ساقیا !ایک نظر جام سے پہلے پہلے

عام انتخابات مختلف مراحل میں منعقد ہو رہے ہیں اوررائے دہندگان کا اس ذیل میں جوش و خروش بھی قابل دید ہے حتی کہ ۸۵/فیصد ووٹنگ کی خبریں بھی مو صول ہو رہی ہیں گو یا ہندو ستانی عوام کی فہم و عقل میں جمہو ریت کے اصل معنی ایک تصویری شکل میں آگئے اور یہ حقیقت بھی عیاں ہو گئی کہ جب تک اس ذیل میں عوامی دلچسپی سرگرم نہ ہو ں یہ ایک بھول ہی ہو گی کہ صاف و شفاف اقتدارسازی ہو گی کیو نکہ وہ تمام اجزائے تر کیبی جو جمہوریت کے منافی ہیں باہم مل چکے ہیں اور یہ اتصال دیوانہ وار نہیں بلکہ منصوبہ بند کو ششوں کالازمی نتیجہ ہے بناء بریں ایک سچے ہندو ستانی پر یہ فرض ہو تا ہے کہ اپنے حق رائے دہی کادرست استعمال کرے ۔جہاں تک سیکولر ووٹ کی ہے تو اولااس امر کا ذہن نشیں ہو جاناضروری ہو گا کہ فرقہ پرست او ر’ہندو تو ا‘کے جنوں میں مست لو گو ں کے ووٹ کافی حد تک بی جے پی کے حصہ میں جاچکے ہیں او ران عقل و ہو ش سے بیگانے افراد کا تصو ریہی ہے کہ جب تک مودی صاحب اقتدار نہ ہو جائے انکے جو دیو مالائی خواب ادھورے ہیں وہ پور ے نہیں ہو سکتے بلکہ خواب کاخواب ہی رہ جانے کا قوی اندیشہ ہے تاہم یہ مسرور کن خبر ہے کہ بی جے پی کے سینئرلیڈر نے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ ’ملک میں مودی کی لہر نہیں ہے ‘یہ ان کا اعتراف ہے یا پھر قبل ازوقت اپنی شکست کا اعتراف کرکے جمہوریت او رسیکو لرزم کی بے تابانہ پابو سی کیو نکہ یہ ’’فی طغیانہم یعمہون ‘‘ کی صوری تفسیر یہ جان چکے ہیں کہ جمہوری اقدارکی بحالی عمل اشتراک سے ہے او راسی وجہ سے ا س سرزمین کو ’بھارت ‘کہتے ہیں لیکن پھر بھی ازلی سرشت کامظاہرہ ہونایاکرنا یہ ان کی اپنی سوچ اور فکر ہے اور یہ ہو بھی کیو ں نہیں کہ وہ اپنی کم بختی و حرماں نصیبی میں اس حدتک بلکہ اس مقام تک پہو نچ گئے ہیں کہ وہ خود ’’ذہب اﷲ بنورہم ‘‘کی سراپاتصویر ہیں !

جمہوریت کے سب سے بڑے تیوہار اور جشن کی تقریب منعقدہونے میں صرف اور صرف چند ایام رہ گئے ہیں اس کی تیاریاں شباب پر ہیں ہر ایک طرح کی کو ششیں جاری ہیں کوئی وعدوں او ردعووں کے سبز باغ دکھا رہا ہے تو کوئی اپنی سابقہ مثبت سرگرمیوں کے عوض ووٹ مانگ رہا ہے اگر دیکھاجائے تو بادی النظر میں یہ عیاں ہوتا ہے کہ انتخابی تشہیر یا انتخابی مہم بازی طفل کی طرح ہے کو ئی کسی کو لالی پاپ کاوعدہ دے رہا ہے تو کوئی اس امر پر مصرہے کہ ووٹ ملے خواہ کچھ بھی کرناکیو ں نہ پڑجائے بچوں کے کھیل میں کچھ شرارتی قسم کے لڑکے بھی ہواکرتے ہیں جو دست و گریباں او راٹھاپٹخ کی نو بت تک پہو نچ جانے میں دریغ نہیں کرتے اورکھیل میں اپنی طاقت کارعب جماکر رائے اپنی حمایت و تائید میں کرلینے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں بعینہ یہی صورتحال اور تصویر زارزار فی الوقت ہمارے پیارے ملک کے زعم کجرو میں غلطاں سیا سی لیڈران کی ہے جو محض ووٹ کیلئے بچکانہ حرکتیں بھی کرجاتے ہیں او ربعض دفعہ باہم دست و گریباں بھی ہو نا اپنے لیے مو جب خیر تصور کرتے ہیں اگر کچھ عقل و فہم ،سوچ و تدبر سے کام لیں تو تصویر کچھ مختلف ہو گی لیکن اس عالمگیر خیرہ مذاقی کی افتاد پرماتم کیاجائے یاپھر کچھ او ر؟