ملک میں بلدیاتی الیکشن ناممکن مسئلہ ہوچکا ہے ، جو کہ حل
ہونے میں ہی نظر نہیں آرہا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں اپنے مقررہ وقت پر
بلدیاتی الیکشن منعقد ہوگئے ہیں مگر باقی کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت
بلدیاتی انتخابات کو اپنے مقررہ وقت پر نہیں کررہی۔ کسی کو حلقہ بندیوں پر
اعتراض ہے تو کسی جماعت کو کوئی اور مسئلہ درپیش ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن بھی
کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہا۔ انہی حالات کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں
بلدیاتی الیکشن ملتوی ہوگئے۔
یہاں پر سوال یہ ہے کہ اگر بلوچستان حکومت بلدیاتی الیکشن مقررہ وقت پر
کروا سکتی ہے تو آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ الیکشن مقررہ وقت پر نہیں
ہورہے ۔اگر یہیں صورتحال رہی تو ناجانے اس ملک کا کیا ہوگا۔ ایک الیکشن کا
مسئلہ حل نہیں ہورہا ۔ شہری پریشان ہیں کہ وہ اپنے کام کس سے کروائیں۔ یہاں
تو الیکشن ویسے بھی کام کے بل بوتے پر کیے جاتے ہیں اگرچہ بعد میں شہریوں
کو لیڈر ڈھونڈنے پڑھتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ حکومت بلدیاتی الیکشن
کا فیصلہ کرکے تاریخ مقرر کرے اور جیسے بھی حالات ہوں الیکشن کردیے جائیں۔
بلدیاتی الیکشن اگر یوں تعطل کا شکار رہیں گے تو پارٹیوں میں ہمیشہ ان بن
رہے گی۔ اگر پارٹیاں آپس میں گتھم گتھا ہوتی رہیں تو شہریوں کا سکون برباد
ہوگا جو کہ اس وقت کی حالت بنی ہوئی ہے۔
15 جنوری کو بی بی سی نے پاکستان میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے ایک دلچسپ
رپورٹ جاری کی تھی۔ رپورٹ میں بلدیاتی الیکشن کے تعطل پر تبصرہ کرتے ہوئے
کہا گیا ہے کہ ہزاروں لاکھوں امیدوار آنکھوں میں چیئرمین، کونسلر منتخب
ہونے کا خواب سجائے میدان میں اتر چکے تھے۔ یہ تمام افراد پنجاب اور سندھ
میں بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔
صرف پنجاب میں پونے دو لاکھ امیدوار انتخابی کاغذات جمع کرانے کے بعد
انتخابی مہم میں مصروف تھے لیکن سپریم کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد الیکشن
کمیشن کی جانب سے بلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیے جانے کے
فیصلے نے ان کی امیدوں پر ٹنوں ٹھنڈا پانی انڈیل دیا ہے۔
اس رپورٹ سی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں تعطل نے
جہاں امید واروں کو مایوس کیا ہے وہیں شہریوں کو بھی کافی پریشانی کا سامنا
ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلدیاتی الیکشن کے معاملے گہری دلچسپی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پابند کرے تاکہ بلدیاتی الیکشن بروقت کیے جاسکیں۔ |