۱۶/واں لو ک سبھاانتخاب ایک لفظی جنگ اور دھمکیوں میں بدل
گیا ہے اور یو ں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ عام انتخاب بجائے اقتدار سازی اور
جمہوری آئین کے تحفظ کے ایک جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے آئے دن رونماہونے والے
سیاسی واقعات سے جمہوری آئین کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں تو وہی سیاسی
رقابت اور دشمنی اپنے شباب پر ہے۔ اگر ہم لفظی جنگ اور باہمی بیان بازی کا
جائزہ لیں تو یہ حقیقت بالکل عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ یہ عام انتخاب
جہاں لفظی جنگ ،بیان بازی ،ہتک عزت کا آئینہ دار ہے تو وہیں ا س تلخ حقیقت
کی بھی نمو ہو رہی ہے یہ ایک ’دھرم یدھ ‘ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس ذیل میں
اپنی جانبدا رانہ سرعت دکھائی اور عمران مسعود کو فو راجیل پہو نچا دیا کیو
ں کہ انھو ں نے اصول کی خلاف ورزی کی تھی اور ایسا بیان دیا تھا کہ جس سے
عوام مشتعل ہو سکتے تھے اور تمام جمہور ی اقدار کو ٹھیس بھی لگ سکتی تھی
لیکن اسی الیکشن کمیشن کی یہ بھی دو رخی پالیسی اور ذوالوجہ خامو شی دیکھیں
کہ مو دی کے دست راست ایک بار پھر فسا د کی آتش نمرود کو ہو ادینے میں لگے
ہیں کیا یہ درست نہیں ہے کہ امیت شاہ کے اس اشتعال انگیز بیان سے الیکشن
کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ؟اگرجواب ہے تو پھر الیکشن
کمیشن کس جہان فریب میں مست ہے۔ عمران مسعودنے جو کچھ بھی کہا اگر و ہ
ویڈیو کلپ درست ہے تو یہ برا ہے کیو نکہ یہ ضابطہ اخلاق کے بالکل منافی ہے
اور پھر جمہو ری ملک اور اس کے مرتب شدہ آئین اس کی اجازت نہیں دیتے عمران
مسعود کو تو جیل کی ہوا کھانی پڑی اور ان کو سزا بھی مل چکی ہے مگر
افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ اس کے باوجود فرقہ پرستو ں کے دل کی بھڑاس
نہیں نکلی آخر وسندھرا راجے کی یہ دھمکی کس امر کی غماز ہے ’’کہ الیکشن کے
بعد معلوم ہو گا کو ن کس کوکاٹے گا‘‘ کیا اس سے ضابطہ اخلاق کی شکنی نہیں
ہو رہی ہے ہماری حیرت اور ہمارا یہ اضطراب بھی کس قدر درد انگیز ہے کہ ہمیں
تو ملک عزیز کی سلامتی او رامن عزیز ہے لیکن چندروسیاہ اور بدباطن جو اس پر
آمادہ ہیں کہ چند کروڑ مسلمان کا سیا سی جغرافیہ بھی بدل دیا جائے اور رہی
سہی رمق جو ان کے کمزور جسم میں ہے اس کو بد حواسی اور بے گانگی کی نذر
کردیا جائے وہ تمام شعور و ادارکات سے یکسر محروم ہیں۔
آخر ناصحین و واعظین کی ساری کو ششیں رائیگاں گئیں کہ یہ ملک جمہور ی ہے
اور یہاں صرف اور صرف جمہور ی فضا ہی قائم ہو سکتی ہے لیکن فرقہ پر ستی او
رہندو تو بلکہ مو دی تو کے نشہ بے خو دی میں مست ان دیوانگان بے عقل کو
کیسے بات سمجھ میں آئے گی کہ یہ جمہو ری ملک ہے او ر اس کے قیام ونفاذ میں
تمام مذہب او رملت کے لو گو ں نے دو ش بدوش قربانیاں نذر کی ہیں شاید اس
ذیل میں کو ئی مثبت جواب مل پائے کیو نکہ مو دی تو کا نشہ او رجنون اس قدر
سراسیمہ ہو چکا ہے کہ عقل و ہو ش کی باتیں بھی بر ی معلو م ہو تی ہے، کیو
نکہ ان کی سرشت میں مو دی تو کی وارفتگی حلو ل کر گئی ہیے اور ہر بن مو سے
ہر ہر مو دی کانعرہ مکروہ کاپیہم اظہار ہو رہا ہے !