حالات خواہ کتنے بھی برے کیو ں نہ ہو جائیں لیکن ملک کی سلامتی او ربقاکی شمعیں فروزاں کیے رکھنا مسلمانو ں اور سیکولر ذہنیت کا فرض ہے اگر وہ تدبر و غور سے کام لیں تو ملک کی سلامتی اور بقا کی ضمانت لی جاسکتی ہے ورنہ تو پھر عقل و حواس ماضی میں ہی بیگانگی کی افتاد ناگہاں سے دو چار ہو چکی ہے ۔اب ذرا اس دماغی خلل کااندازہ لگائیے کہ کون ہندو ستانی ہے جو مودی کے ایذاء سے ناواقف ہے گجرات مسلم نسل کشی سینوں میں ابد تک رستی رہے گی لیکن کچھ نام نہاد مو لو ی اور چند کھو ٹے سکوں کے عو ض اپنے ایمان و ایقان کاسودا کردینے والوں نے مودی کی حمایت کااعلان کر دیاہے اس کے ممکنہ نتائج پر غو رکریں اولا:مو دی جیسے موذی کی مخالفت صرف مسلم ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ اغیار بھی اس کی سرشت کو پہچانتے ہیں او راس کو ہمیشہ مستر د کرتے رہے ہیں اس مبینہ حمایت سے جہاں مسلم کی بے حرمتی او ران کے مال و جان کے ضیاع کاددرمفقود ہوتا ہوانظر آتا ہے تو وہیں مودی کی محبت او ر اس سے الفت ظاہر ہو کر یہ تصویر دکھاتی ہے کہ یہ چند افراد نے اپنی حمایت کااعلان کرکے مو دی کو بے قصور ثابت کردیا ہے ثانیا:ان مسلم علماء ،صحافیوں ،دانشوروں اور مثبت فکر کے حاملین مودی کی مخالفت کو اپناایمان خیال کرتے ہیں اس حمایت کے باعث ان کی زبان ہی خاموش نہ ہو ئی ہے بلکہ ان کے وہ دلائل و براہین جن کی رو سے مو دی کو مو ذی ثابت کر رہے تھے، از خودباطل ہو گئے اور یک گونہ اس میں نقص بھی عیاں ہو گیا ثالثا: وہ ایک ظالم اور قاتل صد ہزا رکی حمایت کرکے گرچہ اپنی جیب گرم کررہے ہیں مگر ساتھ ہی ان مقدس ارواح کی تضحیک و تذلیل بھی کررہے ہیں جو گجرات سانحہ میں ظلم و استبداد کے شکا رہو کر جام شہاد ت نوش کیے تھے محض صرف یہ تین ہی شق نہیں ہیں بلکہ اس ذیل میں ہزارہا ہزار شقیں ہیں جو ان ننگ ملت او رننگ دین سے سوال کررہے ہیں کہ آخرکن و جو ہات کے بناء پر یہ مذموم اقدام کیا گیا ہے ؟راقم اس پرحیران ہی نہیں بلکہ سرتاسر ورطہ حیرت میں ہے کہ ایسا کیا ہو ا کہ مو دی کی سابقہ ایذاء رسا سر گرمیو ں کو فراموش کرکے مو دی کی حمایت و تائید کے ذریعہ بے دریغ پابو سی کے خاطر ہمہ تن تیارہیں ؟یہ عقل و ہوش او رغیریت دینی کے موافق ہیں ؟راقم ان ننگ ملت و دین کے خطاب کیلئے دینی غیریت کااگر حوالہ دے تو شایدگراں گذرے تاہم کم ازکم یہ تو خیال کرلیتے کہ وہ ایک ہندو ستانی ہیں اور ان کایہ اقدام سراسر ’بھارتیت‘کے منافی بھی ہے ذرا یک نظر ان کے دلائل پر ڈالتے ہیں تو بڑی افسردگی کاسامناکرناپڑتا ہے کہ کیا سنی (بریلوی )طبقہ کے افراد ہی کیو ں کر نظر انداز کیے جاتے ہیں؟