یہ ایک المناک اور تاریخی سچائی ہے کہ ہندو اور مسلمان کے
بیچ نفرت و عناد کی بیچ بو کر چند مفاد پرستوں نے 1947میں معصوم انسانوں کے
لہو سے سرحدکی لکیر کھینچ کر ہندوستان اور پاکستان کی بنیاد رکھی تھی اور
تب ہی سے نفرت و عداوت کے یہ سوداگر سرحد کی دونوں طرف کبھی سیاست اور مذہب
کے نام پر تو کبھی ذات پات اور مسلک کے کے نام پرلوگوں کو لڑا کر اپنی اپنی
دوکان چمکانے کی مذموم کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔اور اب 2014 کے عام انتخابات
میں سیاست دانوں نے اپنی نفرت انگیز بیان بازیوں کے ذریعہ ماحول کو اسقدر
مکدر کردیا ہے کہ عوام الناس دو مخالف خیموں سے نفرت کے آتش فشاں کو پھٹتے
ہوئے دیکھ رہے ہیں۔حقیقتاًیہ نہ تو صحت مند سیاست کی علامت ہے اور نا ہی
سلیم العقل سیاست کی عکاسی۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جمہوریت صرف الیکشن کا
نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرزِ حکومت ہے جہاں ہتکِ عزت اور آپسی بغض و عناد
کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے تاکہ جمہوریت کے جھنڈے تلے بلا تفریقِ مذہب و
ملت اور ذات پات ہر شہری کوامن و سکون کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھنے کا مو
قع میسر ہو سکے۔
جاری لوک سبھا انتخابات کو نفرت کی سیاست کاموسمِ بہار قراردیا جا سکتا ہے
۔ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے نفرت انگیز سیاست کی آگ میں تیل
چھڑکنے کا کام کیا ہے۔شروعات وشو ہندو پریشد کے کار گذار صدر پروین توگڑیا
نے کی؛ انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ شر انگیز بیان دیا کہ اگر
میں ہندوستان کا وزیرِ اعظم بن گیا تو میں مسلمانوں سے رائے دہی کا حق چھین
لونگا اور مزیدیہ کہا کہ مسلمانوں کو کسی اہم عہدے پر نہیں رہنے دونگا،تمام
عہدے چھین لونگا۔(پتریکا ڈاٹ کام)
گنگا جمنی تہذیب میں زہر گھولنے کے بعد بھی پروین توگڑیا کے خلاف قانونی کا
ر روائی کا نہ ہونا ہندوستانی جمہوریت کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف
ہے۔یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ اس ملک میں جہاں سیکڑوں معصوم ناکردہ گناہوں
کی سزا سلاخوں کے پیچھے کاٹ رہے ہیں ، وہیں ببانگِ دہل جمہوریت کو چلینج
کرنے والے آزادی کے ساتھ دستورِ ہند کا منہ چڑھا تے پھررہے ہیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ اب مسلمان ٹھوکر کھا کھا کر کافی حد تک سنبھل گئے
ہیں ، اسی وجہ سے اسطرح کے بیا نات کے بعدکسی رد عمل سے گریز ہی میں اپنی
عافیت سمجھتے ہیں۔ لیکن یاد رکھئے ایک لمبے عرصے تک خاموشی کے ساتھ الفاظوں
کے تیر سہتے رہنا انسانی فطرت میں نہیں ہے۔پروین توگڑیا تو کیا ،مسلمان
مخالف کوئی حکومت بھی مسلمانوں سے اسکا دستوری حق نہیں چھین سکتی۔دراصل یہ
دریدہ دہن لوگ مسلمانوں کے مخالف نہیں بلکہ پھولتی پھلتی جمہوریت کے لئے
زہر ہلاہل ہیں۔ان بے لگاموں کولگام دینا جنکا کام ہے اگر وہ اپنی ذمہ داری
سے یوں ہی پہلو تہی کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب انہیں اپنی نااہلی کا
تاوان بڑے پیمانے پربھرنا پڑے گا۔
نفرت کی سیاست کا نیا نام گری راج سنگھ ہے۔ بہار کے اس بی جے پی لیڈر نے
ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی کے وزیر اعظم کے
امیدوار نریندر مودی کی جو لوگ بھی مخالفت کر رہے ہیں ان کے لئے لوک سبھا
کے عام چناؤ کے نتیجہ کے بعد بھارت میں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ گری راج سنگھ
ے گڈا ضلع میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ لوگ جو نریندر مودی
کو وزیر اعظم بننے سے روکنا چاہتے ہیں وہ پاکستا ن کی جانب نظریں گاڑے ہوئے
ہیں اور آنے والے دنوں میں بھارت میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں رہے گی ان کے
لئے صرف پاکستان میں ہی جگہ ہوگی۔
سب کو معلوم ہے کہ یہ بیان گیدڑ بھپکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ، لیکن افسوس
اس بات پر ہے کہ جمہوریت کے ان ٹھیکداروں کو جمہوریت کا مطلب ہی نہیں معلوم
ہے۔کیا جمہوریت میں ہر شخص کو اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کا حق نہیں
ہے؟ کیا جمہوریت میں ڈرا دھمکا کر ووٹ لیا جاسکتا ہے؟کیا جمہوریت کے اندر
انتخابات میں شکست خوردہ لوگوں کو ملک میں رہنے کا حق نہیں ہے؟کیا جمہوریت
میں بدلے کی سیاست کی گنجائش ہے؟یہ اور اسطرح کے بہت سارے سوالات ہیں جوایک
جمہوری ملک میں نفرت آمیز سیاست کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔
دراصل نفرت کی سیاست کرنے والے ان لوگوں کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے کیونکہ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بے کردار لوگ ہی کیچڑ اچھالنے کا کام کرتے
ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ نفرتوں کے یہ پتھر نفرتوں کے شیش محل میں رہنے والے
لوگوں نے پھینکے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب ردعمل کی شروعات ہوگی
تو یہ لوگ خود نفرتوں کے شیش محل میں مدفون ہوجائینگے۔ لیکن اصل سوال اب
بھی تشنہء جواب ہے کہ کیا دنیا کی عظیم ترین جمہوریت ہونے کے باوجود ہمارے
پاس نفرت کی سیاست کا پائیدار حل نہیں ہے؟؟؟ |