وسندھراراجے کایہ بیان او ر اس سے ماخوذ نتائج کی طرف غو رکریں تو یکلخت
چیخ نکل جائے گی ،سینہ شق ہو جائے گا او رعقل بیگانی ہو جا ئے گی آخر
وسندھراراجے کے ذہن میں کو ن سا مرتب شدہ جامع پرو گرام ہے جس کے باعث
الیکشن کے بعد نمٹ لینے کی دھمکی دی جارہی ہے ؟کیا پھر گجرات اور مظفر نگر
جیسے ہولناک اور کربناک واقعات کی از سر نو تجدید کی جائے گی ؟کیا ملک کے
وہ سیکو لر لیڈر جو ملک کے امن و امان اور بقائے باہمی بلکہ جمہو ری مذہب
کی پیروی کرتے ہیں ان کی گردنیں ہندو تو او رمو دی تو کی دیو ی کی بارگاہ
میں بھینٹ کردی جائے گی کیا و ہ جمہور ی آئین جو آج بھی مسلم الحقائق پر
مبنی ہیں ان کی نظر میں فرسود ہ او رزنگ آلو د ہو گئے یہ ان کی نظروں میں
ہو سکتا ہے مگر یہ تو ان کادماغی خلل اور نقصان ہے پھر مو دی تو کانشہ بھی
تو کچھ کام کریگا ا س کی بھی کارفرمائی ہو نی چاہیے !وسندھراراجے نے از خو
د یہ بزم جدال نہیں سجائی ہے اور نہ ہی اپنی خو شی اور رغبت سے ساقی گری
کیلئے تیار ہو ئی ہے بلکہ یہ ان کی جماعت کے سرکردہ لیڈران ،آرایس ایس اور
پارٹی ہائی کمان کی طرف سے رٹی رٹائی بات او رتند تیز او رتیشہ زن لب و
لہجہ ہے ورنہ اس ’ناری ‘کو ضرورت ہی کو ن سی آن پڑی تھی کہ وہ اس نارجدال
میں کو د پڑے ۔
مظفر نگر میں جو بھی ہوا گجرات کے بالکل مشابہ ہے تمام انسانی تقاضوں او
رحرمتو ں کو پامال ہی نہیں کیا گیا بلکہ بے حرمتی اور پامالی کی ایک طرح نو
او رداستان پر دردرقم کی گئی کہ زمین بھی کانپ گئی اور فلک بھی تھرا گیا
خداخدا کر کے ماحول پر سکون ہوا ہے لیکن جو زخم لگ چکے ہیں وہ شاید مندمل
ہو ں اب اسی زخم پر نمک پاشی کی سفاکیت دیکھئے کہ مو دی کے دست راست امیت
شاہ پھر جاٹو ں کو قتل و خون پر آمادہ کر رہے ہیں کہ متو قع الیکشن جاٹو ں
کیلئے ایک مو قع فراہم کر رہا ہے کہ جس کے ذریعہ بدلہ لیا جاسکتا ہے او راس
کیلئے کو ئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کرے امیت شاہ یہ بھو ل گئے کہ الیکشن کے دو
ران کسی خاص طبقے کے خلاف منافرت پھیلانا اور جذبات کو بر انگیختہ کرناجرم
ہے آخر ایسے مو قعو ں پر الیکشن کمیشن کیو نکر جانبداری سے کام لیتا ہے؟
امیت شاہ علی الرغم یہ امید رکھتے ہیں کہ اگلی سرکارمو دی سرکار ہو گی لیکن
آخر وہ یہ کیو ں بھو ل جاتے ہیں کہ آج بھی ملک کی عوام کی اکثریت سیکو لرزم
کو ہی اپنامذہب قراردیتی ہے اور ان کا اپنا ایمان آج بھی یہی ہے کہ اگر ملک
کی سا لمیت ہے تو وہ صرف اور صرف سیکو لرزم او رآپسی اتحاد میں ہے لیکن یہ
ان کی ہٹ دھرمی ہے کہ باربار مذہبی نعروں اور آپسی انتقام کے ذریعہ ووٹ
لینا چاہتے ہیں آخر یہ بھی کو ئی حربہ او رسیا سی ہتھکنڈہ ہے ؟ جب کہ وہ
ترقی کے نام پر گجرات ماڈل کانمو نہ پیش کرتے ہیں کہ گجرات جیسی ترقی اب
ہندو ستان کی تقدیر کا ایک نیا عنوان لکھے گی اور وہ لو گ جو دبے کچلے ،بے
روزگار ہیں ان کو ترقیات کی اعلی سطح تک لا یا جائے گا لیکن جس طرح سے مو
دی کے گجرات کی حقیقت کھلی مدعیان ترقی بھی حیرت بداماں ہو کر رہ گئے کہ
ہمارے دعووں اور کھوکھلی حقیقتو ں کا اس طرح جنازہ نکلے گااور پھر گجرات کی
ترقی جگ ظاہر ہے کہ وہاں ترقی کی رفتار کیا ہے ؟مو دی اور ا س کے حواری جس
