2014 کی بیزار کن انتخابی مہم

ہر جمہوری ملک میں انتخابات ایک طرح سے جشن کی حیثیت رکھتے ہیں انتخابات رونق وگھماکھمی اور دلچسپی کا سبب ہوتے ہیں لیکن 2014ء کے انتخابات نے ماحول کو تناؤ اور کشیدگی سے آلودہ کردیا ہے۔ ان انتخابات میں اعلیٰ جمہوری روایات کا فقدان ہے، پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار مودی کا پروپگنڈہ کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کے بیشتر حصے کو دولت کے زور پر خریدلیا گیا ہے۔ انتخابات لڑنا دولت مندوں کی عیاشی بن گئی ہے۔ وہ عناصر جو مودی کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں ان میں نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سرمایہ دار بھی شامل ہیں اور ان سب نے اپنے وسائل مودی کی انتخابی مہم میں جھونک دئیے ہیں۔ یہ انتخابات اس قدر غیر معیاری ہوگئے ہیں کہ یہ نہ صرف ملک کی جمہوری بلکہ سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن گئے ہیں۔ یہ بات ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مودی کی انتخابی مہم کی مکمل منصوبہ بندی اور جنگی پیمانہ پر کیا جانے والا پروپگنڈہ بیرونی اور وہ بھی صیہونی اور یہودی تشہیری اداروں کا مرہون مند ہے۔ ان باتوں کے قطع نظر انتخابی مہم کے دوران انتخابی تقاریر، نعرہ بازی، پوسٹروں اور اشتہارات میں استعمال کی گئی زبان نہ صرف اوچھی بلکہ خاصی پست ہے۔ ہم کو 1971ء کے انتخابات کا ایک نعرہ بازی کا معرکہ یاد ہے جو کہ اس طرح تھا۔ کانگریس کا نعرہ تھا ’’غریبی ہٹاو‘‘ بی جے پی کا نعرہ تھا ’’اندرا ہٹاؤ‘‘ جو اب میں کانگریس کہی تھی ’’ہم کہتے ہیں غریبی ہٹاؤ وہ کہتے ہیں اندرا ہٹاو فیصلہ آپ کریں‘‘ کہ کون ہٹایا جائے؟‘‘ اسی طرح حیدرآباد دکن میں جب مجلس اتحادالمسلمین کا کانگریس سے مقابلہ شروع ہوا تو اس وقت کانگریسی کہتے تھے ’’مجلس کو بھگاؤ کانگریس کو لاؤ‘‘ مجلس کا جواب تھا ‘‘مجلس کو آنا ہوگا کانگریس کو جانا ہوگا‘‘ (اس دور میں ایک فلمی گانا’’آنے والے کو آنا ہوگا جانے والے کو جانا ہوگا‘‘ بہت مقبو ل تھا۔ اس شائستگی رواداری اور وضعداری کا اب دور پتہ نہیں ہے۔ الزام تراشی اور جوابی الزام تراشی تو ہر دور میں انتخابی جنگ کا خاصہ رہا ہے لیکن انتخابی مہم کا سارازور ہر پارٹی کے اپنے انتخابی منشور اور منصوبوں پر ہوتا ہے لیکن 2014ء کے انتخابات میں ملک کی اہم جماعت اور اپنی کامیابی کا یقین دلانے والی بی جے پی کا منشور رائے دہی کے پہلے مرحلہ کے دن 7؍اپریل کو جاری ہوا۔ کسی بڑی جماعت کے منشور کے تاخیر سے جاری ہونے کا یہ ایک انوکھا واقعہ ہے۔ ان انتخابات کی مہم کا بدترین پہلو یہ رہا ہے کہ وزیر اعظم کے عہدے کے بی جے پی کے امیدوار نریندر مودی کی انتخابی مہم ، ان کی تقارے کا انداز اور لب ولہجہ قطعی طور پر اس باوقار عہدے کے طلب گار کے شایان شان شائد ہی کبھی نظر آیا ہو۔ ان کے انداز تخاطب کا عامیانہ پن بلکہ بازاری انداز کی وجہ سے ان کا جو تصور ابھرتاہے وہ اس قدر خراب ہے کہ ہم اس کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے سے ہم قاصر ہیں۔ جواہر لال نہرو، رام منوہر لوہیا، کامریڈ ڈانگے، بنات والا، بدرالدجیٰ ، مولانا آزاد، ہیرن مکرجی اور جئے پرکاش نارائن وغیرہ کی تقاریر جن لوگوں نے سنی ہیں ان لوگوں کے لئے آج کی تقاریر ناقابل توجہ بلکہ ناقابل سماعت ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی تقاریر میں تاریخ، جغرافیہ اور معاشیات وغیرہ میں اپنی کم علمی کے باعث کئی بار مضحکہ خیز غلطیاں کیں یہ ایسی فاش غلطیاں ہیں جوکہ آج کل قصبات کی پنچایتوں کے امیدوار بھی نہ کریں دوسری طرف غلط بیانی اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے وہ اتنے ماہر ہیں کہ اطالوی جہاز رانوں (جن پر ہندوستانی ملاحوں کے قتل کا الزام ہے) کو ان کی سزا اٹلی (اطالیہ) کی جیل میں گزارنے دینے کے عدالتی فیصلے کو سونیا گاندھی کے دباؤ میں آکر مرکزی حکومت کا کیا ہوا فیصلہ قرار دے کر اپنی ذہنیت اور کردار کا مظاہرہ کرنے میں بھی ان کو عار نہیں ہے۔ مودی جیسی شخصیت جوکم تعلیمیافتہ ہے اور جھوٹے دعووں، غلط الزام تراشی کرنے کا ماہر ہو کے حامل فرد کا ملک کے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے بھی امیدوار بن کر شائد ہی سامنے آیا ہو۔ نریندر مودی کی وجہ سے 2014ء کا انتخاب یاد گار مانا جائے گا۔ 1952ء کے پہلے انتخابات سے لے کر حالیہ انتخابات تک وزیر اعظم کے عہدے کے لئے ایک پارٹی (بی جے پی) کے نامزد امیدوار اور کانگریس کے غیر نامزد امیدوار یعنی نریندر مودی اور راہول گاندھی کسی صورت سے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے مناسب اور موزوں امیدوار نظر نہیں آتے ہیں۔ نریندر مودی قطع نظر اپنی تمام کمزوریوں یا خوبیوں (اگر ان میں ہوں) کہ گجرات 2002ء فسادات کا داغ اپنے ماتھے سے دور نہیں کرسکیں گے اور اس قسم کی شرمناک بدنامی کے حامل شخص کا کسی ملک کا وزیر عظم بن جانا اس ملک کی بدقسمتی ہوگی لیکن مودی کے سرپرست اعلیٰ آر ایس ایس کے نزدیک مودی کی مسلم دشمنی اور اس کا عملی مظاہرہ ہی مودی کی سب سے بڑی صلاحیت ہے۔ دوسری طرف راہول گاندھی بھی قطع نظر ان کی ناتجربہ کاری کے کسی صورت سے وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار کے لئے موزوں نظر نہیں آتے ہیں آج تک کسی بھی انتخاب میں وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نامزد کردہ یا متوقع امیدوار اس قدر کمزور اور غیر موزوں میدان میں نہ تھے۔ (اندراگاندھی کے قتل کے بعد جب راجیو گاندھی کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا) بعد میں جب وہ وزیر اعظم بنے تو کچھ تو تجبرہ ان کو ہو ہی گیا تھا پھر وہ اندرا گاندھی کے تربیت یافتہ نہ سہی اندرا گاندھی کے بیٹے تھے ایوان اقتدار کے پروردہ تھے۔ یہ سب باتیں راہول گاندھی میں کہاں ہیں؟ 1952ء اور 1960ء کی دہائیوں میں کئی ریاستوں میں سوشلسٹ پارٹی کا بھی زور تھا۔ اس کا انتخابی نشان جھونپڑی تھا۔ دیواروں پر لکھا ہوا ہم نے بھی دیکھا ہے جھونپڑی کو ووٹ دیجئے اس کے آگے پیچھے لوگ لکھ دیتے تھے جھونپڑی میں رہ کر محلوں کے خواب دیکھنے کے لئے جھونپڑی کو ووٹ دیجئے اب ایسی شائستہ روایات کا تصور بھی مشکل ہے۔

