ایک جانب حکومت طالبان مذاکرات
خوش اسلوبی سے کامیابی کی جانب گامزن ہیں ،قریقین کی مذاکراتی کمیٹیاں
مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے کوشاں و سرگرداں ہیں جبکہ دوسری جانب مذاکرات
مخالف قوتوں کو یہ کامیابی ہضم ہوتی نظر نہیں آرہی، وہ ان مذاکرات کو
سبوتاژ کرنے کے لیے ملک خداد پاکستان کو خون میں نہلانے کا عزم کرچکی
ہیں۔ملک دشمن عناصر کی جانب سے متعدد بار مذاکرات کو تہ و تیغ کرنے کی کوشش
کی جاتی رہی ہے، لیکن ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اس بار
دہشتگردوں نے تباہی مچانے کے لیے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو چنا
ہے۔ بدھ کے روز اسلام آباد میں سیکٹر ایچ 11 میں واقع سبزی منڈی کے اندر
صبح کے مصروف اوقات میں دھماکا ہوا ہے، جس سے اب تک کی اطلاعات کے مطابق 23
افراد جاں بحق اور 120 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔زخمیوں میں بعض ایسے افراد ہیں
جن کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔اسلام آباد پولیس کے آئی جی خالد خٹک کے
مطابق یہ سبزی منڈی علاقے کی بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے اور یہاں کئی مختلف
علاقوں سے پھلوں اور سبزیوں کے تاجر آتے ہیں۔ اس منڈی میں صبح سویرے ہی
نیلامی شروع ہو جاتی ہے اور آج بھی یہ واقعہ ایک نیلامی کے دوران پیش آیا۔
اسسٹنٹ آئی جی اسلام آباد کے مطابق اس حملے میں تقریباً پانچ کلو دھماکا
خیز مواد استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے ایک روز قبل ہی منگل کو دن ایک بج کر
دس منٹ پر کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس جیسے ہی سبی ریلوے
جنکشن پر پہنچی تو اس کی بوگی نمبر9 میں زوردار بم دھماکا ہوا، جس کے نتیجے
میں بوگی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ دھماکے کے بعد ٹرین میں آگ لگ گئی۔ بم
دھماکے کے بعد تین بوگیوں میں آگ بھڑک اٹھی، نعشیں جھلس کر ناقابل شناخت ہو
گئیں۔ جعفر ایکسپریس میں بم دھماکے سے خواتین اور بچوں سمیت 17مسافر مارے
گئے اور50 زخمی ہوئے۔ ڈی آئی جی سبی کے مطابق دھماکے میں 20 سے 25کلو
دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔ اس کے ساتھ منگل کے روز کراچی سمیت سندھ
بھر میں 14سے زاید دستی بم حملے ہوئے، جن میں اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں
ہوا لیکن متعدد افراد زخمی ہوئے اور شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔منگل کے روز
ہی یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے ترجمان نے جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کی
ذمہ داری قبول کرلی۔بلوچ ترجمان کا کہنا تھاکہ یہ کارروائی پیر کے روز
فرنٹیئر کور کی طرف سے تربت اور خضدار میں ہونے والی کارروائیوں کا ردعمل
ہے، جبکہ انھوں نے پاکستانی عوام کو متنبہ کیا کہ فی الحال ٹرین کے سفر سے
گریز کریں، کیونکہ ایف سی کی جانب سے ہونے والی کارروائیوں کے نتیجے میں وہ
دوبارہ ٹرینوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے
نامعلوم مقام سے جاری کیے گئے بیان میں سبی ریلوے اسٹیشن اور اسلام آباد
دھماکوں سے لاتعلقی اور اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان جنگ بندی
پر کاربند ہے، ماضی میں بھی تحریک طالبان کے نام سے خفیہ ہاتھ دھماکے کرتے
رہے، لاہور اور پشاور سمیت کئی شہروں میں دھماکے کیے جاتے رہے اور ان
دھماکوں بھی یہی خفیہ ہاتھ ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور سندھ کے
مظلوم افراد ہمارے بھائی ہیں، بے گناہ افراد پر حملے شرعاً ناجائز اور حرام
ہیں جن کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ ریاستی عناصر کی جانب سے ظلم کا جواب
ایسے حملوں سے دینا بھی ظلم ہے۔ عوامی مقامات پر حملوں میں بے گناہ افراد
کی اموات افسوسناک ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایسے حملوں میں خفیہ ہاتھوں کو
فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ
طالبان کے اسلام آباد واقعے سے لاتعلقی کے اظہار کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی
ہے کہ معصوم زندگیوں سے کھیلنے والے دہشت گرد اب تنہا ہوتے جارہے ہیں۔
واقعہ انتہائی افسوسناک ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ہم یقین دلاتے
ہیں کہ مجرموں کوکیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور
اگر انتظامیہ کی غفلت ہوئی تو اس کی بھی بازپرس کی جائے گی۔ انہوں نے کہا
کہ طالبان نے واضح طور پر کہا کہ دھماکے سے ان کا کوئی تعلق نہیں، جس سے یہ