تمام سیاسی جماعت قوم مسلم کے مسائل سے طو طا چشمی اختیار کیے ہو ئی ہیں ان کی نظر میں تمام مسلم ایک جیسے ہیں تو پھر ضرورت ہی کو ن سی آگئی کہ ہم صرف ایک جماعت او رایک طبقہ کے صرف نظر کردہ مسائل کو لیکر بات کریں اور پھر یہاں مسلکی گفتگو تو ہو نی ہی نہیں چاہیے اگر ایسا ہی کچھ ہے تو علماء مشائخ بو رڈ کے مرتب شدہ جامع اصول پر بھی سوالیہ نشان لگتا ہے کہ اسکے قیام کے کیا عزائم ہیں؟ کن امو رکے تحت اس کی طرح و بناء ڈالی گئی ہے ؟ان لو گو ں نے اپنے ایک ہی لفظ کے ذریعہ دو دو وادی عصیاں عبو رکر گئے اور یک لخت اپنے عزائم کااظہار بھی کردیا ان میں کوئی ایوب ہے تو کو ئی مطیع کو ئی حامد ہے تو کوئی قمر افسوس !کب تک ملت فروشی او رضمیر فرو شی کایہ گو رکھ دھندہ چلتا رہے گا؟ او رکب تک ملی تنظیمو ں کے بینر تلے اپنے مکروہ عزائم کی تشنگی سیراب کی جاتی رہے گی ؟

ایک طرف تو کچھ دینار ودرہم کے پجاری ہیں جو محض اسی کی خاطر جیتے ہیں اور ان کی شب و روز اسی کو شش میں گذرتی ہے تو کچھ اقتدار کے خواہش مند ہیں جو تما م جمہوری اقدار کو پامال کرکے صرف اور صرف حکومت و اقتدار کے طلب گارہیں یعنی ان خواستگاران اقتدار عبدالدرہم والدینارکے جامع تعاون سے تمام منصوبو ں کی تکمیل کرناچاہتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ جو کچھ خامیاں رہ گئی تھیں اس کی تلافی ممکن ہو تو دو سری طرف چند سیکولر حضرات ہیں جو اس پس و پیش میں ہیں کہ آیا کس طرح اس معمہ کو حل کیا جائے اور کس طرح اس سے پیدا شدہ مشکلات کا ازالہ ہو؟ مجمو عی صورتحال یہ ہے کہ ایک بار پھر اس جمہو ری ہندوستان میں جمہوریت ،سیکولرزم اپنی بقا ء کیلئے فرقہ واریت اور فرقہ پرست افراد سے برسرپیکار ہے فرقہ پرست جمہوری اقدارکا گلاگھونٹنے پر آمادہ ہیں تو جمہو ریت اپنی رہی سہی رمق کے ذریعہ اس بلا خیز طوفان میں ’’آشاکی دیپ‘‘جلائے ہو ئی ہے اور اس امید پر بے تکان عمل مسلسل جاری ہے کہ ہندو ستانی کی جمہو ریت کو مو دی کاداغ نہ لگ جائے اور جو صاف شبیہ اقوام عالم میں ہندو ستان کی ہے وہ آلو دہ نہ ہو اس کشاکش میں دیکھنایہ ہو گا کہ بازی کو ن لے جاتا ہے او رتاج کس کے سر ہتا ہے تاہم اتناتو ضرور ہے کہ سیکولرزم اور اصل بھارت کی عظمت آج بھی زندہ ہے گرچہ لاکھ دعوے ’مودی کی لہر ‘کے کر لیے جائیں ویسے مو دی کی لہر کوئی ایسی شی نہیں کہ خوفزدہ ہو کر اپنی امیدوں کو فناکر کے مایو سی کی تاریکی میں خود کو غرق کردیا جائے بلکہ اس صورتحال میں تو سیکولرافراد کی اور بھی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس عفریتی طوفان کا مقابلہ کریں اور شکست و ریخت سے دو چارکرکے بتادیں کہ یہ ہندوستان ہے او ریہاں صرف جمہوری سازو آواز کی ہی ہمنوائی کی جاتی ہے ۔یہ تو خود ان کی شکست ہے کہ مرلی منوہرجو شی نے اعتراف کرلیا کہ مو دی کی کو ئی لہر نہیں ہے ،تمام طرح کی کشاکش ہیں لیکن اس کا فیصلہ او ر اس کی تباہی کی تاریخ دو ہی عناصر رقم کر سکتے ہیں وہ یا تو مسلم ہیں یاپھر سیکولر افراد جو ایک نئے بھارت کی تاریخ لکھیں گے اور فرقہ واریت کی قبر پر اپنی کامرانی اور فتحیابی کے جھنڈے گاڑیں گے پھر بھی ان دو نو ں طبقہ کو ہو شیاری اور بیدارمغزی کیساتھ کام لیناہو گا کہ ہم کس کو ووٹ دے رہے ہیں اگر ہمارا ووٹ سیکو لرزم او رجمہوریت کے حق میں گیا تو بالیقین جمہوریت کی فتح ہو گی او راگر ہمارا یہ ووٹ مو دی کی لہر کے زد میں آگیا تو پھر خداکی پناہ !