لوک سبھا انتخابات:سیکولر عوام کی سخت آزمائش کی گھڑی

فسطائی طاقتوں کا آخری حربہ دہشت اور خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے اپنی کامیابی کی منزل طے کرناہوتا ہے ۔یہودیوں کو روس سمیت یوروپی ممالک سے نکالا گیا تھا تو پہلے ان کے خلاف ماحول بنایاگیاتھا۔ کسی قوم کے ساتھ اچانک سب کچھ برا نہیں ہوتا بلکہ اس کاآغاز کئی طرح ہوتا ہے مثلاً اس کی تہذیب و ثقافت پر حملہ، اس کے مذہب پر حملہ اور اس کی زبان کو نیست و نابود کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ جب کسی قوم کی تہذیب و ثقافت، زبان اور مذہب باقی نہیں رہتا ہے تو اس قوم میں اتحاد و اتفاق کا عنصر بھی رفتہ رفتہ ختم ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ یہ تمام چیزیں کسی نہ کسی مرحلے میں قوم کو آپس میں جوڑ کر رکھتی ہیں ایک دوسرے سے مربوط رکھتی ہیں۔ ایک دھاگے میں پیروکر رکھتی ہیں اور یہ چیزیں جب ختم ہوجاتی ہیں تو کسی قوم کو نشانہ بنانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کس مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ یہاں منفی زیادہ مثبت پہلو کم ہے۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ ان کا کوئی قومی سطح کا لیڈر نہیں ہے۔ علاقائی کوئی لیڈر ہے تو مسلمانوں کا نہ لیڈر نہ بن کر وہ علاقے، مسلک اور ذات کا لیڈر ہے جس کا اثر ان طبقوں میں بھی نہیں ہوتا جس کی نمائندگی وہ کرتے ہیں۔ اسی تفریق کا فائدہ اٹھاکر یہاں کے سیاست دانوں ، قومی، علاقائی پارٹیوں نے مسلمانوں میں کسی لیڈر کو پنپنے نہیں دیا۔ کسی نے پر نکالنے کی کوشش کی تو اس کا پر کاٹ دیا گیا۔ جب کوئی مسلمان سیاست میں قدم رکھتا ہے اور کسی عہدے پر پہنچتا ہے توپارٹی ہائی کمان ان کو سمجھا دیتی ہے کہ وہ خود اور اپنے خاندان کو دیکھیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی فکر حکومت پر چھوڑ دیں۔قومی سیاسی پارٹی جس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام بھی لگتا رہاہے کے لیڈر نے جو سابق وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں وہ مسلم لیڈروں سے کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں کچھ نہ بولیں ، بولنے کے لئے ہم ہیں۔ جب کہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ریاست میں ایک سازش کے تحت مسلم نوجوانوں کا قافیہ تنگ کیا ایسی سازشی کا شکار بنایا کہ اب تک اس کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہورہی ہے۔ اس ریاست میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے مسلم نوجوانوں کو اس تنظیم کے حامی ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا جاتاہے۔ اس اشارے کا ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم جس کو اپناہمدرد سمجھ لیتے ہیں حقیقتاً وہ کیا ہوتے ہیں اور وہ مسلمانوں کی جڑ یں کس طرح کاٹتے ہیں۔ اگر کوئی مسلم لیڈر ان سب چیزوں کی پروا کئے بغیر مسلمانوں کا کوئی کام کرتا ہے تو انہیں اس کی سزا دی جاتی ہے۔ سابق مرکزی وزیر مرحوم ضیاء الرحمان انصاری کا واقعہ قارئین کے ذہن میں ہوگا کہ انہوں نے مسلم پرسنل لابورڈ کے حق میں آواز اٹھائی تھی توانہیں کس طرح ذلت آمیز الزام کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا پڑا۔ یہاں مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایسے لیڈروں کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوجاتے تاکہ وہ اپنے آپ کو بے سہارا اور مجبور بے بس نہ پائیں۔ یہاں مسلمان غیروں سے زیادہ ان پر تنقید کرتے ہیں اور ان کا جینا دوبھرکردیتے ہیں۔ ہم مسلم لیڈر شپ کی توقع توکرتے ہیں لیکن ان کے لئے کوئی قربانی دینے کیلئے آگے نہیںآتے۔ اس وقت بھی یہی صورت حال ہے ۔ فسطائی طاقتیں ہمارے سر قلم کرنے پر آمادہ ہیں اور ہم ہیں کہ ذات پات، علاقائیت، مسلک اور زبان میں منقسم ہیں۔قوم کے عروج و زوال کی تاریخ میں ایسے کئی موڑ آتے ہیں جب اپنی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا پڑتا ہے جسے ہم نہیں چاہتے۔ معاملہ جب زندگی موت کا ہو تو کڑوی گھونٹ پینی پڑتی ہے اور اس وقت بدترین دشمن میں سے بدتر دشمن کا انتخاب ناگزیز ہوجاتا ہے۔ مسلمان اس وقت اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ عام آدمی پارٹی ہر جگہ وہ حیثیت نہیں کہ وہ فسطائی طاقتوں کا مقابلہ کرسکے۔ مجبوراً ہمیں اس امیدوار کو جتانا ہے جو ہمارے لئے کم نقصان دہ ہیں۔ یہ بات اس وقت مزید اہمیت اختیار کرلیتی ہے جب کھلم کھلا فسطائی لیڈران بدلہ لینے اور الیکشن کے بعد ’کون کٹے گا ‘ جیسے جملے استعمال کررہے ہوں۔ یہ اشارہ کافی ہے کہ ان کا ارادہ کیا ہے اور اگر وہ الیکشن جیت گئے تو کیا ہونے والا ہے۔

اترپرددیش کی کمان امت شاہ کو یونہی نہیں سونپ دیا گیا ہے۔ وہ نریندرمودی کانہ صرف دست راست ہے بلکہ ان کے تمام سیاہ کارناموں میں مشترکہ طور پر شریک ہے۔ گجرات میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین میں جتنی گڑبڑیاں ہوئی ہیں ان پر ہی الزام لگایا گیا ہے۔ اترپردیش کمان اس لئے سونپا گیا ہے کہ تاکہ گجرات کے تجربے کے دہرایا جاسکے۔ کہا یہاں تک جارہاہے کہ عشرت جہاں اور دیگرکیسوں میں امت شاہ کو جان بوجھ کر بچایا گیا ہے کیوں کہ یہی وہ سرا ہے جس کے سہارے نریندرمودی کی گردن ناپی جاسکتی تھی لیکن جب بیچ کی کڑی ہی ٹوٹ گئی تو نریندرمودی کا راستہ خود بخود آسان ہوگیا۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ مرکزی حکومت نے اپنے کچھ بلوں کو پاس کروانے کیلئے بی جے پی سے ڈیل کی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ سی بی آئی نے یہ کہنے کے باوجود کہ ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی جائے گی لیکن چارج شیٹ داخل نہیں کی اور نہ ہی کسی فرد جرم میں اس کا تذکرہ کیا۔ 2013کے گجرات اسمبلی انتخابات کے ایک مرحلے میں جب ووٹنگ ہوچکی تھی بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کی حالت اس مرحلے میں بہت خراب تھی تو اس وقت نریندرمودی بی جے پی آفس میں مسلسل آٹھ گھنٹے تک رہے تھے اور باہر نکلتے ہی یہ اعلان کیا تھا سب ٹھیک ہوگیا ہے اور یہ تجربہ پورے ملک میں دہرایا جائے گا۔ ہوسکتا ہے اس جملے کا مطلب اس وقت سمجھ میں نہ آیا ہو لیکن اب اس جملے کا مطلب اب سمجھ میںآرہا ہے ۔ یہی وجہ ہے بہت ہی اعتماد کے ساتھ امت شاہ 53سیٹوں پر بی جے پی کی کامیابی کا دعوی کر رہے ہیں۔ امت شاہ کو ای وی ایم میں ٹمپرنگ کا ماہر مانا جاتا ہے۔ گجرات کے سابرمتی اور پادرہ اسمبلی حلقہ میں ایسی چیزیں سامنے آچکی ہیں۔ بٹن کوئی دبایا جا لیکن ووٹ بی جے پی کو ہی پڑتا تھا۔ امت شاہ کی اترپردیش کے بارے اتنی خود اعتمادی اسی طرف اشارہ کررہی ہے۔ فسطائی قوتوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ کچھ بھی ہو مودی کو ہر حال میں وزیر اعظم بنانا ہے۔ اس کے لئے سول سروس کے سابق اور موجودہ افسران اس کام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں اس سلسلے میں بار بار شکایت کے باوجود کوئی قدم نہ اٹھانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کی ہمدردی نریندر مودی کے ساتھ ہے۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملات پر بی جے پی کے ساتھ نرم رویہ اور اسے محض وارننگ دیکر چھوڑ دینا کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ ان کا جھکاؤ کس طرف ہے۔ بی جے پی کے لیڈران مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلاتے رہے ، مارنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی باتیں کرتے رہیں، رام مندر بنانے کی بات بابری مسجد شہید کرنے والے لیڈران کھلم کھلاکرتے رہتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے آج ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ جب کہ ضابطہ یہ کہتا ہے کہ ایسے امیدواروں کو الیکشن کے لئے نااہل قرار دے دیا جائے لیکن کمیشن نے آج تک کسی بی جے پی امیدوار کو نااہل قرارنہیں دیا۔