ترقی کی بات کرتے ہیں ا سکی رفتار صفر ہے گجرات میں ترقی او ر شادابی کی
اصل کہانی یہی ہے کہ وہاں کا ذرہ ذرہ خون مسلم کی ارزانی کا قصہ دل فگا
رسنا رہا ہے کہ ترقی کس چیز کی ہو ئی ہے اور تر قی کے معنی مو دی کی نظر
میں کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مو دی پو ر ے ملک کو اپنا ’گجرات‘ بناناچاہ
رہا ہے اور ا سکی تمام سرشتہ امید وں کو عملی جامہ بھی پہنایا جارہا ہے اور
جو کچھ بھی اس کے دست راست نے مظفر نگر میں کہا اس سے یہ بھی عیاں ہو گیا
کہ کو ن مظفر نگر کے پر ستم داستان کامجرم ہے کو ن ا سکے خالق او
ر’رچناکار‘ہیں کن لو گو ں کے اشارے پر یہ ہلاکت آفرینی اپنی ایک نئی روداد
بیان کر رہی ہے ؟جس طرح سے امیت شاہ نے اپنی ہذیان گو ئی کا مظاہر ہ کیا ہے
او راس پر کو ئی نکیر نہ کی گئی ہے تو الیکشن کمیشن کے مقررہ معیا رپر
سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور اس پر قائم اعتماد کو جھٹکالگا ہے ۔عمران مسعود
کو فو را سلاخوں کے پیچھے کیا گیا لیکن وسندھرا راجے او رامیت شاہ کو کیو ں
نہیں گرفتار کیا گیا کیا یہ فرقہ پرست او ’رمو دی تو ‘کے جنون میں مبتلا لو
گ یو ں ہی جذبات کو مشتعل کرتے رہیں گے اور کمیشن محو تماشہ رہے گا ؟یاد
رہے کہ گذشتہ عام انتخابات کی تشہیر اور انتخابی مہم کے دوران ورون گاندھی
بھی ا س طرح کے بیانات کے ذریعہ بی جے پی کی مٹی پلید کرچکے ہیں لیکن ا س
بھگوا گاندھی کی گرفتار ی بھی عمل میں نہیں آئی تھی آخر کیو ں ایسا ہوتا ہے
کہ فرقہ پرست کھلے عام کاٹ او رمار کی بات کرتے ہیں اور کمیشن اس کو نظر
انداز کرتا رہا ہے کیا یہ بے لگام سیاسی بھگوا لیڈر کی حو صلہ افزائی او
رتشجیعی خامو شی نہیں ہے اگر ایسا ہے تو پھر الیکشن کمیشن کا وجو د چہ معنی
دارد ؟
ایک طرف جہاں امیت شاہ ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑارہے ہیں تو د و سری طرف
وسندھراراجے ا س باز ی میں سبقت لے جانے کی فکر میں ہے آخر ا س بو العجبی
اور خلل دماغی کی وجہ کیا ہے جب اس کے مضمرات کی طرف دیکھتے ہیں تو یہی صاف
ظاہر ہو تا ہے کہ عوام کومذہب کے نام پر جتنا کسایا جائے کم ہے اور ا س دام
فریب کے ذریعہ ووٹ حاصل کیا جائے یہ ان کی مسخ فطر ت کامظہر ہے کہ ان کے
تمام تصورات عملی جامہ سے ملبو س ہو ں یہ ان کی پست سو چ اور گمراہ فکر کی
بد ترین تصویر ہے کہ وہ اس خیال میں غلطاں و پیچاں ہوں کہ ووٹ ان کو مل
جائے گا اور یک لخت اقتدار کی کرسی پر قابض ہو جائیں گے آہ!کیسے یہ فطرت کے
مسخ شدہ لو گ ہیں جو اپناایما ن او رایقان فرقہ پر ست سو چ پررکھتے ہیں عض
کی صورت مسخ بھی ہو گئی ہے دل تو کب کا مسخ ہو چکا تھا او روہ اپنے فطری
تخلیق سے کو سو ں دو رہیں اگر ان کے ضمیر کی آواز دل میں گو نج رہی ہے تو
پھر کیو ں یہود کی صفت اختیار کرچکے ہیں ۔اب تو ہماری بیدار عوام فیصلہ کرے
گی کہ مو دی تو کی فرضی لہر اور فرضی قصو ں کا کیسے مقابلہ کیا جائے گااو
رکس طرح ان کے عزائم کو تباہ و برباد کیا جائے گا عوام کادل زندہ ہے ،سو چ
مغلو ب سے عاری ہے اور فکر ی لیاقتیں پایندہ ہیں کچھ لمحے انتظار کیجئے
فیصلہ آپ کے سامنے ہو گا۔ فانتظر یا اولی الابصار! |