پاک فوج کا ارتقاء در اصل
انتہائی نا مسائد حالات میں وجود میں آنے کی لازوال داستان ہے۔پاک فوج کو
آزادی کے فورابعد میدان عمل میں اپنے فرائض نبھانے کی ذمہ داری سونپ دی
گئی۔پاک فوج آج جس قوت اور طاقت کا سر چشمہ ہے اس کی ابتدا خاصی مخدوش
حالات میں ہوئی۔تقسیم ہند کے وقت حکومت برطانیہ نے فوجی اثاثے غیر منصفانہ
انداز میں بھارت کے حق میں 64 فیصد اور پاکستان کے لیے صرف 36فیصد کے تناسب
سے تقسیم کا اعلان کیا۔رہی سہی کسر بھارت کی تنگ نظری اور ہٹ دھرمی نے پوری
کی۔جب پاک فوج کو اپنے حصے کا مختصر جزو انتہائی مخدوش حالات میں حاصل
ہوا۔پاک فوج کو ابتدا میں سے ہی جنگ سے نابرد آزما ہونا پڑا۔27اکتوبر1947
کو کشمیر کے ہندو فرما ہری سنگ نے سازش کے تحت بھارت کے ساتھ الحاق کا
اعلان کیا لیکن ماؤنٹ بیٹن اور نہرو نے الحاق سے قبل ہی بھارتی فوج کشمیر
پر قبضے کی خاطر سری نگر میں اتار دی۔پاک فوج نے سیز فائر لائن پران کی پیش
قدمی روک لی۔کشمیر کا مسلۂ آج بھی توجہ طلب ہے حالانکہ اقوام متحدہ نے واقع
قراردادیں منظور کی کہ کشمیری عوام فیصلہ کرے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا
چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔
شدید علالت کے باوجود قائد اعظم نے اپنے انتقال سے قبل تینوں افواج کے
یونٹوں کا معائنہ کیا۔قائد اعظم کے فرمودات پر عمل کرتے ہوئے ابتدائی
دشواریوں کے باوجود پاک فوج کے ابتدائی سر براہوں نے دانش مندانہ فیصلے
کییاور فوج کو تری کی راہ پر گامزن کر دیا۔1965کی جنگ میں پاک فو ج اور
ہماری قوم نے جس عزم و ہمت اور جزبے کا اظہار کیا وہ بے مثال ہے۔پاکستان کے
جری سپوت جس طرح وطن کے دفاع کی خاطر اعدادی اعتبار سے خود سے کئی گناہ قوی
دشمن کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹ گئے جس پر آنے والی نسلیں آج
بھی ناز کرتی ہیں۔جرات اور بہادری ؤکی جو داستانیں رقم کی گئی اس نے قوم کے
ہر فرد کا سر فخر سے بلند سے کر دیا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ مسلمانوں کی تاریخ میں ایک ایسا نمایاں مقام بنا
گئی کہ یہ نہ صرف بیسوی صدی بلکہ آنے والے زمانے میں شجاعت جوش ولولہ اور
قومی یکجہتی کی قوت کا دشمن کی انفرادی برتری پر فتح کی مثال کے طور یاد کی
جائے گی۔ 1965ء کی جنگ میں بھارت عسکری قوت میں پاکستان کے مقابلے تین گنا
زیادہ تھا۔ تاہم خدا نے فتح مسلمانوں کو نصیب کی۔ جب اﷲ کی رضا شامل ہو اور
ظلم کے خلاف مسلمان لڑ ے تو دنیا کی ہر قسم کی سپر پاور نیست و نابود ہو
سکتی ہے۔
1965ء میں اگر بھارت کے پاس زیادہ مضبوط عسکری قوت تھی تو پاکستانی قوم کے
پاس نڈر فوج اور اس کی پشت پر پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑ ی
تھی۔ جنگ کے آغاز میں ہمیں بھارتے بڑ ے بمبار اور لڑ اکا طیارے آسمان پر
کافی تعداد میں نظر آتے رہے۔ یاد رہے کی اس وقت بھارتی فضائیہ پی اے ایف سے
تعداد میں تین گنا زیادہ تھی۔ تاہعت۶۶م ہماری کم تعداد میں موجود طیاروں کو
اڑ انے والے پائلٹ شیرکادل رکھتے تھے۔ جلد ہی بھرتء ہوائی فوج پر سبقت لے
گئے۔ نہ صرف پاکستان کی ائیر سپیس سے بھارتی طیارے غائب ہو گئے ہمارے بمبار
جہازوں نے بھارت کے اندر دور دراز علاقوں میں واقع طاقتور ائیر بیس پٹھان
کوٹ، ہلواڑ ہ وغیرہ پر حملہ کر کے نیست و نابود کر دیا۔
دراصل 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی کامیابی کے پیچھے دو عناصر نے
نمایاں اہمیت حاصل کی۔ پہلا عنصر پاکستانی فوج کے سپاہیوں کی ذاتی شجاعت
اور جذبہ جہاد تو دوسری جانب تمام پاکستانی قوم کی یکجہتی اور اپنی فوج کے
پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کھڑ ا ہونا۔ ہماری قوم فخریہ کہ سکتی
