کشمیر نے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا

تحریر:الیاس حامد
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے نمائندے اوون بینیٹ جونز نے حالیہ دنوں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا۔ اس دورے میں موجودہ حالات کا مشاہدہ کیا، وہ کشمیریوں سے ملا۔ نوجوان نسل سے تبادلہ خیال کیا، کشمیریوں کے سماجی اور معاشرتی مسائل جن کا تعلق موجودہ حالات سے ہے، بیان کئے، ان حالات میں اہل کشمیر کیا چاہتے ہیں اور کیا سوچتے ہیں؟ انہیں قلم بند کرتے ہوئے اپنی رپورٹ مرتب کی۔

بی بی سی اپنے تئیں آزاد اور غیر جانبدار ادارہ ہونے کا دعوے دار ہے اور اس کا چرچا بھی خوب کرتا ہے مگر اس رپورٹ سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کس قدر ’’غیرجانبداری‘‘ سے کام لیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو پاکستانی ٹی وی چینل کا پراپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اوون بینیٹ جونز لکھتا ہے ’’کوئی بھی شخص جو پاکستان جا چکا ہو۔ وہ کشمیر کے بارے میں اپنے حصے کی بہت سی خبریں (پراپیگنڈہ) سن چکا ہوتا ہے، پندرہ برس تک پاکستان میں آتے جاتے وہ سب کچھ مجھے بھی ازبر ہو گیا تھا۔‘‘
موصوف کو کشمیریوں پر بھارتی مظالم اپنے حصے کی خبریں اور پراپیگنڈہ لگتا ہے۔ چلیے ایک لمحے کے لئے مان لیتے ہیں کہ پاکستانی ٹی وی کی خبریں جو قابض بھارتی فوج کے مظالم کو بیان کرتی ہیں وہ پراپیگنڈہ ہیں، مگر لاکھوں کشمیریوں جن میں نوجوان، بچے، بوڑھے اور خواتین شامل ہیں، کی بے دردی سے شہادت کو کیا کہیں گے؟ یہ اعدادوشمار کمی بیشی کے ساتھ حقوق انسانی کی تنظیمیں اور ادارے بھی بیان کر چکے ہیں(جس کا انہوں نے خود اقرار بھی کیا ہے) مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوں اجتماعی قبروں کی دریافت اور ان میں ہزاروں کشمیریوں کی تدفین بھی جھوٹ اور پراپیگنڈہ ہے؟ حالیہ دنوں میں وہ کشمیری جو بھارتی کرکٹ ٹیم کی شکست اور پاکستانی ٹیم کی فتح پر جشن منا رہے تھے، انہی میں سے ایک نوجوان کو بھارتی فوج نے چھرا گھونپ کر شہید کر دیا۔ بی بی سی کے اہلکار سے سوال ہے کہ وہ کون سا دن ہے جب کشمیری ماں اپنے لخت جگر کا لاشہ نہیں اٹھاتی؟

کشمیریوں پر بھارتی افواج کے مظالم کا ایک طویل باب ہے اور اس پر درجنوں اداروں کی رپورٹس ہیں جنہیں اس محدود بیاض میں شامل کرنا محال ہے تاہم بھارتی افواج کے مظالم پر تازہ ترین رپورٹ شامل ہے جو 3فروری 2014ء کو ہی انسانی حقوق کی تنظیم ’’جموں کشمیر ہیومن رائٹس موومنٹ‘‘ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے مظالم کے حوالے سے شائع کی ہے جس کے مطابق 1947ء سے 2013ء کے اختتام تک پانچ لاکھ افراد شہید اور 9988خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ لاپتہ افراد کی تعداد دس ہزار ہے، ایک لاکھ دس ہزار بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کے کالے قانون کے تحت ایک لاکھ دس ہزار کشمیری جیلوں میں بھارتی مظالم سہنے پر مجبور ہیں۔ اس تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہید کئے گئے افراد میں زیادہ تعداد 11سال تک کے بچوں اور 60سال تک کے عمر والے افراد کی ہے۔ 710خواتین ایسی ہیں جنہیں زیادتی کے بعد قتل کیا گیا (یہ اعدادوشمار رپورٹ کے ہیں، حقیقتاً اس سے کہیں بڑھ کر ہیں) رپورٹ کے مطابق 1990ء سے 2013ء تک ایک لاکھ 6ہزار افراد کو شہید کیا گیا مگر اقوام متحدہ ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہی۔