یوں تو انتخابات میں تشدد اور خاص طور پر رائے دہی کے دن قتل و خون بھی ہوتا تھا لیکن یہ تشدد بھی وقتی اور محدود علاقہ تک ہوتا تھا۔ آج کل تو سارے ملک کے ماحول میں تلخی ہے، تناؤ ہے بلکہ نفرت بھی ہے۔ انتخابی مہم، انتخابی جلسوں، جلوسوں اور تشہیر و ترغیب کا معیار انتہائی پست ہوچکا ہے۔ انتخابی جلسوں میں حریف امیدوار ایک دوسرے پر ذاتی و شخصی حملے نہیں کرتے تھے ہر امیدوار اپنی پارٹی کے پروگرام بلکہ آزاد امیدوار بھی اپنا انفرادی منشور یا پروگرام پیش کرتے تھے اب تو اپنی بات کم کی جاتی ہے اور حریفوں پر تنقید زیادہ کی جاتی ہے۔ انتخابات کے دوران نفرت اور تلخی اور تناؤ پھیلانے کی بات کرنے کا تصور ہی نہ تھا ۔ وسندھرا راجے وزیر اعلیٰ راجستھان کی طرح چیلنج نہیں کیا جاتا تھا کہ دیکھیں گے انتخابات کے بعد کون کس کے ٹکرے کرتا ہے۔ یا امت شاہ کی طرح بدلہ لینے کی بات کوئی نہیں کرتا تھا۔
آج کل انتخابات میں پیسہ کی ریل پیل نے شائستگی ، شرافت وضعداری اور صبر و تحمل کا خاتمہ ہوگیا ہے یعنی انتخابی مہم کا معیار پست سے پست تر ہوتا چلاجارہا ہے۔ بی جے پی کے کلیدی امیدوار نریندر مودی کی تقاریر میں بازاری پن نمایاں ہے۔ ان کا زیادہ تر وقت اپنے حریفوں کی ہجوکرنے میں یا پھبتیوں کسنے میں گزرتا ہے لگتا ہے ان کے حریفوں سے ان کی کوئی ذاتی پرخاش ہے۔ گوکہ دوسری جماعتوں کے امیدوار بھی معیار کے اس پیمانے پر پورے نہیں اترتے ہیں لیکن بی جے پی والے شائد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چاہے کچھ بھی کرلیں عوام ا کا ساتھ دیں گے ان کی یہ خود اعتمادی ہی ان کو انشاء اﷲ تعالیٰ لے ڈوبے گی۔

اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کے بعد جو انتخابات ہوے یا مرارجی دیسائی اور چرن سنگھ کی حکومتوں کے خاتمہ کے بعد ہونے والے انتخابات میں بھی سیاسی پارٹیوں میں خاصہ تناؤ اور ماحول تلخ تھا لیکن یہ تناؤ یا تلخی کے باوجود تہذیب و شائستگی برقرار رہی تھی۔ اٹل بہاری واجپائی کے دور کی بات ہی اور تھی۔ اس سے نظریاتی اختلافات رکھنے والے ان کی شخصیت پسند کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے کیونکہ وہ بھی اپنے حریفوں کا احترام کرتے تھے۔

مخالف جماعتوں کا ٹکراؤ یا آمنا سامنا جلوسوں اور گھر ے گھر جاکر انتخابی مہم چلانے والوں کے درمیان سڑکوں پر ہوتا تھا۔ سڑکوں پر ہی نعرہ بازی ہوتی تھی لیکن نعرہ بازی میں بھی حدادب عبور نہ کی جاتی تھی۔