ہے کہ سیاسی اختلافات کچھ بھی ہوں جب بھی پاکستان پر کسی قسم کی جارحیت
ٹھونس دی جائے تو قوم اور فوج یک جان ویک قالب ہو جاتے ہیں۔
1965کے بعد مغربی ممالک نے پاکستان میں اسلحے کی درآمد پر پابندی لگا دی
لیکن یہ در پردہ نعمت ثابت ہوئی کیونکہ فوج نے خود انحصاری اور خود ساختہ
ہتھیار سازی کو فوقیت دی۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری تاریخ کا ایک باب
ہے۔ پاکستان کا ایک بازو کٹ گیا۔ ہمارے 90ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے
گئے۔ یہ بڑی افسوس ناک داستان ہے۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی اس سانحے
سے پردہ نہیں اْٹھا کہ آخر مشرقی پاکستان کا المیہ ہوا کیوں؟ اورہماری فوج
نے ہتھیار کیوں ڈالے، جب وہ لڑ سکتے تھے؟ غالباً دنیا میں کبھی 90ہزار فوجی
نے ہتھیاریوں نہیں ڈالے۔ جو صاحب اقتدار لوگ اس سیاسی المیے کے ذمہ دار تھے
انہیں سزا کیوں نہ ملی 3دسمبر 1971ء کو بھارت نے پاکستان کے مغربی محاذوں
پر حملہ کردیا تھا۔ لیکن مارچ 1971ء سے ہی پاک بھارت جنگ شروع ہوگئی تھی۔
جب مشرقی بنگال میں سول وار اور سیاسی بدامنی کے بعد مکتی باہنی نے بھارت
کی بھرپور تائید سے یہاں لڑنا شروع کیا تھا جبکہ 22نومبر1971ء سے واقعی جنگ
شروع ہوگئی جب بھارت نے کھلم کھلا اپنی افواج مشرقی پاکستان میں لڑنے کیلئے
بھیجیں۔ چند دنوں کے بعد مغربی محاذوں پر خون ریز لڑائی کے بعد خاموشی
ہوگئی تھی۔ فیروز پور اور امرتسر پر ہماری افواج کا دباؤ زیادہ تھا۔ مشرقی
پاکستان میں سارا وقت ہماری پوزیشن کمزور رہی۔ بی بی سی کے مطابق ہمارے
سینکڑوں فوجی روز ہتھیار ڈال دیتے تھے۔ ڈھاکہ چاروں طرف سے گھر گیا تھا۔
اردگرد کی کافی جگہوں پر بھارت کا قبضہ ہوگیاتھا ۔ ہماری بحری ، بری اور
ہوائی سروس کسی طرح بھی مشرقی پاکستان میں موثر نہیں تھی۔
پاک فوج میں خواتین کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ ملک کے دفاع کے مقدس فریضے
میں شرکت کا بھر پور موقع فراہم کیا جاتا ہے۔1960سے پاک فوج اقوم متحدہ کے
امن مشن میں شرکت کر کے دنیا کے مختلف سورش زدہ علاقوں میں پاکستان کا پرچم
سر بلند کرتی آئی ہے ان میں کانگو،ویسٹ ایرین،صومالیہ،نیو
کیٹی،کمبوڈیا،مشرقی تیمور،سلووینا،ہیٹی،بوسنیا،لائبیریا،کویت اور یمن
نمایاں خطے ہیں جہاں پاک فوج نے دوسری بین الاقوامی افواج کے شانہ بشانہ
دشوار ترین اور نا مسائد حالات میں امن قائم کرنے کی ذمہ داریاں سر انجام
دی۔
سیاہ چین دنیا کا بلند ترین میدان جنگ ہے جو کشمیر کے پیچیدہ مسلئے سے
منسلک ہے۔13اپریل 1984کو بھارتی فوج نے اس ک غیر متعین سرحدوں سے احترام نہ
کرتے ہوئے نا جائز قبضہ کر لیا۔پاک فوج نے بھارتی پیش قدمی روک دی اور اب
تک دونوں فوجیں بے رحم موسم اور انتہائی دشوار خطے میں صف آرا ہیں۔معرکہ
کارگل صرف آپریشن نہیں تھا بلکہ شمالی علاقوں کی ناقابل رسائی برف پوش
چوٹیوں کے درمیان پیچیدہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب پاکستان اور بھارت
کی طرف سے جنگی داؤ ہیچ پر مبنی مختلف معرکہ آرائیوں کا نتیجہ تھی۔بھارت
شملہ معاہدے کے بعد سے لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیوں میں ملوث رہا
ہے اور اسی کوشش میں لگا رہا ہے کہ کائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستانی حصے
میں مستقل مورچہ بندیاں کرے۔1998-99کے طوفانوں اور سردیوں کے موسم میں
بھارتی فوج سردی کی شدت کے باعث اپنے ٹھکانوں سے پیچھے ہٹھی تو کشمیری حریت
پسند مجائدین طوفانوں کی پرواہ کیے بغیر کارگل کی چوٹیوں پر قابض ہو
گئے۔بھارت نے جواب میں بھاری توپ خانے سے حملہ کیا،معرکہ کارگل پاک فوج کی
تاریخ میں روشن حروف سے لکھا جائے گا کیونکہ حریت پسند مجائدین صرف5 بٹالین
