اگر ہم پاکستانی عوام کو درپیش مشکلات و مسائل کا شمار
کریں تو یہ بے شمار ہیں ،اگر ان مسائل کو ترجیحات کی شکل میں مرّتب کریں تو
میرے نزدیک پاکستان کا نمبر، ون مسئلہ قانون کی حکمرانی کا مسئلہ ہے۔جسے
ہمار ا سرمایہ دار، جاگیردار اور حکمران طبقہ کسی بھی صورت قبول کرنے کو
تیار نہیں ،وہ زبان سے تو قانون کی حکمرانی (Rule of Law) کی بات کرتے ہیں
مگر سچی بات یہ ہے کہ قانون کو گھر کی لو نڈی بنانے والے اور قانون کی
دھجیاں اڑانے والے یہی لوگ ہیں جو بر سرِ اقتدار ہیں، یا با اختیار ہیں ۔پاکستان
میں قانون مکڑی کا وہ جالہ ہے جس میں کمزور پھنستا ہے اور طا قتور اس سے
بحفاظت نکل جاتا ہے ۔اہلِ زر سمجھتے ہیں کہ قانون پر عملداری سے ان کی شان
و شوکت، اہمیّت، نمود و نمائش اور بالا تر حیثّیت میں کمی آ تی ہے لہذا وہ
اپنی بالا تر حیّثیت اور شان و شوکت کو قائم رکھنے کے لئے قانون توڑنے ہی
میں اپنی عا فیّت اور راحت سمجھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہی طبقہ
چونکہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو تا ہے بناء بر ایں یہی طبقہ آئین سے
وفاداری کا حلف بھی اٹھاتا ہے مگر آئین کی خلاف ورزی بھی یہی طبقہ کرتا
رہتا ہے۔ بلکہ آئین کی پامالی، قانون کو توڑنے اور قانون کو اپنی ضرورت کے
لئے استعمال کر نے میں انہیں لطف آتا ہے ۔کیونکہ اس طرح ان کی آن بان، شان
و شوکت اور بالا تری کا احساس قائم و دائم رہتا ہے۔
اخبارات یوں تو رنگ برنگی تصویروں اور سیاہ لفظوں کا مجمو عہ ہو تا ہے مگر
غور سے دیکھیں اور پڑھیں تو اس میں آپ کو روز ایسے واقعات ملیں گے جو اس
بات کا واضح ثبوت ہو تا ہے کہ طا قتور ہمیشہ قانون کے جا لے سے نکل جا تا
ہے۔ ان طا قتوروں کے ہا تھوں روزانہ غریب عورتوں کی عصمتیں لو ٹی جا تی ہیں
،دامن داغدار ہو تی ہیں ، ملازم بچّے تشدّد کا نشانہ بنتے ہیں ،قدم قدم پر
غریبوں کے بنیادی حقوق پاؤں تلے روندھے جاتے ہیں ۔ مگر قانون ان کے سامنے
بے بس ہو تا ہے، اس لئے کہ قانون پر عمل کروانے والے بھی یہی لو گ ہو تے
ہیں ۔یہی طبقہ اربوں روپے کی کرپشن کرتا ہے، اربوں روپے کی ٹیکس چوری کرتا
ہے مگر قانون کی گرفت میں نہیں آتا۔دیکھا دیکھی متوسط اور ادنیٰ ملازمین
بھی مقدور بھر کرپشن اور رشوت خوری میں ملّوث ہو جاتے ہیں کیو نکہ ’’ الناس
علی دین ملو کھم ‘‘ لو گ وہی کچھ کرتے ہیں جو ان کے حاکم کرتے ہیں۔
قانون پر عمل در آمد کے لئے پولیس اور عدلیہ ملک میں مو جود ہے مگر کیا
کریں کہ پو لیس تو تخلیق ہی سر مایہ دار اور حکمران طبقہ کی ہے وہ تو اس
طبقہ کے ہر حکم بجا لانے میں ہی عا فیّت سمجھتی ہے ۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق
ہے ،جان کی امان پاوں ، تو حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے لئے سِول
سوسائٹی اور وکلاء نے مِل کر تحریک چلا ئی ،اس لئے کہ عدلیہ آزاد ہو گی،
مضبوط ہو گی تو ملک میں انصاف اور قانون کا بول بالا ہو گا۔عدلیہ کی آزادی
کے لئے چلنے والی تحریک کامیاب ہو ئی تو قوم نے سکھ کا سانس لیا ا ور اس
امیدکا چراغ روشن ہوا کہ اب ملک میں قانون اور آئین کی بالا دستی کا دور
شروع ہو گا مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔سابق چیف جسٹس افتخارمحمد
چو دھری نے انصاف سے انصاف نہ کیا۔وہ ایک متنا زعہ شخصیّت رہے اور ملک کے
اعلیٰ ترین ادارے ، عدلیہ، کا سربراہ اگر متنا زعہ ہو جائے تو پھر انصاف ہو
تا ہوا نظر نہیں آتا جبکہ انصاف وہ ہے جو انصاف ہو تا ہوا نظر بھی آ
ئے۔عدلیہ کا کردار ماضی میں کیا رہا ہے اور ابھی کیا ہو رہا ہے ،اسے لکھنے
یا دہرانے کی ضرورت نہیں ۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارے مقتدر اور حکمران طبقے قانون کا مذاق
اڑاتے ہیں اور پھر یہ بھی چا ہتے ہیں کہ دوسرے لو گ اور عام شہری قانون پر
عمل کریں ۔اس وقت ملک میں لا قانو نیّت اور افراتفری کا جو سمندر برپا نظر
آتا ہے وہ ہمارے ایلیٹ اور حکمران طبقے کا قانون سے رو گردانی ہے ۔اگر
حکمران طبقہ ملک میں حقیقتا قانون و آئین کی بالا دستی چا ہتا ہے تو انہیں
چا ہیئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو قانون کا پا بند بنا ئیں ، قانو ن کا
احترام کریں اور عام شہریوں کے لئے ایسی مثال پیش نہ کریں جسے دیکھ کر وہ
بھی قانون کا احترام کرنا چھوڑ دیں ۔
|