حالیہ انتخابات میں انتخابی مہم نہ صرف غیر معیاری و ناشائستہ ہے بلکہ معیار کے لحاظ سے پستیوں کی انتہاء میں گرچکی ہے۔ ایک دوسرے پر ذاتی حملے، طعن و تشنے بھی خاصے بازاری انداز میں ہورہے ہیں۔ اخلاق و آداب سے عاری اس مہم کو نوٹوں سے بھری جیبوں والوں نے قانون کے خوف سے آزاد کردیا ہے۔

بہت پرانی بات تو ہم نہیں کرتے ہیں کہ لیکن 2004ء اور 2009ء کے انتخابات میں بھی ٹی وی چینلز اور اخبارات کی بہتات تھی لیکن تب ’’بکے ہوئے‘‘ ٹی وی چینلز کم تھے ۔ غیر جانبدار زیادہ تھے اب تو لگتا ہے کہ بیشتر اخبارات اور ٹی وی چینلز بک چکے ہیں اور غیر جانبدار بہت کم رہ گئے ہیں۔ سروے اور اوپینین پولس تب بھی ہوتے تھے جو تب بھی غیر جانبداری اور دیانت داری ان سروے رپورٹس اور اوپینین پولس میں بہت زیادہ نہ تھی تاہم آج تو یہ حال ہے کہ لگتا ہے کہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بی جے پی اور مودی کی لہر ظاہر کی جائے پھر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ لگتا ہے کہ ان کی جھڑی لگی ہے ہر روز کوئی نہ چینل ایک نئی رپورٹ لے آتا جو چیز ان کے تعلق سے شبہات کو مضبوط کرتی ہے نیز ان کی یکسانیت کو اگر صحیح مان بھی لیا جائے کہ واقعی مودی کی لہر چل رہی ہے تب بھی تمام رپورٹس میں ایک پارٹی کے حق میں اور دوسری پارٹیوں کے خلاف اعداد و شمار میں اس قدر یکسانیت قرین قیاس نہیں ہے۔ دوسری طرف انتخابات کے تعلق سے خبروں میں نہ دیانت داری ہے اور نہ شفافیت ہے۔ میڈیا کی یہ دھاندلیاں بھی ان انتخابات کو دوسرے تمام انتخابات سے الگ کرتی ہے۔

مودی کے انتخابی جلسوں میں زیادہ تر صرف مودی ہی بولتے ہیں بی جے پی کے دیگر قائدین نہیں ، جلسوں، جلوسوں ، ریلیز میں صرف مودی کے چرچے ہیں۔ لگتا ہے کہ کانگریس کے شعبہ تشہیر نے ٹی وی پر صرف راہول کو دکھانے کا ٹھیکہ دیا ہے تاہم بی جے پی کی تمام تر تشہیر صرف مودی کے لئے ہی ہے۔

بی جے پی کی طرف سے سرمایہ داروں نے اربوں روپیہ تو دیا ہے لیکن مودی کے پروپگنڈے اور عوامی رابطے کے لئے امریکہ اور مغربی ممالک کی کمپنیز نے ملک کی انتخابی مہم میں پہلی بار قدم رکھا ہے۔ یہ انتخابات جہاں کئی اور بے شمار نئی اور قابل مذمت باتوں کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے وہیں مودی کی غیر معیاری، ناشائستہ اور لچر قسم کی تقاریر بھی ان انتخابات کا ایک منفی پہلو ہوگا۔ حزنیہ تو یہ ہے کہ مودی اوران کے چاہنے والے سمجھتے ہیں کہ مودی اپنی رکیک اور مسخرے پن کی حدتک غیر معیاری تقاریر سے عوام کو متاثر کررہے ہیں۔ لیکن ذوق سلیم کے حامل افراد کے لئے مودی کی تقاریر ناگوار ہی نہیں ناقابل برداشت ہیں۔ وہ ان سے بیزار ہیں۔ اکثر اصحاب انتخابی مہم کے خاتمے کے منتظر ہیں تاکہ بے ہودگیوں سے نجات ملے۔

Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 165636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.