کی مدد سے بھارتی فوج کی خاصی بڑی تعداد سے مقابلہ کیا۔ہماری قوم اپنے فوجی
جوانوں اور قیادت کی جرات،ہمت اور استقلال پر فخر کرتی ہے۔
پاکستان کا میزائل پروگرام خود ساختہ ہے اور اس کے اسلحے خانے میں مختلف
فاصلوں پر مار کرنے اور وار ہیڈ سے لیس ابدالی، غزنوی،شاہین،غوری اور شاہین
IIمیزائلز شامل ہیں ۔پاکستان ’باور‘ نامی کروز میزائل کے بھی کامیاب تجربے
کر چکا ہے جو زمین،فضا،سطح سمندر اور زیر آب جیسے مختلف پلیٹ فارم سے لانچ
کیے جا سکتے ہیں۔مئی 1998میں بھارت نے دوسرا ایٹمی دھماکہ کیا اس سے قبل
1974میں وہ پہلا ایٹمی تجربہ کر چکا تھا۔ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت نے
انتہائی جارحانہ انداز اپنایا اور پاکستان کو اس کے جواب میں ایٹمی تجرباتی
دھماکہ کرنا پڑا تا کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ پاکستان بھی ایٹمی
ہتھیاروں سے لیس ہے۔پاکستان کا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام دفاعی نوعیت کا
ہے کیونکہ پاکستان کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا لیکن کسی بھی
جارحیت کا بھر پور قوت سے جواب دینے اور اسے حملے کی نیت سے باز کرنے کی
صلاحیت سے لیس ہے۔۔
28 مئی 1998 کا دن پاکستانی قوم کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ
اس دن پاکستان نے ایک طویل جد و جھد اور قربانیوں کے بعد اپنے آپ کو ایٹمی
طاقت کے طور پر دنیا سے منوالیا -اس دھماکے کے بعد جہاں پاکستا نیوں کا سر
فخر سے بلند ہوا۔ پاکستان پہلا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت بن سکا ہے اس سے
پہلے عراق نے کوشش کی تھی لیکن اسکا ایٹمی ری ایکٹر اسرائیل نے فضا ئی حملہ
کرکے منٹوں میں تباہ کردیا- ایٹمی طاقت بننے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے
دائمی حریف بھارت کی جارحئیت میں کچھ کمی آگئی ہے اور اب وہ ہم سے دوستی کا
خواہاں ہے -کیونکہ اگر مد مقابل برابر کا ہو تو ہوش ٹھکانے رھتے
ہیں-حالانکہ باقی دراندازیاں اور چالیں جاری ہیں
دسمبر2001میں بین الاقوامی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر دباؤ
کی خاطر تاکہ وہ کشمیر پر اپنے حق سے دستبردار ہو جائے اور بھارتی برتری
قبول کرے بھارت نے اپنی بھر پور عسکری قوت پاکستان کی سر حدوں پرلگادی۔
پاکستان کی بروقت اور بہتر حکمت عملی اور فوجی عزم وثابت قدمی کے پیش نظر
بھارت کو اپنی فوجیں غیر مشروط طور پر ہٹانا پڑیں۔پاک فوج اور ہماری قوم نے
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صف اول کا حلیف ہونے کے ناتے بھاری قیمت
ادا کی ہے لیکن ہمارے ہم وطنوں،پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے تن کی
قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اگر اس کے عوض دنیا میں امن قائم ہو جاتا
ہے اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو جائے تو یہ بات باعث تحفیت ہوگی۔
پاک فوج نے شمالی جنوبی وزیرستان ،بلوچستان اور افغان سرحد کے ملحقہ قبائلی
علاقوں کے معاشی حالات کے افزائش کی غرض سے بے شمار ترقیاتی منصوبوں کو
عملی جامہ پہنایا جن میں تعلیم،صحت ،مواصلاتی نظام اور غربت کے خاتمے کی
مہمات نمایاں ہیں۔ پاکستان کو جب بھی قدرتی آفات نے گھیرا پاک فوج کے
افسران اور جوانوں نے ہم وطنوں کی آزمائش کی گھڑی میں اپنی جانوں پر کھیل
کر امداد پہنچائی خواہ وہ 2005 میں آنے والا زلزلہ ہویابین الاقوامی آفات
جیسے سونامی،بنگلہ دیش میں زلزلہ ،سندھ اور بلوچستان میں سیلاب اور طوفانوں
کی تباہ کاریاں یا تھر میں قحط ہو ، پاک فوج نے انسانی ہمدردی کی خاطر وہ
خدمات سر انجام دی جن پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے۔ |