بی بی سی کے سینئر صحافی مسٹر اوون بینیٹ جونز کو یہ روز روشن کی طرح عیاں اعدادوشمار نظر نہیں آئے، ہمیں اس بات پر حیرت ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اتنا مستند اور سینئر صحافی انسانی حقوق کی رپورٹس سے بے بہرہ ہو، البتہ یہ رائے قائم کرنا مستحکم امر ہو گا کہ ’’آزاد اور غیرجانبدار‘‘ ہونے کا دعویٰ محض ڈھونگ ہے۔ جہاں اسلام، مسلمان اور پاکستان کی بات آ جائے سب خود ساختہ آزاد اور غیرجانبدار ذرائع اس قدر جانبداری اورتنگ نظری سے کام لیتے ہیں کہ عام آدمی بھی ان کے اس اقدام سے چونک اٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں کسی غیر مسلم کو کانٹا بھی چبھ جائے تو یہی آزادی صحافت کے علمبردار وہ واویلہ کریں گے اور وہ شور مچائیں گے، عوام سمجھے گی کہ نہ جانے کیا قیامت ٹوٹ پڑی؟
آپ وسطی افریقی جمہوریہ کی مثال ہی لے لیجئے وہاں جس انداز سے مسلمانوں کا صفایا کیا جا رہا ہے اور جس بے دردی اور سفاکیت سے مسلمانوں کو کاٹا جا رہا ہے تاریخ ایسی مثالیں دینے سے قاصر ہے۔ آپ دنیا کے درد ناک مظالم کو دیکھ لیں وہ مظالم بھی ان بے چارے، بے بس، لاچار مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے کوہ ستم کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ظلم در ظلم یہ ہے کہ اس عمل میں دہشت گرد صلیبی درندوں کو ان کی حکومت اور دیگر امن کے نام پر آئی فورسز کا تحفظ حاصل بھی ہے۔ آپ کسی میڈیا کو جو کہ ورلڈ وائیڈ اپنی نشریات چلاتے ہیں، بغور دیکھ لیں وسطی افریقی جمہوریہ کے مسلمانوں کے قتل عام کو کتنی کوریج دیتے ہیں؟

بی بی سی کے نمائندے نے جہاں کشمیریوں کے کلچر، سیاحوں سے حسن تعلق اور برتاؤ کا ذکر کیا وہاں کشمیری نوجوانوں اور بچوں کا کرکٹ کے ساتھ تعلق اور شوق بھی بیان کیا۔ موصوف لکھتے ہیں کہ باقی جنوبی ایشیا کی طرح کرکٹ کشمیر میں بھی کافی معروف ہے۔ اپنی رپورٹ میں دس سے بارہ سال تک کے بچوں کی ایک تصویر بھی شائع کی ہے، جنہوں نے اپنے ہاتھ میں بیٹ پکڑے ہوئے ہیں، ان میں ایک بچے نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی یونیفارم جیسی گرین شرٹ پہن رکھی ہے جس کے سامنے Pakistan لکھا ہوا ہے۔ جس بات سے اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ کشمیر کا نوجوان اور بچہ بچہ پاکستان سے کس قدر محبت کرتا ہے اس کا دلی میلان پاکستان کے ساتھ ہے مگر بی بی سی کے صحافی نے اس بات کا سرسری تذکرہ بھی نہیں کیا ،کہ وہاں کے نوجوان اور بچے پاکستان اور پاکستانیوں کو پسند کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تعلق اور لگاؤ کے اظہار کے لئے ایسی ٹی شرٹ اور لباس ڈھونڈ کر پہنتے ہیں گوکہ وہاں پاکستانی ٹیم کی پرنٹ شدہ ٹی شرٹس ملنا بہت مشکل ہیں۔

حقیقت کو جتنا بھی چھپانے کی کوشش کی جائے آخرکار عیاں ہو کر رہتی ہے۔ اوون بینیٹ جونز کے مطابق بھارتی حکومت وادی کشمیر کے باسیوں کے دل جیتنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، یہاں تک کہ بھارت نواز نیشنل کانفرنس بھی وادی میں بھارتی راج کو صرف ایک ایسی حقیقت سمجھتی ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ چاہے اس کی وجہ وہ سیاسی روایت ہو جس کے تحت کشمیری رہنما دلی یا اسلام آباد کی جانب دیکھتے رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ایسے کشمیریوں کی تعداد کم ہی ہے جو آزادی کو جوش و جذبے کے ساتھ گلے نہ لگائیں۔

اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ کشمیریوں نے موجودہ حالات میں جینا سیکھ لیا ہے۔ بھارتی فوج نے اپنے مخبروں اور جاسوسوں کا وسیع نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے، آپ کسی کیفے میں چائے کی ٹیبل پر کسی کشمیری سے پوچھیں کہ کتنے فیصد کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں تو وہ کہے گا 25فیصد اور اگر کوئی اجنبی ساتھ بیٹھا ہو یا ریکارڈنگ کا خدشہ ہو تو فوراً کہے گا 10فیصد، کہ کہیں کوئی مخبر نہ سن لے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیری عوام کس قدر خوف، وحشت اور بے چینی کی کیفیت میں گھٹن کے ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔ بھارت کی یہ دہشت گردی اور انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ان صحافیوں کو نظر نہیں آتی اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر بھارت کی اس دہشت گردی کو بیان کرتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی اسے عیاں کرنے کی کوشش کرے تو اسے پراپیگنڈا کہہ کر زائل کرتے ہیں تاکہ ’’آزاد اور غیرجانبدار صحافت‘‘ کا حق ادا ہو سکے۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 176387 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.