انسان مادہ اور روح کا مرکب ہے۔ مادہ فنا پذیر ہے اور روح لافانی ہے۔اچھے
اور نیک اعمال کا تعلق روح سے ہے۔روح کی مانند نیک اعمال بھی لازوال
ہیں۔نیک روحیں زندہ رہتی ہیں اور انسانیت کے لئے شمع ء فروزاں کا کردار ادا
کرتی ہیں۔اس کے برعکس اعمال بد کا تعلق مادہ سے ہوتاہے۔مادہ ہی انھیں وجود
میں لانے کا باعث بنتاہے اور یہ مادہ کے ساتھ ہی فنا کے گھاٹ اتر جاتے
ہیں۔لیکن
ہرگز نہ میرد آں کسے کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ ء عالم دوامِ ما
امتِ مسلمہ پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا کرم رہا ہے کہ جب بھی یہ پستیوں کا
شکار ہو جاتی ہے تو اس کی رحمت اپنے محبوب کے صدقے اس میں ایسے نفوسِ قدسیہ
پیدا کر دیتا ہے جو افرادِ ملت کی ماہیتِ قلب تبدیل کر کے ان کو بھولا
بسراسبق یاد دلاتے ہیں اور ان کے مردہ دلوں میں تازہ روح پھونک دیتے ہیں
یہی لوگ در حقیقت وارث الانبیا ہوتے ہیں ہر زمانے میں اللہ تبارک و تعالیٰ
نے ایسے اولیاء اور اتقیاء پیدا کئے ہیں جنہوں نے زمانے کا رخ موڑ دیا
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
جن افراد کا ان سے رابطہ ہوا ان کی کایا پلٹ دی۔ کھوٹے سکوں کو پارس بناتے
گئے ان کی اہمیت کا احساس لوگوں کواس وقت ہوا جب انہوں نے جہانِ فانی سے
رختِ سفر باندھا۔
محمد عصمت اللہ شاہ (خطیب جامع مسجد اسکندر آباد ضلع میانوالی) بھی اسی
قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ جنھوں نے اپنی زندگی کو فنا فی اللہ کر دیا اسی
کے ہو گئے اور اپنی زندگی اس کے دین کی اشاعت کے لئے وقف کر دی۔ان کی زندگی
کا ایک ایک لمحہ زہد اور خشیت الہی سے مرقع تھا۔ان کے دن طالبانِ علم کی
تشنگی بجھانے میں صرف ہوتے تھے توراتیں اپنے مالک کے حضور گڑگڑانے میں
گزرتی تھیں۔آرام کے لئے بہت کم لمحے میسر آتے تھے۔سادگی ان کا طرہ ء امتیاز
تھی۔عالمانہ نمود و نمائش سے کوسوں دور تھے۔منبع علم و کمال تھے مگر اپنی
گفتگو سے کبھی ظاہر نہ ہونے دیتے کہ وہ سائل سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ایک
بار میں ان کے ہاں قیام پذیر تھا نمازِ فجر کا وقت ہوا تو مجھے کہا کہ ’’آپ
نماز پڑھائیں‘‘۔حالانکہ نماز پڑھانا میری استعداد سے باہر تھا۔مجھ جیسے
ناقص العلم پر کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ میں ان سے کم علم رکھتا
ہوں۔زندگی میں اور بھی کئی علمی تقریبات کے مواقع آئے جب انہوں نے مجھے
فوقیت دینے کی کوشش کی۔
ہم دونوں کے درمیان قلبی تعلق تھا۔میرا جب بھی ان کے یہاں جانا ہوتا وہ
اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود میرے لئے وقت نکالتے۔ایک رات میرا ان کے
ہاں قیام ہوا تو انھوں نے مجھے قصیدہ بردہ شریف پڑھنے کے لئے دیا۔میں نے
قصیدہ کا مطالعہ کیا(میں نے فارسی زبان میں ایم اے کر رکھا ہے)۔اللہ کی شان
دیکھئے کہ اسی رات مجھے آقائے نامدارِسرور کائنات رﷺ کی زیارت کا شرف حاصل
ہوا۔اس زیارت کو میں ان کی کرامت سمجھتا ہوں اور اپنے لئے باعثِ مغفرت ۔
وہ اعلیٰ درجے کی حسِ مزاح رکھتے تھے۔خود نہیں ہنستے تھے لیکن سننے والا
لوٹ پوٹ ہو جاتا۔بات سے بات نکالتے جاتے۔
میرا اور ان کا بچپن ایک ساتھ گزرا ہے۔وہ مجھ سے عمر میں تین برس چھوٹے
تھے۔لیکن بچپن سے ہی مجھ سے زیادہ فعال تھے۔میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے
بعد انھیں حصولِ علم کے لئے گھر چھوڑنا پڑا۔میں بھی رزق کے حصول کے لئے
اِدھر ادھر پھرتا رہا۔یہی وجہ ہے کہ ہماری ملاقاتیں کم پڑتی گئیں لیکن خط و
کتابت جاری رہی۔
کم عمری میں انھیں بلندیوں کو چھونے کا شوق تھا۔اور آخر کار اسی شوق نے
انھیں علم و عرفان کی انتہائی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ہمارے گھر میں بیری کا
بڑا درخت تھا۔وہ اس کی آخری بلندی تک پہنچ جاتے اور پھل توڑ کر نیچے
پھینکتے۔کوئی پھلدار شاخ ان کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتی تھی۔میں ان کو
