مولانا لقمان حکیم جے یو ائی گلگت بلتستان
کے امیر ہیں۔ انہوںنے 1968ء کے اوائل میں گلگت میں قدم رکھا۔تب سے اب تک کی
پینتالیس سالہ زندگی کی نرم و گرم یادیں ان کی متاعِ عزیز ہیں۔ مولانا نے
ایف سی آر کے کالے قوانین بھی دیکھے اور ان کا شکار بھی ہوئے اور پھر ان
کالے قوانین کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کا حصہ بھی بنے۔جامعہ نصرة الاسلام کے
سالانہ پروگرام تقریبِ ختمِ بخاری میں وہ صدر مجلس تھے میں طبیعت کی ناسازی
کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔ رئیس الجامعہ کی خواہش تھی کہ وہ شریک ہوں مگر
انہوں نے معذرت کی، کیونکہ اس دن وہ شدیدعلیل تھے۔ جامعہ کی طرف سے انہیں
خصوصی تحفہ دیا گیا جو ان کے بیٹے نے وصول کیا۔ میں ان کی عیادت کے لیے آج
ان کے دولت کدے میں حاضر ہوا، مولانا نے ہمیشہ کی طرح خندہ پیشانی سے اھلاً
و سہلاً کہا، اپنے پاس بیٹھے مہمانوں کے سامنے اس ناچیز کا ایک جاندار
تعارف کروایا اگرچہ مجھے اپنی حقیقت کا خوب علم ہے مگر لقمان حکیم صاحب کا
حسن ظن ہے کہ وہ ہمیں علماء کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔قارئین ان کے دل و
دماغ میں گلگت بلتستان کی پینتالیس سالہ تاریخ کا ایک نہ ختم ہونے والا
معلوماتی سلسلہ محفوظ ہے۔ آج کی محفل میں مختصراً چند باتیں عرض کیے دیتے
ہوں۔
لقمان حکیم صاحب کو وہ وقت بھی اچھی طرح یاد ہے جب گلگت میں چھ ماہ تک
انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے روٹی پکا کرکھائی تھی، ان کی رہائش کا کوئی
بندوبست نہیں تھا، دن بھر دینی کاموںمیں مگن رہنے کے بعد رات کو وہ کسی کی
چارپائی میں سوجائے کرتے تھے،مولانا لقمان حکیم نے کبار اکابر علماء دیوبند
سے تعلیم پائی ہے، وہ قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرنے کے لیے
اپنے ابائی گاؤں گوہرآباد گئے اور توحید کی اشاعت شروع کی، پھر کیا تھا کہ
ایف سی آر کے دو حوالدار، تمام نمبرداران، جرگہ داران، عوام اور بدعت پسند
مولوی ان کے جانی دشمن بن گئے، یہاں تک کہ مولانا کے سگے بھائی بھی مخالفت
پر اترآئے۔ یہ سچ ہے کہ توحید کی دعوت بہت گراں ہوتی ہے۔ اسی دعوت توحید پر
تو آپ ۖ سے تمام قبائل اور خاندان نے بائیکاٹ کیا تھا اور اذتیں پہنچائی
تھی۔ جب انہیں گوہرآباد کی ہوا راس نہ آئی تو پھر گلگت شہر کا رخ کیا، آج
سے پینتالیس سال قبل شہر گلگت صر ف نام کا شہر تھا باقی تو زندگی کی تمام
ضروریات کا فقدان تھا ۔پھر ایک غریب الدیار کے لیے شہر ہو بھی تو شہری
رونقیں کیا معنی رکھتی ہیں۔ انہوں نے شہر گلگت میں عقیدہ توحید کی پرچار
شروع کی، غیروں کی ریشہ دوانیوں کے ساتھ اپنوں کی بے رعنائیاں بھی ان کا
راستہ روکنے کے لیے کام آئی مگرہوتا وہی جو منظور خد ا ہو۔ احقاق حق اور
ابطال باطل کی وجہ سے مولانا لقمان حکیم کی کئی پیشیاں پولیٹیکل ریذیڈنٹ
اور بڑے تحصیلدار کے پاس ہوئی مگر وہ اپنے کام سے کہاں باز آنے والے تھے۔
قاضی عبدالرزاق مرحوم(فاضل دارالعلوم دیوبند) کی محبتیں مولانا لقمان حکیم
کے ساتھ تھی۔بقول لقمان حکیم صاحب کے کہ پورے گلگت بلتستان میں قاضی
عبدالرزاق کے پائے کا کوئی عالم دین نہیں تھا،قاضی صاحب نے آخری دم تک
حکومت کی کوئی پیشکش قبول نہیں کی۔ وہ بے نفس آدمی تھے''،قاضی عبدالرزاق کے
ساتھ ملکر مولانا لقمان حکیم نے سینکڑوں مشکل قضیے نمٹائے۔ علاقائی عدالتیں
شرعی فیصلہ کرنے کے لیے عوام الناس کو قاضی عبدالرزاق کے پاس بھیجتی تو
قاضی صاحب مولانا لقمان حکیم کوشرعی فیصلوںمیں معاونت کے لیے ساتھ بٹھاتے
اور دونوں مل کر یہ فیصلے صادر فرماتے۔ لقمان حکیم صاحب کا کہنا ہے کہ'' وہ
تو کتابی کیڑا تھا، کتابوں کے حوالے ازبر تھے اور علمی کتابوں کو انتہائی
حد تک سمجھتے تھے ۔ ایک وقت تک قاضی کی آواز جامع مسجد کے دیواروں تک محدود
تھی، کوئی ان کے ساتھ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ شروع شروع میں بہت نرم
دل تھے مگر شرکیات و بدعات اور رذیلات اور خرافات فی الدین نے انہیں سختی
پر ابھارا اور پھر قاضی صاحب نے دینی معاملات میں انتہائی سختی شروع کی۔
اللہ نے اس حوالے سے انہیں شرح صدر فرمایا تھا، وہ حق کی آواز بن کر ابھرے
اور مجھے بھی اپنے ساتھ ملایا، آج دور دور تک بھی اس کا سایہ نظر نہیں آتا''۔
جامعہ نصرة الاسلام کی تعمیر و ترقی میں بھی مولانا لقمان حکیم کا مرکزی
کردار ہے۔ خود قاضی عبدالرزاق نے انہیں اولین ناظم تعلیمات مقرر کیا تھا۔
مولانا لقمان حکیم کے ایک ساتھی بلتستان میں ایک دینی ادارہ بنارہے تھے اس
کی افتتاح کے لیے اسلام آباد سے مولانا عبداللہ شہید کو بلایا تھا اور گلگت
سے قاضی عبدالرزاق اور ان کے رفقاء کو بلایا تھا۔ مولانا لقمان حکیم کے
اصرار پر عبداللہ شہید اسکردو سے گلگت آئے اور پانچ دن یہاں رہے۔یہاں انہوں
نے قاضی عبدالرزاق کی خدمت میں گزارش کی کہ ہر حال میں مدرسہ کا کام شروع
کیا جائے۔یوں قاضی عبدالزاق صاحب نے جامعہ نصرة الاسلام میں درس نظامی کا
افتتاح کیا اور جس بے سروسامانی کے ساتھ شروع کیا اس کا مزہ تب آئے گا جب
کوئی مولانا لقمان حکیم کے الفاظ و زبان سے سنے گا۔ قارئین آپ کو حیرت ہوگی
کہ قاضی عبدالرزاق کے پہلی شرط یہ تھی کہ'' جو بھی مدرسہ میں درس و تدریس
یا کوئی اور خدمت کرے گا وہ تنخواہ نہیں لے گا'' ۔ اور قاضی صاحب کی آواز
پر سب سے اول لبیک کرنے والے مولانا لقمان حکیم تھے۔یہ مولانا لقمان حکیم
کا حق ہے کہ ا ن کے جذبات و خدمات کا اعتراف کیاجائے۔
میں جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں پھر
گھنٹوں مجھ سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ گلگت بلتستان کی سیاسی نشیب و فراز
سے خوب واقف ہیں۔ پاورپالیٹکس کے گُر سے مولانا لقمان حکیم اچھی طرح آگاہ
