مہذب جمہوری ممالک میں حکومتوں کے تبدیل ہونے سے بعض
انتہائی اہم قومی و بین الااقوامی معاملات اور پالیسیوں میں جزوی فرق تو
ضرور آتا ہے۔ مگر وسیع تر قومی مفاد کے منصوبے بد ستور جاری رہتے ہیں۔ بد
قسمتی سے ہمارے ہاں حکومت کی تبدیلی خواہ عمومی انتخابی جمہوری عمل کے
ذریعے ہی کیوں نہ واقع ہو، اسے ایک انقلاب سے تعبیر کیا جانے لگتا ہے۔ نئی
حکومت ضروری خیال کرتی ہے کہ رخصت ہونے والی حکومت کے منصوبوں کا جائزہ
قومی مفاد کی بجائے سیاست کی عینک سے لیا جائے۔ نتیجہ یہ کہ بیشتر منصوبوں
کو معطل کر دیا جاتا ہے اور ان کی جگہ نئے منصوبوں کی داغ بیل ڈال دی جاتی
ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ پرانے منصوبوں پر کتنا سرمایہ صرف ہو چکا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ادھورے منصوبوں کا قبرستان ہے۔ اس قبرستان
کی ایک بڑی قبر کا نام کالا باغ ڈیم ہے جس پر اب تک اربوں روپے خرچ کیے جا
چکے ہیں۔
حب الوطنی اور انصاف پسندی کا تقاضا تویہ ہے کہ اچھا اقدام اور مفاد عامہ
کا کوئی بھی منصوبہ خواہ بد ترین مخالف کی جانب سے ہی سامنے آئے ، اس کا
خیر مقدم کیا جائے۔ مگر ہماری سیاست میں ایسی مثبت روایت رائج نہیں۔اول تو
مقتدر افراد کوذاتی و شخصی مفاد ات کی منصوبہ بندی سے ہی فرصت نہیں
ملتی۔ثانیاہماری سیاست میں اخلاقیات اور انصاف پسندی کا یہ عالم ہے کہ اپنے
ہم جماعتوں اور حلیفوں کے سیاہ کرتوت بھی کارنامے اور مخالفین کے کار خیر
کوبھی سیاہ کاری گردانا جاتاہے۔ اگر کسی حکومت کی جانب سے کوئی عوامی بہبود
کاپروگرام سامنے آتا ہے تواس کی اہمیت اور افادیت سے قطع نظر ، سیاسی
مخالفین کی طرف سے کیڑا کاری کا چلن عام ہے۔
حالت یہ رہی کہ حکومت کے ماتحت ادارہ نیب کی جانب سے شائع کردہ اعدادو شمار
کے مطابق حالیہ دور حکومت کے دوران روزانہ ۱۲ ارب روپے کی کرپشن ہوتی رہی ۔وقت
رخصت بھی قومی اسمبلی کی تحویل سے قبل محض چھ ماہ کے عرصہ میں تقریباّ۴۳
ارب روپے کی رقم قومی نوعیت کے ترقیاتی منصوبوں سے کٹوتی کر کے اراکین
اسمبلی میں تقسیم کی گئی۔ ایسے تمام معاملات پر فقط چند دن شور ڈالنے کے
بعدمٹی ڈال دی جاتی ہے ۔ مگر بوجہ سیاسی مخاصمت میٹرو بس منصوبے کی ۳۰ارب
روپے لاگت پر زمین آسمان ایک کر دیا جاتا ہے۔حالانکہ اگر اربوں کھربوں کی
کرپشن برداشت کی جا سکتی ہے تو۳۰ ارب روپے کاترقیاتی منصوبہ ذیادہ قابل
برداشت ہونا چاہیے۔ بالکل اسی طرح دانش سکول، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم ، سستی
روٹی اور اجالا پروگرام بھی سیاست بازی کا شکار رہے۔ بجا کہ محدود افادیت
کے حامل یہ منصوبے مثالی نوعیت کے ہر گز نہیں تھے۔ مگر بہر حال اربوں روپے
کرپشن کی نذر کرنے سے تو بہت بہتر تھے۔ وفاقی حکومت کے ’ بے نظیر انکم
سپورٹ‘ پروگرام کی ہی مثال لیجئے ۔ مخالفین کی جانب سے اسے ووٹ بنک مضبوط
کرنے کا ذریعہ قرار دیا جاتا رہا۔ حالانکہ مفادعامہ کا کوئی منصوبہ اگر ووٹ
بنک مضبوط کرتاہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ یوں بھی خدمات اور اقدامات کے
ذریعے رائے عامہ کو متاثر کرنا دنیا بھر کی سیاست کا اہم جزو ہے۔
دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک sustainable development کی اہمیت سے آگاہ
ہیں ۔ کوئی بھی منصوبہ بندی اور حکمت عملی وضع کرتے وقت آنے والے سال اور
حالات مد نظر رکھے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں بیشترپالیسی سازی اور منصوبہ بندی
میں تسلسل دکھائی نہیں دیتا۔ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی گذشتہ حکومت کے
منصوبے سیاسی رقابت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسے منصوبوں
سے بھری پڑی ہے۔ آج جوموٹر وے سفری سہولیات اوردفاعی ضروریات کے پیش نظر