اتنی بلندی پر دیکھ کرنیچے کھڑا گھبرایا کرتا تھا۔
ہماری دادی مرحومہ بہت نیک خاتون تھیں۔ان کا زیادہ وقت عبادت میں گزرتا
تھا۔ایک بار انھوں نے ہمیں بتایا کہ اگر’’ و اِذا بطشتم بطشتم جباریں‘‘ تین
دفعہ پڑھ کر بِھڑ کو پکڑا جائے تو اس کے ڈنگ کا اثر نہیں ہوتا۔ان دنوں ہم
بہت چھوٹے تھے۔اس دم کو آزمانے کے لئے بِھڑ کی تلاش میں نکلے۔ایک پودے پر
بِھڑ بیٹھی نظر آئی۔’’دم پڑھ کے پکڑ لو کچھ نہیں ہو گا‘‘۔میں نے ان سے
کہا۔وہ اپنا ہاتھ اس کے قریب لے جاتے اور پھر واپس کھینچ لیتے ۔ آخر کار
انہوں نے بھڑ کو پکڑنے کا فیصلہ کر لیا اور اسے پکڑ لیا۔ پکڑتے ہی انکی چیخ
نکل گئی۔بِھڑ نے انھیں کاٹ کھایا تھا۔
ہائی اسکول ہمارے گاؤں سے چھ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ہمارے پاس ایک پرانی
بائیسائیکل تھی جو بعد میں انھیں منتقل ہو گئی۔وہ اسکول سے واپسی پر تقریبا
دوگھنٹے سائیکل کی دیکھ بھا ل اور پرداخت پر صرف کیا کرتے۔صفائی کرتے ،میں
اور بڑے بھائی ان پر جملے کستے۔ایک دن میں نے ان سے کہا کہ’’جب عصمت اللہ
شاہ خان محمد والا(یہ ہمارے گاؤں سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے)پہنچتے ہیں
تو سائیکل کی کھٹ کھڑڑ کھٹ کھڑڑ،کھٹا کھٹ،کھڑڑ کھڑڑ کی آوازیں سنائی دینے
لگتی ہے۔(میں نے مرحوم پطرس بخاری کا مضمون ’’مرزا جی کی بائسیکل‘‘ پڑھ
رکھا تھا)اس پر زبردست قہقہ پڑا جس میں وہ خود بھی شامل تھے۔
مجھے وہ دن بھلائے نہیں بھولتے جب سرِشام ہم تارے گنا کرتے اور ایک دوسرے
پر عددی سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔
اللہ نے انہیں عزیمت،ثابت قدمی،توکل علی اللہ اور صبر کا پیکر بنایا
تھا۔انھیں زندگی میں بہت سی آزمائشوں کا سامنا رہا۔ایک بار اہل خانہ کے
ہمراہ آزاد کشمیر جاتے ہوئے راولپنڈی کے قریب کہیں ویرانے میں حادثہ پیش
آگیا۔حادثے میں انکی بیگم اور بڑے صاحبزادے کو شدید چوٹیں آئیں۔جب ہمیں
حادثے کا علم ہوا تو بہت پریشانی کے عالم میں سنٹرل ہاسپٹل پہنچے۔لیکن
انھیں حسبِ معمول متبسم پایا ۔ اس شدید پریشانی میں ہمیں تسلی دیتے رہے
کہ’’اللہ نے بڑا کرم کیا ہے۔معمولی چوٹیں آئی ہیں ۔اللہ خیر کرے گا‘‘۔
یہ تقریبا دس برس پہلے کی بات ہے جب انھیں دل کی تکلیف ہوئی۔میں ان دنوں
لاہور میں تھا۔عیادت کے لئے پی اے ایف ہاسپٹل میانوالی پہنچا۔ کچھ دیر ان
کے پاس رہا۔ مجھے کہنے لگے’’مجھے پتہ ہی نہیں چلا اور لوگ اٹھا کر مجھے
یہاں لے آئے ہیں میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ مجھے ہارٹ اٹیک نہیں
ہوا‘‘۔گذشتہ سال مجھے دل کی تکلیف ہوئی۔کچھ عرصہ بعد کسی موقع پر میں ان کے
ہاں گیا تو مجھ سے علامات پوچھنے لگے۔میرے بتانے پر کہنے لگے ’’میرے ساتھ
تو روز ایسا ہوتا ہے لیکن میں نے کبھی پرواہ نہیں کی ۔آپ زیادہ پرہیز نہ
کیا کریں‘‘۔
میرے لئے انکی وفات حسرتِ آیات ایک صدمہ ء جانکاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔اس لئے
نہیں کہ وہ میرے بھائی تھے بلکہ اس لئے کہ وہ میرے محرمِ راز تھے۔خلوت میں
کئی رازو نیاز کی باتیں ہوتیں۔افسوس کہ میں انکی رفاقت سے محروم ہو چکا
ہوں۔ان کے بعد کوئی بھی ایساشخص نہیں رہاجس کی صحبت میں قربت محسوس کر سکوں
جو ان کی صحبت میں مجھے میسرہوتی تھی۔اب خود کو تنہا سمجھتا ہوں اور یہ
تنہائی دمِ واپسیں تک ساتھ رہے گی۔ عالمِ خیال میں بزم آرائیاں ہوتی رہیں
گی۔ حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے
خوش است خلوت اگر یار یارِ من باشد
کہ من بسوزم و اُوشمعِ انجمن باشد
ان کی وفات سے کچھ دن قبل میں اپنے بچوں کو یہ وصیت کرنے کاسوچ رہا تھا کہ
میری نمازِ جنازہ مولانا محمد عصمت اللہ شاہ پڑھائیں گے۔گو کہ یہ بات ازخود
عیاں ہے کہ زندہ ہونے کی صورت میں میری نمازِ جنازہ وہ ہی پڑھاتے۔اب میری
میت اس سعادتِ عظیم سے محروم رہے گی۔
تا ابد تیری لحد پر نور کا سایہ رہے
ابر رحمت حشر تک اس خاک پر چھایا رہے |