقت کے جج نے خود کیا،بھٹو کے زندہ رہنے سے آج پاکسستان
سمیت بہت سے مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ بالخصوص پاکستان کی معشیت اور اقتصادی
صورت حال کا اتنا برا حشر نہیں ہوتا جیسا کہ آج ہوگیا ہے، اور آج پاکستان
کی عوام اپنی زندگی کی بنیادی سہولتوں آٹا چینی دال علاج و معالجہ جدید
تعلیم ، پینے کے صاف پانی، بجلی گیس سے محروم نہ ہوتی،
بانی پاکستان قائداعظم کے اس پاکستان کو جو قیام کے وقت صرف چار دیواری
تھا، اس پاکستان کو ایٹم بم دے کر قائداعظم کے پاکستان کو رہتی دنیا تک
تحفظ فراہم کردیا، اور اس ملک کی حفاظت کے لیے دروازے لگا دیئے میاں نواز
شریف بھٹو دور حکومت میں بنائے گے ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کرکے سرزمین
پاکستان کو دنیا کے سامنے حقیقی معنوں میں ایک ایٹمی قوت کے رنگ و روپ میں
پیش کرچکے ہیں،
جنرل ضیاءالحق بھٹو اور اسکے گھرانے کا ازلی دشمن تھا، اگر آج شہید
ذوالفقار علی بھٹو زندہ ہوتے تو آج مادر وطن کچھ اور ہوتا آج پاکستان یورپ
کا نقشہ پیش کررہا ہوتا بھٹو کو پھانسی کے تختہ دار پر چڑھانے والے آج خود
اپنے کیے پر شرمندہ ہیں اور بھٹو کی قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہیں،
بھٹو ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ وہ ایک ایسی تحریک کا نام تھا جو اپنے
منصوبے سے پوری مسلم دنیا میں انقلاب برپا کرکے رکھ سکتی تھی اور امریکا
سمیت پورے یورپ کو امت مسلمہ کا غلام بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی، یورپ نے
شہید بھٹو کو پھانسی دلواکر نہ صرف خود کو مسلمانوں کی غلامی سے بچا لیا
بلکہ امت مسلمہ کو ایک ایسے رہبر اور رہنما سے محروم کردیا جو ان میں زندگی
کی نئی روح پھونکنے کی صلاحیت رکھتا تھا، اور یہ بھی ایک ایسا سچ ہے کہ
شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سربرائی میں پاکستان کو اپنے قیام کے25 سال
بعد یعنی 1973ہ میں ایک ایسا منظم اور مربوط دستور دیا جو کہ آج پورے
پاکستان کی لاج ہے، اور اسکی روشنی میں ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی کی
راہیں متعین کی جاتی ہے،
شہید بھٹو کا دوسرا اور بڑا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے پاکستان سے
کئی گناہ بڑے اور جارحیت پسند پڑوسی ملک بھارت کو نکیل ڈالی اپنی اولین
ترجیحات سے پاکستان کو ایک ایٹمی ملک بنانے کی بنیاد رکھی یہ شہید بھٹو کا
ہی منصوبہ تھا اور انکی انتھک محنت کا ثمر تھا کہ پاکستان نے 1998ء کو
ایٹمی دھماکے کرکے ثابت کردیا اور بھارت کو یہ باور کرادیا کہ اگر پاکستان
کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اسکی آنکھیں نکال لی جائیں گیں، بھٹو نے شراب
پر پابندی لگائی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ملک میں جمعہ کے دن مکمل
عام تعطیل کا اعلان کیا، اس سے ثابت ہوا کہ بھٹو ایک سچے مسلمان بھی تھے
بھٹو نے روس کے تعاون سے پاکستان میں اسٹیل میل کی بنیاد رکھی بھٹو پاکستان
میں روسی نظام کے نفاذ کے شدید خواہشمند بھی تھے، ،
شہید بھٹو نے پارلیمنٹ سے اپنے آخری خطاب میں مملکت پاکستان کے خلاف سازش
کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھ پر خونخوار کتے میرا خون چوسنے کے
درپے ہیں، اس خطاب کے دوران انہوں نے زیرلب کی بجائے برملا انداز بیاں
اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دشمن مغربی طاقتوں کو جس
استدلال اور جس جذب و جنوں کے ساتھ للکارہ تھا اس نے خود پیپزپارٹی اور
انکی حکومت میں شامل بہت سے لوگوں کو خوف و خطر میں مبتلا کردیا تھا۔ بھٹو
صاحب کی عوامی مقبولیت میں کمی ہونے کے بجائے شب و روز اضافہ ہوتا گیا کوئی
بھی ریلوے اسٹیشن ہو یا ائیر پورٹ جہاں بھی انکی جھلک نظر آتی عوام ہجوم در
ہجوم انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے، اب انکے مخالف سیاسی عناصر جنرل
ضیاءالحق سے پر زور مطالبہ کرنے لگے کہ الیکشن ملتوی ہوں اور الیکشن کے
انعقاد سے پہلے بھٹو صاحب کو ایک مقدمے میں الجھا کر پابند سلاسل رکھا جائے
تاکہ وہ پاکستان کے سیاسی افق سے غائب کر دیئے جائے، بالاخر آمریت پرست
سیاستدانوں کی تمنائیں بر آئیں اور حقیقی جمہوری لیڈر قائد عوام کو عوام سے
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لیا گیا،،، |