آج کل ہمارا پیارا ملک پاکستان ایک مشکل اورنازک دور سے گزر ہاہے۔ایک طرف
طالبان سے مزاکرات کا عمل جاری ہے تو دوسری طرف پرویز مشرف صاحب کا کیس ایک
معمہ بن چکا ہے۔اپوزیشن کی تنقید بھی جاری ہے اور فوج اور رائے ونڈ کے
درمیان کشمکش بھی زوروں پر ہے۔اس مشکل حالات میں بجائے وفاقی حکومت کی
حمایت اور اس سے مل کر مسا ئیل کو حل کرنے کے، سب پارٹیاں ادھر اُدھر کی
تنقیدی بیانات سے وفاقی حکومت پر ڈرون حملے کر رہے ہیں۔اسلام آباد کے
دھماکہ پر ان کے تنقید میں اور اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔گزشتہ روزاپوزیشن لیڈر
خورشید شاہ نے ایک بیان میں کہا کہ وزیرداخلہ اور ایجنسیاں بتائیں کہ اسلام
آباد دھماکہ میں طالبان نہیں تو کون ملوث ہیں ؟انہوں نے وزیر داخلہ پر مزید
تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چودھری نثار غروروتکبر ترک کر کے صورتحال پر توجہ
دیں، یہ امن ہے تو امان کسے کہتے ہیں؟؟ یہ پڑھ کر مجھے لگا کہ خورشید شاہ
صاحب تنقید نہیں بلکہ ملک میں امن وامان کا خواہشمند ہیں۔پھر مجھے آج کے
خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی حکومت خورشید شاہ میں بہت بڑا فرق نظر آیا۔میں
اُس خورشید شاہ صاحب کو بھول گیا تھا جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں دھماکہ
ہونے پر افسوس کرنے اور سوگ منانے پر اکتفا کرتا۔وہ دور یاد جب ملک میں ہر
طرف بدامنی، افراتفری اور لاقانونیت تھی۔مارچ 2008 کا مہینہ یاد آگیا جہاں
ملک چاروں طرف دھماکوں میں گھیرا ہوا تھا۔تربت ، لورالائی ، ڈیرہ غازی خان
، دیر اور کوئٹہ وغیرہ میں قیامت کے وہ مناظر ابھی تک لوگوں کی ذہن میں
گردش کر رہی ہیں۔پھر کراچی کے واقعات یاد آگئے جس پر خورشید شاہ صاحب نے
18فروری 2013 کو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کراچی کے واقعات کا صرف
ہم ذمہ دار نہیں بلکہ یہ ایجنسیوں کی ناکامی بھی ہے۔2013 کے کراچی اور
کوئٹہ دھماکوں کے بارے میں جب ڈان نیوز کے ایک پراگرام (05 ماچ 2013 )میں
جناب خورشید شاہ سے پوچھا گیا تو مو صوف نے سُنی اور شیعہ فسادات اور فرقہ
واریت کا رنگ دیا اور حالات پر کنٹرول لانے کے لئے کوشش کرنے کو
کہا۔حالانکہ اُس وقت پتہ نہیں اُس کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آئی کہ اب
تو حکومت اپنی پانچ سال مدت پورا کرنے کو ہے اور یہ جناب اب کوشش کرنے کی
باتیں کرتے ہیں۔اگر اب کوشش کرتے تو کوئی یہ تو بتا دیں کہ گزشتہ پانچ سال
یہ کیا کر رہے تھے ؟ وفاقی حکومت کو حالات پر توجہ دینے والا وہ دور کیسے
بھول سکتا ہے کہ جب کہی دھماکہ ہوتا توصرف افسوس اور سوگ کے اعلان پر اکتفا
ہوتا اور دورسری پارٹیوں کو تعاون کرنے کو کہا جاتا۔اب پیپلز پارٹی اپنی
تعاون کی پالیسی پر خود کیوں عمل نہیں کرتی؟؟؟
مہنگائی یاد آئی، موبائل کارڈز پر حد سے ذیادہ ٹیکس لگانااور پٹرول کی
قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنے کا زمانہ بھی یاد آیا۔ریمنڈیوس کی رہائی اور
اُسے اپنے ملک واپس بھیجنا بھلا کون بھول سکتا ہے۔پھر ملک میں وائرس کی طرف
پھیلنے والے دھماکے اور ڈرون حملے یاد آگئے۔
2004 سے 2008 تک پرویز مشرف صاحب کے دور میں صرف دس ڈرون حملے ہوئے تھے
جسمیں تقریبا 121 افراد مارے گئے تھے لیکن پیپلز پارٹی کی بات کچھ اور
تھی۔پیپلز پارٹی کی حکومت میں2008 میں تقریبا 26 ڈرون حملے ہوئے جسمیں میں
156 افراد مارے گئے تھے۔2009 میں 48، 2010 میں 97، 2011 میں 52 اور 2012
میں37 حملے ہوئے تھے جس میں بالترتیب 536، 831، 548 اور 344 افراد جاں بحق
ہوئے تھے۔ نواز شریف صاحب کے حکومت میں بھی کئی ڈرون حملے ہوئے لیکن 2014
میں ابتک ایک بھی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔2008 سے 2013 تک ڈرون حملوں کے علاوہ
ملک میں اور بھی بہت دھاکے ہوئے جس میں بہت سے بے گناہ مارے گئے۔سال 2008
دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد تقریبا 2155، 2009 میں مرنے والوں کی
تعداد2324، 2010 میں 1796، 2011 اور 2012 میں مرنے والوں کی تعدادبالترتیب
2778 اور 3007 تھے۔دوسروں کی حکومت پر تنقید کرنے والوں کی حکومت کا یہی
حال تھا۔ا ُس دور میں ملک میں ایک عجیب مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ مہنگائی
سے تنگ آچکے تھے۔دھماکوں اور بد امنی کی وجہ سے لوگوں کا گھروں سے نکلنا
مشکل ہو چکا تھا۔
حکومت مکمل کرنے پر خورشید شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے پانچ سال حکومت
اپوزیشن کی پختگی کی وجہ سے مکمل کی اور انہوں نے ہمیں یہ موقع دیا۔اب جو
کہ وفاقی حکومت کو بہت چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہیں تو اپوزیشن کیوں
نواز حکومت کی حمایت نہیں کرتااور اُن سے کیوں یہ موقع گنوانے پر تلے ہوئے
ہیں؟؟کیا ہمارے لیڈر ملک کو بچانے کے کئے ایک نہیں ہو سکتے ؟کیا سیاستدان
انفرادی سوچ کی بجائے اجتماعیت کو فروغ نہیں دیں سکتے ؟کیا سیاست صرف اپنی
پارٹی اور اپنی کرسی تک محدود ہوگیا ؟؟
اگر ہمارے سیاستدان ملکر وفاقی حکومت سے تعاون کرے اور ان کا ساتھ دیں ،
پھر نہ تو دھماکے ہونگے اور نہ ہی عوام میں مایوسی ہوگی۔اگر سب ملکر
اجتماعی سوچ کو اپنے اندر دبا دیں اور اجتماعی سوچ سے کام لیں تو انشائاﷲ
پاکستان کے سارے مسائل حل ہونگے اور ملک میں امن وامان ہوگا۔اب فیصلہ ان کو
کرنا ہے کہ انہیں اپنی پارٹی اور کُرسی پیاری ہے یا اپنا ملک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |