پرویز مشرف کے دورِ حکومت کے اختتام کے بعدسے لیکرآج تک
عوام کو دو لفظوں کی جنگ کی نظر کردیا گیا۔ جمہوریت "Demoracy"اور آمریت
"Dictatorship"۔ پچھلی حکومت اور موجودہ حکومت جمہوریت کہ بہت بڑے حامی ہیں
اور یہ مانتے ہیں کے جمہوریت ہی سے سارے مسائل کا حل ہوگا، عوام با اختیار
ہوگی، قانون کی بالا دستی ہوگی اور غریب کو اس کا حق ملے گا۔ پچھلے چار
سالوں سے لیکر آج تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں نے تقریباً
اپنی ہر تقریر میں جمہوریت کے راگ الاپے اور آج بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں
کہ جمہو ریت بہترین انتقام ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ انتقام کس سے لیا گیا یا
لیا جارہا ہے؟ آج دورِ جمہوریت کو پانچ سال ہو چکے ہیں ۔ کیا عوام کو اس کے
بنیادی حقوق مل رہے ہیں؟ کیا دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا ؟ کیا پاکستان میں
تعلیمی نظام یکساں ہوگیا؟ کیا معیشت بہتر ہوگئی؟ کیاملک کا شمار اس وقت
ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے؟ بد قسمتی سے ان سارے سوالوں کا جواب منفی ہی
ملے گا۔ کیونکہ اس جمہوری دور میں ملک کی حالت اور ابتر ہوگئی ، ملک مسلسل
پستی کی جانب گامزن ہے، اگر پاکستان میں اس وقت کچھ پایا جاتا ہے تو وہ
دہشتگردی ہے، ساری بڑی کمپنیاں کوڑیوں کے دام بک رہی ہیں، اسکولوں میں گدھے
بندھے ہیں ، قومی خزانہ خالی ہورہا ہے، حکمران آئی ۔ایم ۔ ایف کہ در پر
کشکول لئے نظر آتے، بجلی ،پانی اور گیس کی شدید قلت میں اضافہ ہورہا ہے ،
عوام مر رہے ہیں اور حکمران کہتے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔اس سے صاف
ظاہر ہوتا کے یہ انتقام عوام سے لیا جارہا ہے کیونکہ پاکستان میں جو لوگ
چار سال پہلے اقتدار میں تھے اور جو لوگ اب اقتدار میں آئے انکا پاکستان
میں کچھ نہیں سوائے ذاتی مفاد کے اور اس بات کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ
موجودہ وزیرِ اعظم صاحب اس وقت ملک کی امیر ترین سیاسی شخصیت ہیں جنکے
اثاثے پونے ۲ ارب سے زائد ہیں جو انہوں نے ظاہر کئے ہیں اور جو نہیں کئے وہ
الگ۔ انکے بچے دوسرے ممالک میں پڑھتے، انکی ساری جائدادد وسرے ممالک میں ہے
اگر انکا کچھ یہاں ہے تو وہ ان کا لالچ ۔ پچھلے چار سال کے دورِ جمہوریت
میں جو کرپشن ہوئی اس نے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے، اس وقت جنتے لوگ بر سرِ
اقتدار تھے انہوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کام کیا۔ہمارے معزز سابق
وزیرِ اعظم سزا کہ مرتکب ہوکر جیل گئے ان کے بعد جو وزیرِ اعظم بنے ان کو
راجہ رینٹل کا خطاب ملا اور کتنے ایسے ارکانِ اسمبلی تھے جنکی ڈگریا ں جعلی
نکلیں ۔ جب کوئٹہ میں لوگ سو سے زائد میتوں کے ساتھ انصاف کے طلبگار تھے تو
رئیسانی صاحب اپنی صاحبزادی کا داخلہ کروانے ملک سے باہر چلے گئے اور جاتے
جاتے ان لوگوں کیلئے ایک ٹشو پیپر کے ٹرک بھجوانے کی ہدایت کر گئے۔ ان کے
دور میں ہی مہران بیس پر حملہ ہوا، جیل توڑ کر دہشت گردوں کو فرار کرایا
گیا۔ سابق چیف جسٹس نے تھپڑ مارنے ، سالن میں نمک زیادہ ہونے پر تو سوموٹو
لیا مگر معصوم انسانوں کے قاتلوں کے خلاف فیصلہ کرنے سے قاصر نظر آئے۔ ان
جمہوریت پسندوں کی اسی کرم نوازی کی وجہ سے عوام و ملک کا بیڑہ غرق ہوتا
چلا گیا اور بل آخر اس جمہو ریت کا دور ختم ہوا ور نواز شریف صاحب کی جماعت
نے الیکشن میں برتری حاصل کی اور جمہوریت ایک باوقار انداز میں منتقل ہوئی۔
جس دن یہ جمہوریت منتقل ہورہی تھی اس دن بھی ملک میں کم از کم دس سے پندرہ
لوگ بے موت مارے گئے۔ آج اس جمہوری حکومت نے بھی اپنے تقریباّ ۹ مہینے پورے
کرلئے۔ اب کوئی ان جمہوریت پسندوں سے سوال کرے کہ ان ۹ مہینوں میں عوام کو
مزید مہنگائی، دہشتگردی، انتہا پسندی، پستی کے علاوہ کیا ملا؟ ملکی معشیت
کو شدید نقصان کا سامنا ہے، عوام مزید قرضوں میں جکڑ گئے ہیں، دہشتگردی کا
عفریت پوری طرح سے اس ملک پر غالب آگیا ہے۔ ان جمہوریت پسندوں کا کچھ نہیں
جارہا اگر مر رہا ہے تو وہ غریب کا بچہ ہے۔ اس وقت اس ملک کے ہر ایک سیاست
دان کی نظر میں جمہوریت وہ ہے جس سے اس کی جائداد میں اضافہ ہو، اس کے گھر