اطمینان ہوتا ہے کہ جن سے مذاکرات کر رہے ہیں وہ بھی اب ایسے واقعات کی
مذمت کر رہے ہیں۔پرویز رشید کا کہنا تھا کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے طویل
عرصے تک ایسے واقعات نہیں ہوئے اور طالبان کے واقعے سے لاتعلقی کے اظہار کے
بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معصوم زندگیوں سے کھیلنے والے اب تنہا ہوتے
جارہے ہیں، 1999 سے قبل پاکستان ایک محفوظ ملک تھا اور ہم عوام سے یہ وعدہ
کرتے ہیں کہ انہیں اسی طرح کا محفوظ ملک دے کر جائیں گے۔بعض رہنماﺅں نے کہا
ہے کہ ملک میں ہونے والے بم دھماکوں، تخریب کاری اور دہشت گردی میں بھارت
اور ملک دشمن عناصر ملوث ہیں۔
واضح رہے کہ عین اسی روز( بدھ) جس دن اسلام آباد میں تباہی مچی، اخبارات
میں یہ خبر شائع ہوئی کہ خفیہ ایجنسیوں نے پولیس کو خبر دار کیا کہ حکومت
اور طالبان کے درمیان مصالحتی عمل کے مخالف شدت پسند اسلام آباد، پشاور اور
کوئٹہ میں شدت پسند سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں اور
وزارتِ داخلہ کے حکام کے مطابق اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا شدت
پسند کب حملے کریں گے، لیکن حکام نے ایک نئے گروپ انصارالہند کے بارے میں
بتایا جو ان حملوں کی ذمہ داری قبول کریں گے۔ اس امکان کے باوجود کہ تین
شہروں میں ممکنہ حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرات سے ٹی ٹی پی کی ہمدرد قیادت
حکومت پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کرسکتی ہے، پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ
انتظامیہ ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ
اگرچہ امن مذاکرات جاری ہیں، لیکن ہم ان شہروں میں سیکورٹی کو یقینی بنانے
کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے
اور ایجنسیاں ان حملوں کا اہم ہدف ہیں اور ان کی ناکامی کی وجہ سے ان حملوں
کا ہدف دوسری عوامی اور سرکاری تنصیبات ہوسکتی ہیں۔ سیکورٹی ذرائع کا کہنا
ہے کہ منظر نامے سے ایسا لگ رہا ہے کہ اس مرتبہ بھی اسی طرز کے حملے کیے
جاسکتے ہیں ،جو گزشتہ مہینے ٹی ٹی پی کی جانب سے ایک مہینے کی جنگ بندی کے
اعلان کے بعد کیے گئے۔
واضح رہے کہ جس دن یہ خبر شائع ہوئی اسی دن اسلام آباد میں تباہ کن حملہ
ہوا، اوربدھ کے روز ہی پولیس نے صادق آباد کے علاقے میں ریلوے ٹریک کو
دھماکا خیز مواد سے تباہ کرنے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 2 دہشت گردوں کو
گرفتار کرکے 6 کلو بارودی برآمد کیا۔دہشتگرد صادق آباد کے قریب ریلوے ٹریک
پر بم نصب کررہے تھے، کچھ دیر بعد قراقرم اور جعفر ایکسپریس نے اس ٹریک سے
گزرنا تھا۔ اسی روز دہشتگردوں کی جانب سے کراچی میں بھی بڑی تباہی پھیلانے
کا منصوبہ بنایا گیا تھا، جسے پولیس نے بم برآمد کر کے ناکام بنا دیا،جبکہ
اس سے ایک روز قبل ہی جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں متعدد
افراد جاں بحق ہوئے تھے،مبصرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے تمام حملوں میں ملک
دشمن عناصر ملوث ہیں جو مختلف شہروں میں حملے کر کے ایک طرف خوف و ہراس
پھیلانا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں،
چونکہ مذاکرات کی ملکی مفاد میں ہیں، جب سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ہے
اس وقت سے ملک میں امن و سکون کی کیفیت ہے اور ملک دشموں کو یہ امن کہاں
گوارا ہے، اس لیے وہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور
لگارہے ہیں، مبصرین کے مطابق مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والوں میں بیرونی ہاتھ
ملوث ہیں،اس کی تصدیق کچھ روز قبل شائع ہونے والی رپورٹ سے بھی ہوجاتی
ہے،کچھ روز قبل ہے ایک رپورٹ میں ملک میں پولیو ورکرز پر حملوں میں بھارتی
خفیہ ایجنسی ”را“ کے ملوث ہونے کا انکشاف ہواتھا۔ذرائع کے مطابق رپورٹ میں
انکشاف کیا گیا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کو کراچی اور خیبر پی کے کے
مختلف علاقوں میں ایسے گروپس اور تنظیموں کا تعاون حاصل ہے جنہوں نے ٹارگٹ
کلرز ونگ قائم کر رکھے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی اپنے مذموم مقاصد کے حصول
کے لیے افغان انٹیلی جنس سے روابط رکھنے والے بعض چھوٹے گروپس کو پولیو
ورکرز پر حملوں کیلئے فنڈز بھی فراہم کر رہی ہے۔ بھارت پولیو کے خلاف مہم
چلاکر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔ ان حقائق کے
سامنے آجانے کے بعد حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بیرونی ہاتھوں کو تلاش
کرے جو ملک کے بے گناہ عوام کو خون میں نہلا نا چاہتی ہیں۔ |