قابل قدر متصورہوتی ہے ، اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کواس کے آغاز پر
شدید تنقید کا سامنا رہا۔ محترمہ بینظیر بھٹوکی حکومت میں یہ منصوبہ نہ صرف
تعطل کا شکار رہا بلکہ تاخیر سے افتتاح کی وجہ سے اس کی لاگت تین گنا بڑھ
چکی تھی۔ حالیہ دور میں ہی دیکھ لیں پنجاب حکومت کا دانش سکول پروگرام عمدہ
سہی ، مگر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پرویز الہی دور کا ’پڑھا لکھا پنجاب‘
جیسا مفید منصوبہ فراموش کر دیا گیا۔ حالانکہ جس طرح ق لیگ کی قائم کردہ
1122ایمرجنسی سروس کو جاری رکھ کر اس کا دائرہ کار بڑھایا گیا اسی طرح پڑھا
لکھا پنجاب بھی جاری رہتا تو عوام الناس کو اسکا فائدہ ہوتا ۔ پنجاب میں ’
قرآن اکیڈمی،ـ کا معاملہ بھی مسلم لیگ ن اور ق لیگ کے مابین وجہ تنازع
بنارہا۔ اگر ایسے مقدس منصوبوں پر بھی سیاست بازی ہونی ہے تو ہماری اخلاقی
تنزلی کا اندازہ کیجیئے۔
ایک قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ عوام الناس کے ٹیکسوں سے شروع کیے گئے
منصوبوں کو سیاسی جماعتوں اور رہنماوں سے منسوب کر کے انہیں متنازعہ اور
محدود بنانا اچھی روایت نہیں ۔ مثلا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام۔اس منصوبے
کی تمام تر افادیت کے با وجود ، کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی حکومت اسے
جاری رکھنے اور آگے بڑھانے کو پیپلز پارٹی کی تشہیر گردانے گی۔ بالکل یہی
احتیاط منصوبوں کی تشہیر میں بھی کار فرما ہونی چاہیے۔ اور تشہیر پر سیاست
کا رنگ غالب کر نے سے اجتناب برتنا چاہیے ۔ مثال کے طور پر لیپ ٹاپ اسکیم
اپنی افا دیت کی بنا پرصوبہ خیبر پختونخواہ اور بھارتی پنجاب میں بھی
اپنائی گئی ۔ مگرتشہیر ی مہم میں میاں محمدشہباز شریف کو اس منصوبے سے کچھ
اس طرح نتھی کر دیا گیا کہ برسر اقتدار آنے پر کوئی بھی دوسری جماعت اسے
جاری رکھنے میں ہچکچاہٹ سے کام لے گی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تشہیر و تقسیم
میں وزیر اعٰلی یا اراکین مسلم لیگ ن کی بجائے علمی و ادبی شخصیات کو شامل
کیا جا تا۔ کسی بھی قومی منصوبے کو سیاسی یا جماعتی کی بجائے ریاستی اور
قومی رنگ دیا جا نا چا ہیے۔اہم منصوبوں میں سول سوسائٹی اورغیر
جانبدارحیثیت کے حامل افراد کی شمولیت اور حق ملکیت کو یقینی بنایا جائے تو
یہ ان منصوبوں کے تسلسل اور تواتر کا باعث بنے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ جہاں
تک ممکن ہو تمام بڑے اور اہم منصوبوں کی منظوری حکومتی سطح اور کابینہ کی
بجائے پارلیمنٹ سے حاصل کرے تا کہ زیادہ سے زیادہ موافقت اور اتفاق رائے ان
منصوبوں کو مستقبل میں تحفظ فراہم کرسکے ۔
تحریک انصاف کا برسر اقتدار آ کرگزشتہ ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھنے کا
اعلان قابل ستائش ہے ۔ فی الحال تو یہ ایک انتخابی نعرہ ہے مگر ایسی صحت
مند سوچ اور مثبت روایات اپنائی جائیں تو ملک و قوم کے لیے نفع مند ہوں گی۔
اس سلسلے میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھٹو صاحب
نے اس پروگرام کی بنیاد رکھی اور میاں نواز شریف نے اسے پایہ تکمیل تک
پہنچایا۔اس دوران تمام جمہوری اور فوجی حکمرانوں نے اسے آگے بڑھانے میں
کردار ادا کیا اور آج پاکستانی قوم ایٹمی قوت ہونے پر نازاں ہے۔
موجودہ دورہ جمہوریت میں جس طرح سیاست دانوں اور اداروں نے جمہوریت کے
استحکام اور تسلسل میں مدد فراہم کر کے ایک نئی روایت قائم کی ہے ۔ ترقیاتی
منصوبوں اور پالیسیوں کے بارے میں اسی دانائی ، تدبر اور برد باری کا
مظاہرہ کرنے کی روایت بھی قائم کی جانی چاہیئے ۔ کیونکہ پالیسیوں
اورمنصوبوں میں تسلسل اور تواتر ہی کسی بھی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن
کرنے کا ضامن ہے۔ |