این ڈی ٹی وی اور ہنسا ریسرچ گروپ کے سروے کے مطابق نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی سولہویں لوک سبھا میں 214 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے۔ بی جے پی کو اس لوک سبھا انتخابات میں 2009 کے مقابلے بھاری برتری مل سکتی ہے۔ سروے کے مطابق اب تک کے انتخابی سیاست میں بی جے پی سب سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ہے۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آ رہے ہیں بی جے پی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ این ڈی ٹی وی کے فروری مہینے والے سروے میں بی جے پی کو 195 سیٹیں ملنے کا اندازہ تھا۔مارچ میں یہ تصویر بدل کر 214 تک پہنچ گئی۔ بی جے پی قیادت والے این ڈی اے کو 259 سیٹیں مل سکتی ہیں، جو کہ عام اکثریت 272 سے محض 13 سیٹیں کم ہیں۔

سروے کے مطابق اتر پردیش میں بی جے پی کو زبردست کامیابی ملنے کا امکان ہے ۔ یوپی کی 80 سیٹوں میں سے بی جے پی 53 پر قبضہ کرسکتی ہے۔ اس بار 1998 کے علاوہ بی جے پی کا یوپی میں سب سے بہتر کارکردگی ثابت ہو سکتی ہے۔ 1998 میں بی جے پی کو یہاں 57 سیٹیں ملی تھیں۔ 90 کی دہائی میں بی جے پی نے اترپردیش میں اعلی اور پسماندہ ذاتوں کو اپنے حق میں کرلیا تھا۔ اسی رجحان کو پارٹی 16 ویں لوک سبھا انتخابات میں بھی زمین پر اتارنے میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ بی جے پی نے ریاست کے ہر علاقے میں اپنے بڑے لیڈروں کو کھڑا کیا ہے۔ یہ پارٹی کی اہم حکمت عملی کا اہم حصہ ہے۔اس سروے کے مطابق کانگریس اور آر ایل ڈی اتحاد زبردست نقصان ہونے جا رہا ہے۔2009 میں دونوں پارٹیوں کے پاس یوپی میں 26 سیٹیں تھیں، جو اس بار سمٹ کر 7 رہ جانے کا خدشہ ہے۔ بی جے پی کو ملنے والی برتری کی قیمت سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کو چکانی پڑ سکتی ہے۔2009 کے عام انتخابات میں اتر پردیش میں سماج وای پارٹی کو سب سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں۔ اس بار ایس پی محض 13 سیٹوں پر سمٹ سکتی ہے، جو کہ 2009 سے 10 سیٹیں کم ہیں۔ اس لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے بااثر کارکردگی کے امکان کے بعد مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور تمل ناڈو کی وزیر اعلی جے للتا کی مرکز میں حکومت تشکیل میں شاید کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مغربی بنگال میں کل 42 لوک سبھا سیٹیں ہیں، جن میں سے ممتا 28 پر جیت درج کر سکتی ہیں۔ 39 سیٹوں والے تمل ناڈو میں جیا 25 سیٹوں پر قبضہ کر سکتی ہیں، جو کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے 16 نشستیں زیادہ ہیں۔ کانگریس کو صرف آسام سے خوشی ملنے والی ہے۔ آسام کی کل 14 سیٹوں میں سے کانگریس 11 پر جیت درج کر سکتی ہے۔ 2009 میں کانگریس کو 7 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔

سروے میں کہا گیا ہے کہ کانگریس اس الیکشن میں 104 سیٹوں پر سمٹ سکتی ہے۔ راہل گاندھی کی قیادت میں الیکشن لڑ نے والی کانگریس کو بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے۔ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کو محض 123 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑ سکتا ہے، جو کہ 2009 کے عام انتخابات سے 108 سیٹیں کم ہیں۔ کانگریس ملک کے انتخابی تاریخ میں یہ سب سے بدتر کارکردگی کا مظاہرہ ہوسکتی ہے۔کانگریس نے 1999 میں 114 سیٹوں کے ساتھ اب تک کے انتخابی تاریخ میں سب سے گھٹیا کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن سروے کے مطابق اس بار 1999 سے بھی بری حالت کانگریس کی ہو سکتی ہے۔دوسری طرف بی جے پی پہلی بار 200 سیٹوں سے زائد جیت سکتی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں بی جے پی کا 1999 میں 182 سیٹوں پر جیت اب تک کا سب سے شاندار مظاہرہ تھا۔ بی جے پی کو اتر پردیش میں اچھی کامیابی ملنے کا امکان ہے۔ 80 لوک سبھا سیٹوں والے اترپردیش میں بی جے پی 53 پر قبضہ کر سکتی ہے، جو کہ 2009 کے مقابلے 43 نشستیں زیادہ ہیں۔بی جے پی مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ ہندی بیلٹ میں بی جے پی کے سامنے تمام پارٹیاں بونی ثابت ہو سکتی ہیں۔

اس سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی اور اس کا سرپرست سنگھ پریوار نے مودی کی قیادت میں بی جے پی کو فاتح بنانے کے لئے کس قدر تیاری کی ہے۔ وہ ہر محاذ پر اپنے کارندے بٹھا رکھے ہیں جو بی جے پی کو کامیاب بنانے کے لئے تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر جو حکومت بناتی اور گراتی ہے‘ میڈیا‘ جو رائے عامہ ہموار کرتا ہے‘ افسران جو ہندوستانی نظام کا حصہ ہیں یہ تمام لوگ مودی کو وزیر اعظم دیکھنے کے لئے بے تاب ہیں۔ ان لوگوں نے تمام محاذ سے بی جے پی کی حمایت کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ ای وی ایم کا معاملہ سامنے آہی چکا ہے۔ گزشتہ سال راجسھان اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد اس وقت کے وزیر اعلی اشوک گہلوت نے ایک بات کہی تھی جسے میڈیا نے جان بوجھ کر نظر انداز کردیا تھا کہ ای وی ایم گجرات سے لائے گئے تھے۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ ریاستی انتخابات علاقائی مسائل پر لڑے جاتے ہیں اور اشوک گہلوت نے اچھا کام کیا تھا لیکن جس طرح وہاں کانگریس کی شکت فاش ہوئی وہ سب کے لئے ناقابل یقین تھا۔ یہی نہیں جب وسندھرا راجے راجستھان میں پہلی بار برسراقتدار آئی تھی تو ایک قومی ہندی روزنامہ نے ایک خبر شائع کی تھی جس میں بتایا گیاتھا کہ ان کی کامیابی میں سرکاری ملازمین کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس وقت سرکاری ملازمین مودی کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں تو یہ بعید نہیں ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر الیکشن میں دھاندلی کروائیں۔ جب ای وی ایم میں گڑبڑی کی جاسکتی ہے اور ایک پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالا جاسکتا ہے ۔ جب یہ چھوٹے پیمانے پر ہوسکتا ہے تو بڑے پیمانے پر بھی ہوسکتا ہے۔ اس کا اظہار گزشتہ دنوں دہلی میں انہد کے زیر اہتمام ماہرین نے کیا تھا۔ انہد نے اس موقع پر ایک فلم بھی دکھائی تھی جس میں اس طرح کی گڑبڑی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ معاملہ مودی کی کامیابی یا ناکامی کا نہیں ہے بلکہ ملک میں جمہوریت کی بقا کا ہے۔جو لوگ گجرات کو جانتے ہیں وہ یہ بات آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ وہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔ کوئی بھی مودی کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں کرسکتا ہے اور بولتا ہے اسے سخت سزا دی جاتی ہے جیسا کہ کچھ افسران کے ساتھ ہوا ہے۔اس لئے یہ الیکشن صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ جمہوریت پر یقین رکھنے برادران وطن کے لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ فسطائیت کا انتخاب کرتے ہیںیا اسے مسترد کرتے ہیں۔ اس پر دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں۔ یہ انتخاب ہندوستانی عوام کے مزاج کا اشارہ ہوگا۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.