حالات تو کل بھی بہت خراب تھے اور آج بھی ایسے ہی ہین ،کل
جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم کرنا تھا اس لیے ہر طرف سے یہ ہی بازگشت تھی ،دنیا
کو اپنی انگلیوں پر نچانے والی جمہوریت پسند قوتیں مسلمان ممالک میں
جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتی ، ایران ،عراق اور مصر اس کی
مثال ہیں جہاں آمریت کو طویل عرصے کے لیے نہ صرف برداشت کیا جاتا ہے بلکہ
اس کی درپردہ پشت پناہی بھی کی جاتی ہے . جبکہ جمہوریت کو بس ایک جزوی وقت
کے لیے سامنے لایا جاتا ہے .
پاکستان میں فوجی جرنیل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو منتخب حکومت کا
تختہ الٹا اور اقتدار پر نو سال تک قابض رہے ان کی جانب سے 2008 میں دوسری
بار انتخابات کرائے گئے جس کے نتیجے میں آصف زرداری کی قیادت مین ایسی
جمہوریت وجود میں آئی کہ جمہوریت اور جمہوریت پسندوں کو بھی شرم آنے لگی
جبکہ آمریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوئے ، لیکن کل جمہوریت عام افراد کو بھی
عزیز تھی کیونکہ آمریت نے ملک کو نئے چیلنجوں کی طرف دکھیل دیا تھا اس لیے
جمہوری نظام کے تسلسل کی امنگ تھی خرابیاں جمہوریت میں واضح ہوچکی تھیں
تاہم آصف زرداری نے پانچ سالہ دور مکمل ہونے پر عام انتخابات کا انعقاد
کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں ، آصف زرداری
جہاں دیدہ شخصیت ہیں انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر وہ اپنی مرضی نظام
چلاتے رہے تو ملک کو جمہوری عمل کے نقصان کے ساتھ دیگر نقصانات کا بھی
سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے خطرناک نتائج ان کے ساتھ ملک و قوم کو بھی
برداشت کرنا پڑیں گے. یہ وجہ تھی کہ انہوں نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے کے
ساتھ منتخب حکومت سے مکمل تعاون بھی کیا -
نواز شریف کی موجودہ حکومت اپنے مستحکم ہونے کے زعم میں مختصر مدت میں ایسے
فیصلے کیے جس میں فوج کی رضا مندی شامل نہیں تھی .
اگرچہ مسلم لیگ کے سربراہ نے اقتدار میں آکر ریٹائر ہونے والے جنرل اشفاق
پرویز کیانی کی جگہ سینئر جرنیل کے بجائے جونیئر جنرل راحیل شریف کو چیف آف
آرمی مقرر کیا کہ وہ ان کے ساتھ بہتر طور پر چل سکیں گے.
نواز شریف نے یقینا یہ فیصلہ اپنی اور اپنی حکومت کی بقا کے لیے کیا ہوگا ،
لیکن یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ نظم و ضبط کی پابند پوری فوج کو یہ بات اچھی
نہیں لگی ہوگی کہ ایک سینئر کی موجودگی میں جونیئر کا انتخاب کیا گیا ہے.
اس غلطی کے بعد اغلاط کا سلسلہ شروع ہوگیا.
نواز شریف حکومت کا طالبان سے مذاکرات کی باتوں سے ہی فوج میں بےچینی اور
تشویش پھیلنے لگی مگر میاں صاحب اور ان حکومت اقتدار کی شراب پینے میں
مصروف رہی ، پیتے پلاتے وقت ویسے بھی بہت ظرف والے لوگ ہی آس پاس نظر رکھ
پاتے ہیں.
فوج کی خواہشات کے برعکس سابق فوجی جنرل پرویز مشرف کو مقدمات میں پھنسانا
، اور عدالت کو کوئی اعتراض نہ ہونے کے باوجود انہیں اپنی بیمار والدہ کی
عیادت کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت نا دینے سے بھی فوج کے ایک حصے میں
بے چینی پائی جانے لگی ....... اس بے چینی کو بھی چھوڑدیتے ہیں .......
لیکن کوئی ادارہ اور ملک کا اہم ترین ادارہ بھلا اپنے ہی خلاف براہ راست
تنقید کیسے برداشت کرسکتا ہے ....تہمینہ دولتانہ کہتی ہیں کہ فوج اور سیاست
الگ الگ اکائیان ہیں ، یہ بات درست تسلیم کی جاسکتی ہے لیکن لہجہ میں تذلیل
چھپی ہو تو کون برداشت کرے گا ،کیسے اور کیوں برداشت کرے گا؟
پیپلز پارٹی کی حکومت کے پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی حکومت کے
پہلے سال میں جب یہ بیان دیا کہ فوج اور حکومت میں ہم آہنگی ہے تو انہیں
اپنے اس بیان کی وضاحت کرنی پڑی.
حکومت کس حد تک طاقتور ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب
پیر کو جنرل راحیل شریف نے یہ بیان دیا کہ " فوج ہر حال میں اپنے وقار کی
حفاظت کرے گی " حکومتی ایوان ہلنے لگے ،اقتدار کے نشے میں مست حکمرانون کی
نیندیں اور نشہ ساتھ ہی اڑگیا. بدھ یعنی 8 اپریل کو کور کمانڈر کانفرنس
جنرل راحیل شریف نے طلب کی ہے ،یہ کانفرنس انتہائی اہم ثابت ہوگی ، ملک میں
جمہوریت اور فوج کی بقاء کے لیے ،دیکھتے ہیں کل کیا ہوتا ہے ملک میں-
|