کے اخراجات سرکاری خزانے سے پورے ہوں اگر وہ حکومت میں ہے تو لازم ہے کہ
کئی ملکوں کا دورہ کرے چاہئے اس سے ملک کو فائدہ ہو یا نہ ہو اور اس کو
تمام مراعات حاصل ہوں۔ اس کے برعکس پرویز مشرف کے دور جسے آمریت کا دورکہتے
ہیں اس دورمیں پاکستان کی معشیت مستحکم تھی، ڈرون حملوں کی اجازت مشرف نے
دی مگر اس کے دورِ حکومت میں اتنے حملے نہیں ہو سکے جتنے ان ڈرون مخالف
لوگوں کے دورِ حکومت میں ہوئے۔ پرویز مشرف کے دور میں ڈالر ساٹھ روپے
تھااور آج سو روپے سے زیادہ ہے، پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کا شمار
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہونے لگا تھا اور آج پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
یہ سوال ان جمہوریت کے علم برداروں سے کرنا چاہیے۔ آ ج بھی جب پاکستان اپنے
وقت کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے تووزیرِ اعظم صاحب اپنے دوروں میں
مصروف ہیں جو ان کے نمائندے ہیں وہ پرویز مشرف کو غدار ٹہرانے اور ان کو
سزا دلوانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن کو دھرنوں سے فرصت نہیں اور
کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے نام پر ایک ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ پانچ سال
گزرگئے پاکستان میں ایک ڈیم نہیں بنایا جاسکا جو مستقبل کی سب سے اہم ضرورت
ہے، بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اگلی جنگ پانی کے حصول کیلئے ہوگی اور آج تک
ملک کی کسی سیاسی پارٹی نے اس بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچاادھر بھارت ڈیم
پر ڈیم بنا کر پانی محفوظ کر رہا ہے اور ہمارے حکمران ایک دوسرے پر کیچڑ
اچھال رہے ہیں اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے یہ تمام لوگ
پاکستان سے اور عوام سے کتنے مخلص ہیں۔ایک طرف ملک کی سالمیت پر حملہ
ہورہا، ملک کو اندر اور باہر سے توڑنے کی سازشیں کامیا ب ہوتی نظر آرہیں
اور تمام سیاست دان بشمول حکومتِ وقت آئین کی شِقوں پر بحث و مباحثے میں
مشغول ہیں یا جمہوریت پر تقریر کرتے نظر آتے ۔ ان سب کی نظر میں جمہوریت کی
تعریف الگ ہے ۔ پرویز مشرف نے اگر آئینِ پاکستان کو توڑا یا ان کی وجہ سے
پاکستان کو مشکلات درپیش ہوئیں تو ان کو ضرور سزا ملنی چائیے مگر سزا وہ
عدلیہ اور وہ لوگ دے سکتے جنہوں نے خود پاکستان سے غداری نہ کی ہوکیونکہ
ایک چور دوسر ے چور کو چوری کرنے پر سزا نہیں دے سکتا۔
ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جو پاکستان اور عوامِ پاکستان کیلئے صرف مسائل
کا باعث بنی ، جس نے فائدہ دیا تو صرف ان لوگوں کو جو پہلے سے ہی مالا مال
تھے، جن کا کام پاکستان اور عوام کا خون چوسنا تھا، جو عوام کے ٹیکس کے
پیسوں پہ پلتے رہے اور اپنے آنے والی نسلوں کیلئے جائیداد بھی بنالی ،
جنہوں نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے دہشت گردوں کو امپورٹ کیا ان کو پناہ دی اور
لوگوں کا قتلِ عام کروایا کبھی رنگ، کبھی نسل اور کبھی فرقے کی بنیاد
پر۔ایک عام آدمی کو جمہوریت یا آمریت سے کوئی سروکار نہیں ، اسے سروکار ہے
تو دو وقت کی روٹی سے، اپنی جان و مال کی حفاظت سے، ایک خوشحال زندگی سے،
تعلیم سے،اور انصاف سے۔ درحقیقت ان پانچ سالوں میں کبھی نہ عوام کو کوئی
اختیار دیا گیا، نہ عوام کہ حق میں کوئی فیصلہ کیا گیا۔ سب نے اپنی ڈیڑھ
اینٹ کی مسجد بنا لی اور جمہوریت کے نام پر سیاست شروع کردی۔کسی نے سندھ کو
اپنی جاگیر سمجھ لیا، کسی نے بلوچستان کو الگ کرنے کا منصوبہ بنالیا، کسی
نے پنجاب کو برباد کرنے کا ٹھیکا لیا اور کوئی کراچی پر قابض ہوگیا۔ اگر
غداری کا مقدمہ چلانا ہے تو ان سب سے پہلے ان لوگوں کے اوپر چلایا جائے
جنہوں نے پاکستان سے غداری کی ، عوام ِ پاکستان سے غداری کی اور جمہوریت کا
ڈھونگ رچایا۔ اصل آمر یہ خود ہیں اور بدقسمتی سے عوام کی حالت ان مویشوں
جیسی ہے جن کو جہاں ہانکا جائے اسی سمت چلنا شروع کردیتے ہیں ۔ وقت کا
تقاضہ یہ ہے کہ لوگوں کو ذاتی دشمنی کو پسِ پشت ڈال کر بحیثیت ایک قوم بن
کر سوچنا ہوگا، رنگ ، نسل اور فرقہ سے بالاتر ہوکر غلط کو غلط کہنا ہوگا
اپنے لیئے نہیں اپنے ملک کے لیئے سوچنا ہوگا تب ہی اس ملک کی کھوئی ہوئی
ساکھ واپس آسکتی ہے۔ |