ہے۔ ان کا سینہ معلومات سے بھرا پڑا ہے۔ ایک طویل عرصہ انہوں نے تنظیم اہل
سنت میں گزارا، جے یوآئی گلگت بلتستان کے امیر کی حیثیت سے آج بھی ان کا
کردار واضح ہے۔گزرے دنوں کی یادیں ان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ ان کے پاس
تلخ یادیں بھی ہیں اور نرم گوشے بھی۔وہ آج بھی اپنے اندر ایک جوان دل رکھتے
ہیں اور تازہ عزم۔ ان کے عزم میں کمی نہیں دکھائی دیتی۔ وہ اپنے اکابرکا
اخلاص، للہیت اور فراست دینی کا متلاشی ہے مگر گلگت بلتستان میں یہ عظیم
صفات ان کو نہیں ملتی ۔ انہیں اس بات کا سخت قلق ہے کہ عوام میں فراست دینی
اور اخلاص موجود نہیں ہے۔ وہ ایک دردناک آہ کے ساتھ گویا ہوتے ہیں کہ''
علماء میں قناعت، فراست دینی، اخلاص اورتقویٰ ناپید ہے''۔
قدیم علماء سے ملنا اور ان کی یادیں قلمبند کرنا میرا محبوب مشغلہ ہے۔ مجھے
دکھ اس وقت ہوتا ہے کہ جب اس کارِ خیر کے لیے مجھے وقت نہیں ملتا۔ اور ان
کو کیوں وقت ملے جو دنیا کی بھول بھلیوں میں کھو جائیں۔میری کتاب ادھوری ہے۔
میں مولانا لقمان حکیم کی طرح سختیوں میں کام کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ جامعہ
نصرة الاسلام نے تعلیم و تعلم کے لیے کافی آسانی پید ا کی ہیں مگر میں اتنا
مستفید نہیں ہورہا ہوں جتنا ہونا چاہیے تھا۔ مولانا لقمان حکیم گلگت
بلتستان کی معلومات کا ایک حسین انسائی کلوپیڈیا ہے۔ غضب کا حافظہ پایا ہے۔
جب وہ شرکیات و بدعات کی بات کرتے ہیں تو د ل کرتا ہے کہ انسان سنتا
جائے۔ان کے پاس تفصیل سے اتنی حسین یادیں ہیں کہ ان کو یادوں کا تاج محل
کہا جاسکتاہے۔ لقمان حکیم کا سیاسی وژن بالکل کلیر ہے۔ وہ جے یو ائی کو ایک
نظریاتی جماعت دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ بہتوں سے شاکی بھی ہیں کہ نظریاتی و
قومی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی جارہی ہے۔مولانا لقمان حکیم
نے اس وقت درس قرآن عام کیا جب اس کا رواج نہیں تھا۔انہوں نے بے شمار خفیہ
گوشوں سے اس فقیر کو آگاہ کیا۔ کچھ باتیں اور یادیں ایسی بھی ہیں جو قرطاس
کے سپرد نہیں کی جاسکتیں۔ اور بہت کچھ ایسی بھی ہیں کہ فی الحال ان کا موقع
محل نہیں ہے۔ مولانا لقمان حکیم گلگت بلتستان میں علماء دیوبند کی ایک یاد
گار ہے۔ مجھے سمیت ہر ایک کو ان کی سیاسی باتوں سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر سچ
یہ ہے کہ ان کی دینی خدمات، اور ان کی نیت پر شک کرنے کی قطعاً گنجائش
نہیں۔وہ تو شیخ القرآن غلام اللہ خان، مولانا احمد علی لاہوری، حافظ الحدیث
عبداللہ درخواستی اور قاضی عبدالرزاق کے علمی ورثے کا ایک نرالا باب
ہے۔قاری طیب اور مفسرِقران شمس الحق افغانی سے شرف تلمذ حاصل ہے اور ان کی
خدمت کا موقع ملا ہے۔ایسے بزرگوں کی زیارت بھی کارثواب ہے۔خدا ان کو سلامت
رکھے۔آمین |