ویسے شرپسند عناصر نے ا سکے تانے بانے بن لیے ہیں شاملی او راس کے مضافات میں ہزارو ں ووٹر و ں کو اپنے حق رائے دہی سے محروم کردیا گیا ہے ان کے نام وٹر لسٹ سے غائب تھے یااگر ان کے نام تھے بھی تو ان کو مردہ دکھایا گیا تھا آخر الیکشن کمیشن کیو ں خامو ش تماشائی ہے ؟آخر باربار یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اس ننگ مزاجی کے مآخذو مصادر کیا ہیں کن لو گو ں کے اشارے پر ایسا ہو تا ہے کب تک فرقہ پرست جمہوریت کو تارتار کرتے رہیں گے اور کب تک جمہو ریت اپنی بقا ء کی جنگ لڑتی رہے گی ؟حتی کہ ایک دن خو د یہ جمہو ریت اپنے وجو د سے ناآشناہو جائے او رکسی بھی قاموس میں اس کے معنی ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ۔ٍ

یہ عام انتخابات جہاں ایک طرف ہندو ستانی جمہوریت کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں تو فرقہ پرست افراد کے خلاف ایک فیصلہ کن معرکہ بھی ہیں کیو نکہ ا س انتخابات سے فرقہ واریت مضبوط یا کمزو رہو گی تو وہیں جمہو ریت بھی اپنی کامیابی کا جشن منانے کی تیاری میں ہے اب اس معرکہ میں خاص کردار متذکرہ بالا دو عناصر ہی ادا کرسکتے ہیں کہ آیا جیت کس کی ہو گی؟کو ن ہو گا اس معرکہ کا بطل عظیم ان تمام مذکو رہ امو رکیلئے ازحد ضروری ہے کہ مسلمان او رسیکولر افراد متحد ہو کر ووٹ دیں کیو نکہ اب براہ راست بھارت کی عظمت پر وار ہو نے والا ہے او ریقینایہی کو شش ان کی بار آور ہو سکتی ہے او ریہ بھی ہو شیاری دامن گیر ہو نی چاہیے کہ ووٹ ہندومسلم یا دیگر بنیادوں پر تقسیم نہ ہو نے پائے اگر ایسا ہو ا تو پھر جمہو ریت کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے بلکہ اس کی تمام تیاریاں بھی کرلی گئی ہیں ۔میخانہ میں تو ہر ایک رندکہن و نو کی بہتات ہے لیکن ساقی کا یہ فرض ہے کہ وہ خیال رکھے کہ کو ن مینو ش و بادہ خوار اس تلخ مے کی تاب لا سکتا ہے لہذا ساقی کو ا س امر کاخیال رکھناضرور ی ہے کہ کو ن ا س کی مئے روح افزا کا مستحق ہے اگر کسی بادہ کش کایہ نعرہ درست ہے تو اس نعرہ رندانہ و بادہ خوارانہ کو آج کے ووٹروں کیلئے منطبق خیال کیجئے کہ ہمارے ووٹر کس کو ووٹ دیں او رکس پر اپنی نامرضی کی مہر لگاتے ہیں یہ اعلان بلکہ یہ نعرہ رندانہ درست ہی خیال کریں کہ جب ساقی کی نظر میں مینوش مے کی تاب نہ لا سکے تب تک مے دینا مسلک مینوشی کے خلاف او رمکروہ ہے ،ووٹر کویہ خیال رکھناہو گا کہ کو ن ا سکے ووٹ کا مستحق ہے او رکو ن نہیں جام سے پہلے مے نو شو ں پر نگاہ رکھناضروری ہے بقول احمد فراز ؂
ساقیا!ایک نظر جام سے پہلے پہلے

Iftikhar Rahmani
About the Author: Iftikhar Rahmani Read More Articles by Iftikhar Rahmani: 35 Articles with 26531 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.