حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد ملک میں ایک ایسی بحث
شروع ہو گئی ہے جس سے ملکی اداروں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو ا ہے۔
معاملات ہیں کہ سدھرنے کی طرف جا ہی نہیں رہے ہیں ۔ابھی فوج اور حکومت کے
درمیان تعلقات میں کچھ قلق کی باز گشت باقی تھی کہ میڈیا نے مزید غلط
فہمیاں پیدا کر دی ہیں ۔حامد میر نے اپنے حملے سے پہلے جن خدشات کا اظہار
ایک غیر ملکی صحافتی تنظیم سے خفیہ انداز میں کیا تھا اگر وہ یہی بات
پاکستانی عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کے سامنے کھل کر کرتے
تو ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا تھا مگر اب صورت حال مختلف ہے وہ نجی
طور پر اپنے صحافتی دوستوں سے اس خدشے کا اظہار تو کرتے رہے مگر اپنے ایوان
اقتدار میں بیٹھے سیاسی دوستوں سے انہوں نے کبھی اس کا ذکر نہیں کیا تھا
اور نہ ہی اب ان کے یہ سیاسی دوست تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں حامد میر کے
خدشات کا پہلے سے علم تھا ۔حامد میر اور ان کے خاندان کا آئی ایس آئی اور
اس کے چیف پر الزام لگانا موجودہ دور میں اداروں کے درمیان چپلقش کی وجہ
سمجھنے میں آسانی فراہم کرتا ہے ۔حامد کے ادارے نے جس طرح ان کے اس الزام
پر ان کا ساتھ دیا ہے وہ بھی کئی مفروضوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے
۔جیو کے صدر نے فوج کے بارے میں مقدس گائے کا لفظ استعمال کیا ہے اور جن
خیالات کا اظہار کیا ہے وہ موجودہ حالات میں کسی طور بھی پاکستان کے حق میں
بہتر نہیں ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بھارتی ذرائع ابلاغ نے جس طرح ان کا ساتھ
دیا ہے وہ بھی معاملات کو سمجھنے میں مدد دینے کے لیے کافی ہے ۔کہا جاتا ہے
کہ اگر کسی بھی قوم کو شکست دینی ہو تو اس قوم کے ذہنوں میں اس کی فوج کے
خلاف نفرت بھر دوبھارت اسی منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔ایسے میں پاکستانی عوام
کی یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ حالات پر گہری نظر رکھیں اور ملک میں تیزی
سے رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور کسی بھی صور ت
اپنے آپ کو ان معاملات سے الگ نہ کریں ۔ملک میں اس وقت بھارت نواز قوتیں
کافی سرگرم ہیں اور دیگر بیرونی ملک دشمن طاقتیں بھی پاکستان کو کمزور کرنے
کے درپے ہیں ان قوتوں کو ملک کے اندر بھی کچھ لوگوں کی حمایت حاصل ہے ان
میں سے کچھ دانستہ اور کچھ غیر دانستہ طور پر ان قوتوں کے عزائم کو تقویت
دیتے ہیں پاکستان کے حالات پر نظر رکھنے والے یہاں مئی اور جون میں بڑی
تبدیلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں آئی ایم ایف نے بھی کچھ ایسا عندیہ دے رکھا
ہے ۔طاہر القادری پھر سے متحرک ہونے جا رہے ہیں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے
لیے انہیں بھی کچھ قوتوں کا تعاون درکار ہو سکتا ہے ۔طالبان کے خلاف فیصلہ
کن کاروائی کے لیے اب فوج بے چین ہے شاہد وہ اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے ختم
کرنا چاہتی ہے مگر حکومت مذاکرات کے ذریعے ان کو قومی دھارے میں شامل کرنا
چاہتی ہے اور وہ کئی دوستوں کے ساتھ زبانی وعدوں کی پابند بھی ہے۔بلوچستان
میں بڑھتی ہوئی غیر ملکی مداخلت بھی پریشان کن ہے یہ معاملہ ہے کہ قابو میں
نہیں آرہا ہے ۔اب جبکہ ملک میں جمہوریت ہے اور تمام ادارے اپنے اپنے وقار
اور خود مختاری کے لیے متفکر ہیں حکومت سے بھی کچھ اداروں کے تحفظات ہیں
ایسے میں سب سے بڑے ادارے پارلیمنٹ کا کردار اہمیت اختیار کر گیا ہے یہ بات
طے ہے کہ ملک کے تمام ادارے پارلیمنٹ کے زیر اثر ہیں اورپارلیمنٹ مزید
آئینی ترامیم کر کے اداروں کو اپنے ماتحت کر سکتی ہے یہی عوامی حاکمیت کا
اصلی تصور ہے ۔موجودہ حالات کے پیش نظر قومی اسمبلی اور سینٹ کو اپنا اجلاس
روزانہ کی بنیاد پر منعقد کرنا چاہیے اور تمام امور کی خود نگرانی کرنا
چاہیے ۔اس پارلیمان کو سب سے پہلے اپنے اندر سے اگر کوئی بھارت نواز لوگ
ہیں تو ان کو الگ کرنا ہو گا پھر ملک میں ان عناصر کی نشاندہی کرنا ہو گی
جو غیر ملکی قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل میں سرگرم ہیں ۔اداروں کے لیے نئے
قوائد و ضوابط بنانے ہوں گے سب کو اپنی حدود کے اندر رہ کر کام کرنے کا
پابند بنانا ہو گا ۔موجودہ حالات میں اگر کسی ادارے کو دوسرے کے متعلق کچھ
تحفظات ہیں تو اسے پارلیمنٹ کی طرف رجوع کرنے کا پابند بنانا ہو گانہ کہ وہ
خود کوئی مہم شروع کر دے ۔اس سب عمل میں میڈیا کا کردار بنیادی اہمیت کا
حامل ہے اگر وہ بھی کسی سازش کو شکار ہو جاے تو پھر پاکستانی عوام کی
رہنمائی کون کرے گا لہذا پاکستانی میڈیا کو چاہیے کہ وہ اب انتہائی ذمہ
داری کا ثبوت دے محض اپنی برادری کی بنیاد پر کوئی مہم نہ چلائے بلکہ حالات
کا درست ادراک کرے اور فریق بننے کی بجائے رہنماء بنے ۔میڈیا بھی اپنے اندر
سے بھارت نواز لوگوں سے چھٹکارا پائے کیونکہ پارلیمنٹ اور میڈیا ہی اس ملک
کو مل کر مسائل کی دلدل سے نکال سکتے ہیں ۔ |